امریکہ افغانستان کا مجرم:قطر معاہدے کی خلاف ورزی امریکہ کررہا ہے

گزشتہ سال 15 اگست کو افغان سرزمین سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا اور قابضین کی جانب سے مسندِ اقتدار پر ڈھونگ انتخابات کے ذریعے بٹھائے گئے صدر اشرف غنی، دوسرے حکومتی عہدیداروں اور سرکاری و فوجی منصب داروں کے مال و دولت کے ساتھ دوسرے ممالک کو نکلنے و فرارکے بعد امید بندھی تھی کہ واشنگٹن قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29فروری2020ء کو ہونے والے معاہدے کے حرف حرف پر قائم رہتے ہوئے عمل درآمد کا پابند ہوگا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ حالاں کہ اسلامی امارت نے انخلا کے دوران کسی بھی طرح کے عدم تعاون و عدم معاونت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ امریکہ تھا کہ جس پر معاہدے کے باوجود خوف طاری تھا۔ بگرام ایئربیس راتوں رات خالی کرکے اس کے فوجی نکل گئے۔ چناں چہ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد بھی پیشروئوں کی روش یہی رہی۔ امریکہ سمیت عالمی برادری کے عدم تعاون اور مدد سے ہاتھ کھینچنے کے باعث افغان عوام شدید انسانی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک کی نصف آبادی کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر ایک ملین بچے بھوک سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مالی و معاشی ابتری کے باوجود یہ نئی افغان حکومت ہے کہ جس نے ملک کے اندر حکومتی عمل داری قائم کر رکھی ہے۔ نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں دراصل انسانی حقوق کا بزعمِ خویش پاسبان و علَم بردار واشنگٹن حائل ہے۔ کابل نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ ان کے وفود دو طرفہ سیاسی و معاشی تعلقات کی خاطر، اور دنیا کو افغانستان کے بارے میں اطمینان دلانے کے لیے وقتاً فوقتاً دورے کرتے رہتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکہ افغانوں کے جائز حق تک پر سانپ کی طرح بیٹھا ہے۔ افغانستان کے 9 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے ہیں، جن میں سے 7 ارب ڈالر کے اثاثے امریکہ کے پاس ہیں۔ باقی رقم جرمنی، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ اور قطر میں ہے۔ طرہ یہ کہ افغانستان کے منجمد کیے گئے اثاثوں کی واپسی کے بجائے امریکہ نے خطیر رقم پر ڈاکا مارا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے صدارتی حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں، جس کے تحت افغانستان کے منجمد اثاثوں میں سے7بلین ڈالر جاری کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جس میں 3.5 بلین ڈالر 11 ستمبر2011ء کو جڑواں عمارتوں کے انہدام کے متاثرین میں تقسیم کیے جائیں گے۔ باقی کی رقم بھی افغان حکومت کے بجائے اپنے طور پر انسانی امداد کی مد میں خرچ کرنے کا کہا گیا ہے۔ کابل کی حکومت نے قرار دیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغان عوام کی رقم کی چوری اور اسے ضبط کرنا کسی ملک اور قوم کی انسانی اور اخلاقی گراوٹ کی نچلی سطح کی نمائندگی کرتی ہے، جنگ میں ناکامی اور فتح پوری تاریخ کا حصہ ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی اور شرمناک شکست وہ ہوتی ہے جس میں فوجی شکست کے ساتھ اخلاقی شکست بھی شامل ہوجائے۔ افغان حکومت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فنڈز جاری کرے اور انسانی تباہی سے بچنے میں مدد کرے۔
دیکھا جائے تو یہ ایک مسلمہ اور واشگاف حقیقت ہے جو پوری دنیا کے سامنے موجود ہے کہ خود امریکہ افغانستان کا مقروض و مجرم ہے کہ جس نے نائن الیون سانحے کے بعد ایک آزاد ملک پر جدید وسائل کے ساتھ حملہ کرکے اسے تاراج کردیا، 20سال تک اسے اپنا مقبوضہ بنائے رکھا، لاکھوں افغان قتل ہوئے، لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے، غربت اور کسمپرسی کو ان کا مقدر بنایا گیا، انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہوئیں۔ خواتین کے حقوق کا امریکہ اور دوسرے حواری ممالک نے ڈھونگ رچا رکھا ہے، لیکن افغانستان پر حملے کے دوران اَن گت خواتین اور بچے پیوندِ خاک کردیے گئے، اور قبضے کے بیس سال کے دوران متواتر یہ سیاہ عمل دہرایا جاتا رہا۔ غیر ملکی افواج جنگی جرائم کے ساتھ انسانی جرائم کی بھی مرتکب ہوئی ہیں، جس کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ خصوصاً افغان حکومت کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا آغازکردے کہ 8 اکتوبر2001ء کو حملے کے بعد تسلط کے ان 20 سالوں میں کتنے افغان مرد، عورتیں اور بچے موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ املاک کی تباہی اور جنسی زیادتیوں کے واقعات منصفانہ طور پر دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔ قابضین کے کاسہ لیسوں کی زیادتیوں کو ریکارڈ پر لایا جائے۔
نئی افغان حکومت کو پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کا نہ صرف ادراک ہے، بلکہ وہ اس پر قائم بھی ہے۔ وہ علاقائی سالمیت اور عدم جارحیت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی نیت رکھتی ہے اور نہ کسی کو اپنے ملک و معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتی ہے۔ وہ سیاسی، معاشی و اقتصادی تعاون و مراسم اور باہمی مفادات کی دعوت دیتی ہے۔ اس نے ملک کے اندر بدترین بدخواہوں سے بھی ترکِ تعلق نہیں کیا ہے، بلکہ روابط رکھے ہیں۔ تہران میں کمانڈر طورن اسماعیل اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود سے بھی رابطہ رکھا۔ اس کے برعکس افغانستان کے خلاف تخریب کی پالیسیاں زیر غور ہیں۔ امریکہ، چند یورپی ممالک، ہمسایوں میں ایران و تاجکستان کے اندر مزاحمت کے نام پر دفاتر کھولنے کی اطلاعات ہیں۔ سابق کابل حکومت کے چند افراد یا کمانڈروں کو پاکستان میں نقل و حمل کی چھوٹ ملی ہے۔ یہ اشارے خطے میں بقائے باہمی اور افغانستان کی خودمختاری، سلامتی اور استحکام کے خلاف ہیں۔ سرِدست پاکستان کسی بھی غفلت و غلطی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان سمیت دنیا کے ممالک کو نئی افغان حکومت تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے زوردار آواز اٹھانی چاہیے۔ نیز امن پسند اور انسان دوست افراد افغانستان کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں کہ اس درماندہ ملک کو اپنے جائز اثاثوں سے محروم نہ کیا جائے، ان کی حکومت تسلیم کی جائے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ مستحکم افغانستان خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔ افغان حکومت ملکی نظم و نسق پر قادر ہے۔ اس کے احتساب اور شفافیت کے ارادے مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں نہ صرف قانون شکن گروہ داعش کو پنپنے نہیں دیا ہے، بلکہ قلیل مدت میں معاشی و اقتصادی ترقی کا سفر بھی شروع ہوگا۔ پچھلی حکومتوں کی بدعنوانی کی داستانیں بن چکی ہیں۔ ان حکومتوں کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد عالمی امداد اور تعاون پر قائم تھا، اور یہ بجٹ بڑی بے رحمی سے بدعنوانی کی نذر ہوتا رہا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کا پندرہواں بدعنوان ترین ملک رہا۔ گویا اس وقت کی بھوک، افلاس، غربت اور معاشی بحران کا ذمے دار امریکہ ہے۔ افغان عوام متواتر اس سلوک و برتائو کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ منجمد اثاثوں کی بندر بانٹ کی پاکستان نے بھی مذمت کی ہے، اور اس رقم کو افغانستان کی ملکیت کہہ دیا ہے۔