مسعود خان۔۔۔سفارت سے سفارت تک

بھارت کو ایک کشمیری باشندے اور کہنہ مشق سفارت کار کی واشنگٹن ڈی سی میں موجودگی سے خاصی پریشانی تھی

امریکہ نے آخرکار تاخیر سے سہی، سردار مسعود عبداللہ خان کے بطور سفیر تقرر کی منظوری دے دی۔ حکومتِ پاکستان نے کئی ماہ قبل امریکہ میں سفیر اسد مجید خان کی مدت پوری ہونے کے بعد اپنے سفیر کے طور پر آزاد کشمیر کی صدارت سے سبک دوش ہونے والے سردار مسعود خان کا نام بھیجا تھا، مگر امریکیوں نے اس نام کی کلیئرنس کے عمل کو کچھ غیر ضروری طوالت کا شکار بنایا، اور اس طوالت میں بھارت کو کھُل کھیلنے کا ایک موقع میسر آگیا۔ بھارت دوست امریکی ری پبلکن کانگریس مین اسکاٹ پیری نے صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر مسعود خان کے تقرر کی فائل کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس خط میں مسعود خان پر جہادسٹ اور دہشت گردوں کو گلوریفائی کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ اسی طرح امریکہ میں مقیم بھارتی شہریوں کی ایک تنظیم ’دی فائونڈیشن فار انڈیا اینڈ انڈین ڈائس پورہ اسٹڈیز‘ نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ مسعود خان نے پانچویں برسی پر برہان وانی کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی۔ ایک مقام پر لکھا کہ یہ تقرر نہ صرف امریکی مفادات بلکہ امریکہ کے دوست بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔ اس نکتے سے صاف عیاں تھا کہ بھارت ایک کشمیری شخصیت کے امریکہ میں سفیر مقرر ہونے پر چیں بہ جبیں ہے۔ بھارتی اخبارات نے امریکی کانگریس مین کے اس خط کی خوب تشہیر کی، اور یہ کہہ کر خوشی کے شادیانے بجائے کہ امریکہ نے مسعودخان کے تقرر کو مسترد کردیا ہے، جس پر دفتر خارجہ کے ترجمان کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ گوکہ منظوری کی معین مدت گزر چکی ہے مگر یہ معمول کی کارروائی ہے۔ امریکہ نے بھی اس تقرر کی کلیئرنس کے معاملات کو تاخیر کی وجہ قرار دیا۔ اب امریکہ نے مسعود خان کے تقرر کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد بھارت کے خوشی کے شادیانے ماتمی دھنوں میں بدل گئے ہیں۔
مسعود خان کا تقرر ایک معمول کی کارروائی تھی۔ یہ کسی بھی ملک کا حق ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنی سفارت کاری کی ذمے داری سونپے۔ پاکستان نے بھی یہ حق استعمال کیا، مگر بھارت کو ایک کشمیری باشندے اور کہنہ مشق سفارت کار کی واشنگٹن ڈی سی میں موجودگی سے خاصی پریشانی تھی، اس کے لیے مسعود خان کے خلاف ایک مخصوص بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خرابی کی جس سطح پر ہیں اس میں یہ بات قطعی بعید نہیں تھی کہ امریکی حکام بھارتی پروپیگنڈے کے زیراثر اس تقرر کی منظوری نہ دیتے، کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی خرابی کی نوعیت یہ ہے کہ عمران خان اور جوبائیڈن کے درمیان ایک سال سے ٹیلی فونک رابطہ نہیں ہوا۔ جوبائیڈن ذاتی طور پر عمران خان سے نالاں اور شاکی نظر آتے ہیں، اور عمران خان کھلے بندوں امریکی پالیسیوں اور مغربی رویوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ وہ عالمی منظر پر امریکہ کی پالیسیوں کے کڑے ناقد بن کر اُبھرے ہیں۔ اس خرابی کے باوجود امریکہ نے کچھ ردوکد کے بعد اس تقررکی منظوری دے دی۔
مسعود خان ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں جن کا آبائی تعلق راولاکوٹ کے سدوزئی قبیلے سے ہے۔ مسعود خان آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان کے قریبی عزیز ہیں۔ زبان وبیان پر قدرت رکھنے والے اور درس و تدریس، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے نیوز کاسٹر کے طور پر اپنا سفر شروع کرنے والے مسعود خان نے فارن سروس میں قسمت آزمائی شروع کی، پھر وہ اس سفر میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ مسعود خان امریکہ، چین، اقوام متحدہ اور کئی دوسرے ملکوں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہیں کچھ سیاسی خدمات کے بدلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مفاہمت کے تحت آزادکشمیر کی صدارت کا منصب پیش کیا۔ اس انتخاب میں نوازشریف کے قریبی ایک سینئر بیوروکریٹ فواد حسن فواد کا کردار اہم بتایا جارہا تھا۔
مسعود خان آزادکشمیر کے ایک روایتی صدر ہی رہے، اور ان کی صدارت کے کھاتے میں کوئی بڑا اور غیر معمولی کارنامہ نہیں۔ اس منصب پر انہوں نے جیسے تیسے اپنے پانچ سال پورے کیے۔ آزادکشمیر کی صدارت کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے دوبارہ نئے انداز سے ان کی خدمات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں امریکہ میں سفیر مقرر کیا۔ یوں مسعود خان کے اس سفر کو ’سفارت سے سفارت‘ کا سفر کہا جاسکتا ہے۔ درمیان میں انہوں نے صدارت کا مزہ بھی چکھ لیا۔ اب امریکہ میں بطور سفیر مسعودخان کو ایک تنی ہوئی رسّی کا سفر درپیش ہے۔ انہیں امریکہ میں بھارت کے حد درجہ بڑھتے ہوئے اثرات کا چیلنج درپیش ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی خرابی ایک اور مشکل ہے۔ اس ماحول میں کشمیر ی شہری کی حیثیت سے انہیں اس منظر کو اس انداز سے تبدیل کرنا ہوگا کہ امریکہ میں کشمیر کو بھارتی عینک سے دیکھنے کا سلسلہ ختم نہ سہی تو کم ضرور ہو۔ اس وقت امریکی پالیسی ساز اور طاقتور ادارے بھارتی بیانیے کے سحر میں گرفتار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر چپ سادھے اور آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ ایک کہنہ مشق اور کشمیر کے مسئلے سے ذاتی تعلق رکھنے والے سفارت کار کی صلاحیتوں کا اصل امتحان یہ ہے کہ اس منظر کو بدلا جائے۔ اگر کچھ اور نہیں بدلتا تو کم ازکم امریکہ کی عینک کا نمبر ہی بدل جائے کہ وہ کشمیر کو بھارت کی نظر سے دیکھنے کا رویہ تبدیل کرے۔ اس کے برعکس اگر مسعود خان صدارت کی طرح بطور سفیر بھی دن گزارنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر اس سے ان کی ذات کو تو فائدہ ہوگا مگر کشمیر کاز اور پاکستان کے مفادات کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا۔