سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی

سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں 38 سال بعد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے انتخابات ہوں گے

9فروری 1984ء کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونینز پر پابندی یہ کہہ کر لگائی کہ اس کے نتیجے میں تعلیم کا حرج ہوتا ہے، طلبہ ہنگامے کرتے ہیں، لڑتے جھگڑتے ہیں۔ لیکن حالات و واقعات اور اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا کہ طلبہ یونین پر پابندی کے وقت جو الزامات لگائے گئے، پابندی کے بعد ان مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے، کیونکہ پابندی کے بعد ہی اُس وقت کے وزیر تعلیم ڈاکٹر افضل کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اس پابندی کو غلط قرار دیا اور اقرار کیا کہ پابندی کے بعد ان مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے مجلے ”ہمقدم“ سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1947ء سے 1984ء تک تعلیمی اداروں میں 151 طلبہ تصادم ہوئے جن میں 14 طلبہ جاں بحق اور 248 زخمی ہوئے۔ ان تصادم میں پولیس سے ہونے والے تصادم بھی شامل ہیں۔ اس دوران 941 طلبہ گرفتار، ایک ہزار 480 پر مختلف مقدمات اور 62 کو سزائیں ہوئیں،60 طلبہ کا تعلیمی اداروں سے اخراج بھی ہوا۔ ان اعداد و شمار میں مشرقی پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔
طلبہ یونین پر پابندی کے بعد یعنی 1984ء سے 2010ء تک صرف 26 برس میں 600 سے زائد طلبہ تصادم کے نتیجے میں لگ بھگ 190 طالب علم جاں بحق اور 1050 کے لگ بھگ زخمی ہوئے، 910 طلبہ کا تعلیمی اداروں سے اخراج ہوا اور 5 ہزار 950 طلبہ گرفتار ہوئے۔
جب طلبہ یونینز پر پابندی لگائی گئی اُس دور میں صرف تعلیمی اداروں پر ہی نہیں بلکہ مارشل لائی دماغ نے ہر جمہوری ادارے پر قدغن لگائی، کیوں کہ ملک سے جمہوریت رخصت کردی گئی تھی۔ بہرحال سندھ میں ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی جب محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو انہوں نے 1989ء میں طلبہ یونینز کو بحال کرنے کا اعلان لیکن بحالی ممکن نہ ہوسکی۔
1993ء میں اسلامی جمعیت طلبہ نے سپریم کورٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے رٹ دائر کی اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں فل کورٹ نے ”اویس قاسم بنام سرکار کیس“ میں طلبہ یونین بحال کرنے کا فیصلہ دیا۔
اپریل 2008ء میں پیپلزپارٹی ہی کے دورِ حکومت میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ملک بھر میں جمہوریت کی نرسری بحال کرنے کا اعلان تو کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
یہ بات درست ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد طلبہ کو وہ ادارے اور ماحول میسر نہیں آسکا جس میں طلبہ کی فکری اور تعمیری صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں، اور نہ ملکی سیاست کو تربیت یافتہ سیاست دان مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ یونین کے بعد ملکی سیاست بانجھ نظر آتی ہے، اور طلبہ یونین پر پابندی کے بعد ملک کو ملنے والی سیاسی قیادت کا شدید بحران ہے اور موجودہ اسمبلیوں میں یہ خلا شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے طلبہ کو وہ ادارے اور ماحول نہیں مل سکا جس میں طلبہ کی تعمیری اور فکری صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔
دنیا بھر میں طلبہ یونین کو سیاست کی نرسری سمجھا جاتا ہے، جہاں سے پڑھے لکھے ماحول میں ایسے افراد تیار ہوکر معاشرے کو ملتے ہیں جو ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اور سیاست میں رہتے ہوئے عدم برداشت، سیاسی قائدین کا احترام اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ اسی نرسری سے تربیت لے کر نکلنے والوں کا خاصہ تھا۔ لیکن پاکستان میں یہ عمل روک دیا گیا، جمہوریت کی نرسری کا گلا گھونٹ دیا گیا، اور جب نرسریاں بند کردی جائیں تو خاردار اور خودرو جھاڑیاں ہی اُگا کرتی ہیں یا جنگل پروان چڑھتے ہیں، جس کے نتیجے میں نئی سیاسی قیادت کی تربیت تو کجا وہ لفظ سیاست سے ہی بے بہرہ ہوگئی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے کو ’’اوئے‘‘ سے مخاطب کیا، مغلظات بکی گئیں اور دلیل کی جگہ الزامات نے لے لی۔
آمریت کے سائے میں پروان چڑھنے والوں کو تو چھوڑیں، جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے بھی جمہوریت کی نرسری کی بحالی کی کوششیں نہیں کیں، کیونکہ خود ان سیاسی جماعتوں میں دور دور تک جمہوریت موجود نہیں اور وہ موروثی سیاست کا شکار ہیں۔
بہرحال پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا ہے، اور سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے، یوں سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں 38 سال بعد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے انتخابات ہوں گے جو ایک اچھا اور قابلِ تحسین قدم ہے۔ اس پر پیپلزپارٹی کی تعریف تو بنتی ہی ہے، ساتھ ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ اور پروگریسو اسٹوڈنٹس کی بھی تعریف بنتی ہے جو وقتاً فوقتاً طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کرتے رہے، خاص کر اسلامی جمعیت طلبہ، کہ جس نے تعلیمی اداروں میں کسی نہ کسی حد تک طلبہ یونین کی سرگرمیوں کو زندہ رکھا ہے۔
سندھ اسمبلی سے منظور شدہ بل کے مطابق تعلیمی ادارے 2ماہ میں طلبہ یونین کے قواعد و ضوابط طے کریں گے، طلبہ انتخابات کے ذریعے 7 سے 11 نمائندوں پر مشتمل یونین منتخب کریں گے، تعلیمی اداروں میں ہر سال طلبہ یونین کے انتخابات ہوں گے، تعلیمی ادارے کی سینیٹ اور سینڈیکيٹ میں طلبہ یونین کی نمائندگی ہوگی، تعلیمی ادارے کی انسدادِ ہراسمنٹ کمیٹی میں بھی یونین کی نمائندگی ہوگی، تعلیمی اداروں میں ہتھیار رکھنا اور لے کر چلنا ممنوع ہوگا، تعلیمی اداروں میں آتش گیر مواد بھی ممنوع ہوگا، تدریسی، تعلیمی و انتظامی امور میں رخنہ ڈالنا جرم ہوگا، تفریق اور ناانصافی کو روکنے کے لیے طلبہ یونین کردار ادا کریں گی۔ تکریمِ اساتذہ، سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ… صحت مند، بامعنی، بامقصد مکالمے کا فروغ طلبہ یونین کے نمائندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی… کلاسز کا بائیکاٹ، تعلیمی ادارے میں ہڑتال اور درس گاہ کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی… یونین طلبہ کی سہولیات اور ماحول کے لیے کام کرے گی۔ یونین کا کام طلبہ کی بہتری اور سماجی فلاح ہوگا۔ طلبہ کے مفاد کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی اِس بار بھی صرف اعلان ثابت ہوگی یا اس پر عمل درآمد بھی ہوگا اور کتنا ہوگا؟ پھر کیا طلبہ یونین 1984ء سے پہلے والی یونین کی شکل میں بحال ہوگی یا اس کا ڈھانچہ بدل دیا جائے گا؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات اور خدشات ہم سب کے ذہنوں میں ہیں۔
میرے خیال میں حکومت تمام طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے حلف لے کہ وہ تعلیمی اداروں اور طالب علموں کو سیاست میں ملوث نہیں کریں گی تاکہ درس گاہوں کا تقدس پامال نہ ہو۔