تعلیمی اداروں میں طالبات کی ”پراسرار اموات“

ایسے روح فرسا، لرزہ طاری کردینے والے سانحات کے تسلسل نے سندھ میں حکومت، قانون اور انتظامیہ کی کارکردگی اور عمل داری پر بہت سارے بڑے بڑے سوالات کھڑے کردیئے ہیں

’’رویئے زار زار کیوں؟ کیجیے ہائے ہائے کیا!!‘‘ بظاہر لگتا یہ ہے کہ سندھ بھر سے حکومت کی رٹ بالکل ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ باب الاسلام صوبہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں آئے دن حصولِ تعلیم کے لیے جانے والی طالبات کے ساتھ ناروا سلوک، بدسلوکی کے بڑھتے ہوئے واقعات، اور پراسرار انداز میں ہونے والی اموات کے باعث اہلِ سندھ بجاطور پر سکتے کی کیفیت سے دوچار ہوگئے ہیں۔ ابھی پراسرار انداز میں رونما ہونے والے ایک المناک اور ہولناک سانحے کی تلخ یاد اذہان سے محو نہیں ہوپاتی کہ اچانک دوسرا دردناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے، اور ایسے روح فرسا، لرزہ طاری کردینے والے سانحات کے تسلسل نے سندھ میں حکومت، قانون اور انتظامیہ کی کارکردگی اور عمل داری پر بہت سارے بڑے بڑے سوالات کھڑے کردیئے ہیں، اور لگتا یہ ہے کہ حکومت کی رٹ صوبے بھر میں بالکل ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں اور بلیک میل کرنے، اور ان کی بڑھتی ہوئی پراسرار اموات کے سلسلے نے والدین کا چین و قرار بھی یکسر ختم کر ڈالا ہے۔ مذکورہ واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات نہ ہوتے دیکھ کر طالبات شدید احساسِ عدم تحفظ میں مبتلا ہوگئی ہیں، اور لگتا یہ ہے کہ اگر حکومت نے طالبات کو ہراساں، بلیک میل اور مبینہ قتل کرنے والے سماج دشمن، جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کرکے انہیں نشانِ عبرت نہ بنایا تو طالبات بجائے حصولِ تعلیم کے، خوف زدہ ہوکر محض اپنے گھروں تک ہی محدود ہوجائیں گی، اور ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح جو پہلے ہی اطمینان بخش نہیں ہے، اس میں مزید کمی آجائے گی۔ حال ہی میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نواب شاہ کی سالِ آخر کی دادو سے تعلق رکھنے والی طالبہ ڈاکٹر پروین رند کو ہاسٹل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام مصطفی راجپوت کی جانب سے ہراساں اور بلیک میل کرنے کا واقعہ سامنے آیا ہے، جس نے سندھ بھر میں ایک طرح سے غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے، اور مختلف شہروں میں اس واقعے کے خلاف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور دھرنے دیئے ہیں۔ ڈاکٹر پروین رند نے اپنی پریس کانفرنس میں رورو کر بڑے دل فگار انداز میں بتایا ہے کہ مذکورہ ڈائریکٹر بہت عرصے سے اسے بار بار مختلف مواقع پر حیلے بہانوں سے ہراساں اور بلیک میل کرتا چلا آرہا ہے اور اس کی دیدہ دلیری اور سفلہ مزاجی کا عالم یہ ہے کہ اُس نے ڈاکٹر پروین رند کو اس کے پرسنل نمبر پر بلیک میل کرنے کی غرض سے گھٹیا نوعیت کے پیغامات پر مبنی میسجز تک کیے، جس کے اسکرین شاٹس میڈیا پر موجود ہیں، تاہم طالبہ، ڈائریکٹر کے پست اور گھٹیا عزائم اور مطالبے کے جواب میں مسلسل مزاحمت کرتی رہی، جس کی وجہ سے طیش میں آکر ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام مصطفی راجپوت نے ظالمانہ قدم اٹھاتے ہوئے ہاسٹل وارڈ انچارج ڈاکٹر فرحین اور ڈاکٹر آرتیکا کا سہارا لیتے ہوئے مبینہ طور پر اسے قتل کرنے کا ایک منصوبہ تشکیل دیا، جس پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ دونوں خواتین ڈاکٹرز نے ہاسٹل کی ہائوس آفیسر ڈاکٹر پروین رند کو نہ صرف سخت تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس کا گلا گھونٹ کر قتل کرنے کی بھی ناکام کوشش کی، جس پر طالبہ ڈاکٹر پروین رند نے اپنی جان بچانے کی خاطر سخت مزاحمت کی اور شور مچایا، جس کے نتیجے میں دیگر طالبات اور عملہ اکٹھا ہوگیا، اس طرح ڈاکٹر پروین رند کی جان تو بچ گئی لیکن اسے شدید جوٹیں لگیں، جس کی تصدیق اس کی طبی معائنے کے بعد سامنے آنے والی رپورٹس سے بھی ہوگئی ہے۔ مذکورہ متاثرہ مضروب طالبہ نے رورو کر میڈیا کے سامنے کہا ہے کہ ’’تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات خودکشی نہیں کیا کرتیں بلکہ یونیورسٹی کے آفیسرز، انتظامیہ اور ہاسٹل کے ڈائریکٹرز سمیت دیگر نوجوان ڈاکٹرز طالبات کو بلیک میل کرنے کے بعد انہیں قتل کرکے خودکشی کے ڈرامے کرتے ہیں۔ مجھے بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد میں نے مزاحمت کی، اور بمشکل اپنی جان بچا پائی، ورنہ میری لاش بھی پنکھے سے لٹکی ہوئی ملتی‘‘۔
متاثرہ ڈاکٹر طالبہ کی آہ و فغاں پر مبنی چند منٹ کا جو کلپ سندھی نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے اس نے سارے ماحول اور معاشرے میں ایک طرح سے خوف و تشویش اور غم و غصے کی شدید لہر دوڑا دی ہے، اور صوبے بھر میں سخت احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو تادم تحریر جاری ہے۔ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے خود متاثرہ طالبہ نے ننگے پائوں پریس کلب نواب شاہ کے سامنے دھرنا دیا ہے، جس کے کئی گھنٹوں بعد ایس ایس پی ضلع نواب شاہ اور سابق ایم پی اے علاقہ پریس کلب پہنچے اور ڈاکٹر پروین رند کو تحفظ اور ملزمان کی گرفتاری کا یقین دلایا، جس پر متاثرہ طالبہ نے اپنا احتجاج ختم کیا ہے۔ واقعے میں ملوث ملزمان گھروں سے فرار ہوگئے ہیں۔
دریں اثنا چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب احمد علی شیخ نے طالبہ پر تشدد کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے یونیورسٹی کے رجسٹرار، کمشنر، ڈی سی نواب شاہ، ایس ایس پی اور متعلقہ ڈی آئی جی کو 15 فروری کو اپنے ہاں عدالت میں رپورٹس کے ساتھ طلب کرلیا ہے۔ ’’اب دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘۔
اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی کی ڈاکٹروں اور نرسوں نے بھی ایک مظاہرہ کیا ہے جس میں ڈاکٹر پروین رند کے الزامات کو غلط اور من گھڑت قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک سال پیشتر بھی پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نواب شاہ سے وابستہ پیپلز میڈیکل اسپتال میں ڈی ایچ او نواب شاہ کی جانب سے ایک لیڈی ڈاکٹر کو ہراساں کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد بجائے ملوث افسر کو سزا دینے کے، اعلیٰ افسران نے اسی ڈی ایچ او کو اسی اسپتال میں ایم ایس مقرر کرکے مزید خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہراساں کرنے کے آسان مواقع فراہم کرنے کا قابلِ مذمت کردار ادا کیا تھا۔ نواب شاہ، پیپلزپارٹی کے موجودہ روحِ رواں اور معاون چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی شہر ہے، جہاں اس نوع کے تشویش ناک واقعات سمیت قانون شکنی اور قتل و غارت گری کے بڑھتے ہوئے واقعات صوبہ سندھ پر گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی حکومت کی بدانتظامی، نااہلی اور اس کی رٹ نہ ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔ گزشتہ دنوں خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کی ایک طالبہ کو بھی دو افراد نے جو یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوگئے تھے، اغوا کرنے کی کوشش کی، لیکن بس میں موجود طلبہ و طالبات کی مزاحمت اور شور مچانے پر دھر لیے گئے، اور بعدازاں بذریعہ رجوانی (جرگہ) انہوں نے معافی تلافی کرکے اپنی گلوخلاصی کروائی ہے۔ ہفتۂ رفتہ ہی سندھ یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر میں سوشیالوجی کی طالبہ الماس بھان بھی اغوا کی ناکام کوشش، ہراساں اور بلیک میل ہونے کی وجہ سے اپنی جامعہ کو خیرباد اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر جانے پر مجبور ہوگئی ہے، جسے سندھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سمیت عوام نے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتِ سندھ کی بجا طور پر واضح ناکامی گردانتے ہوئے اس واقعے کو ایک المیہ اور سانحہ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب جاوید میمن ایس ایچ او تھانہ تماچانی ضلع سکھر کی جانب سے ایک خاتون نزہت صنم کو گزشتہ بارہ برس سے بلیک میل اور ہراساں کیا جارہا تھا۔ مذکورہ خاتون کی جانب سے ٹھوس ثبوت مہیا کرنے کی وجہ سے ڈی آئی جی سکھر طارق عباسی نے ملزم ایس ایچ او کو لاک اپ کروانے کے بعد اس پر مقدمہ دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ چند واقعات تو دراصل ’’مشتے نمونہ ازخروارے‘‘ کے مصداق ہیں، ورنہ سندھ بھر میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور انہیں بلیک میل کرکے ان کا استحصال کرنے کے اَن گنت بھیانک واقعات رونما ہورہے ہیں، حتیٰ کہ خود قانون کے محافظ بھی ان مکروہ واقعات میں ملوث دکھائی دے رہے ہیں جو بلاشبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ جہاں تک سندھ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبات کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کا تعلق ہے تو اس مذموم سلسلے کے رکنے کے فی الحال کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ماضیِ قریب میں سندھ یونیورسٹی میں تانیہ خاصخیلی، دادو کی ڈاکٹر عصمت اور نائلہ رند، اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں ڈاکٹر نمرتا کمہاری اور ڈاکٹر نوشین شاہ کی پراسرار الم ناک اموات کے سانحات رونما ہوئے، لیکن ملوث ملزمان کیفرِکردار تک نہیں پہنچ پائے، جس کی وجہ سے طالبات کے والدین اور عوام شدید مضطرب اور پریشان ہیں کہ خدانخواستہ کوئی اور سانحہ جنم نہ لے لے۔ اسی طرح سے ماضی میں مس امرت، ارم بروہی، کنول خاتون اور لاڑکانہ کی فہمیدہ سیال، تھرپارکر کی فضا راجپوت، نواب شاہ کی عاشی چنداوڑ کے ساتھ ہونے والے مظالم اور بدسلوکی کے ملزمان بھی تاحال کیفرِکردار کو نہیں پہنچ سکے ہیں، جو حکومت اور قانون کی رٹ اور عمل داری کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اس خراب اور پریشان کن صورت حال کے سبب اہلِ سندھ جو اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے خواہش مند ہیں، مایوس اور دل گرفتہ ہوتے جارہے ہیں۔ اور سندھ کے تعلیمی اداروں کی ساکھ بھی بہت بری طرح سے متاثر اور مجروح ہوئی ہے، لیکن حکومتِ سندھ کے متعلقہ ذمے داران کے کانوں پر پھر بھی کوئی جوں تک رینگتی ہوئی محسوس نہیں ہورہی ہے۔ اس اثنا میں ہفتۂ رفتہ ہی لمس جامشورو کی جانب سے پراسرار انداز میں مرنے والی بے نظیر میڈیکل کالج لاڑکانہ کی طالبات ڈاکٹر نمرتا کمہاری اور ڈاکٹر نوشین شاہ کے کپڑوں اور مُردہ اجسام سے لیے گئے اجزا کی ڈی این اے رپورٹ بھی منظرعام پر آئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’دونوں طالبات کے کپڑوں اور اجسام سے لیے گئے اجزا 50 فیصد یکساں نوعیت کے حامل ہیں، اور یہ ایک ہی مرد کے ہوسکتے ہیں‘‘۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے سے اہلِ سندھ میں ایک طرح سے بے پناہ اضطراب اور بے چینی نے جنم لیا ہے، اور بجا طور پر یہ ایک تہلکہ خیز اور لرزہ خیز رپورٹ ہے جس کے منظرعام پر آنے سے ایک طوفان اور کہرام سا برپا ہوگیا ہے اور میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بھی کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ بے نظیر میڈیکل کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ سے ہاسٹل میں آنے جانے والے اہم افراد کے ڈی این اے کے اجزا بھی طلب کرلیے گئے ہیں، لیکن متعلقہ انتظامیہ نے لمس سے تعاون کرنے کے بجائے الٹا لمس پر ہی الزامات عائد کرنا شروع کردیئے ہیں کہ اس کی جانب سے یہ رپورٹ کیوں کہ منظرعام پر لانا غلط تھا اس لیے یہ عمل غیر قانونی ہے۔ یعنی ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘۔ لمس کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’مبینہ ملزم کا تعلق لڑکیوں کے ہاسٹل کے شعبے سے ہے جو نہ صرف لڑکیوں کے ہاسٹل تک باآسانی رسائی رکھتا تھا بلکہ اس کے پاس لڑکیوں کے کمروں کی انٹری لاکز چابیاں بھی تھیں‘‘۔ الزامات کی زد میں آنے والی میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ نے جس برہمی سے مذکورہ رپورٹ کو مسترد کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’دال میں ضرور بہت کچھ کالا ہے‘‘ اور اس ردعمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ ملزمان کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لمس کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ سے تمام تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ حکومتِ سندھ کو تو یہ قدم ڈاکٹر نمرتا کمہاری کی پراسرار موت کے موقع پر ہی اٹھالینا چاہیے تھا، ہوسکتا ہے اس صورت میں بعدازاں ڈاکٹر نوشین شاہ کی پراسرار موت کا سانحہ بھی رونما نہ ہوتا۔ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بھی سارے معاملے کی رپورٹ سندھ اسمبلی میں پیش کرنے کی بات کی ہے۔ ان سانحات کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بھی حکومتِ سندھ سے قبل نوٹس لیا جاچکا ہے اور انکوائری کے احکامات صادر کیے جاچکے ہیں، اور یہ کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ تمام سندھی نیوز چینلز پر یہ بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوگئی کہ لمس کی جانب سے ڈاکٹر نمرتا کمہاری اور ڈاکٹر نوشین شاہ کی اموات پر ڈی این اے رپورٹ جاری کرنے کے معاملے پر حکومتِ سندھ نے بے نظیر میڈیکل کالج یونیورسٹی لاڑکانہ کی وائس چانسلر ڈاکٹر انیلہ عطا الرحمن کو 45 روز کی جبری رخصت پر روانہ کرکے وقتی طور پر ڈاکٹر حاکم علی ابڑو کو مذکورہ تعلیمی ادارے کا وائس چانسلر مقرر کردیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ نیز ایک کمیٹی بھی تحقیق کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ متاثرہ طالبات اور پراسرار انداز میں مرنے والی ڈاکٹرز کے ساتھ کب انصاف ہوگا اور ملزمان کو قرار واقعی سزا کب ملے گی؟
ہفتۂ رفتہ ہی 6 فروری کو ضلع میرپورخاص کے قصبہ نئو کوٹ میں ایک بے حد الم ناک اور دل خراش واقعہ رونما ہوا ہے۔ نئو کوٹ میں مقیم راجپوت برادری کے گوٹھ پر ٹنگڑی برادری کے درجنوں مسلح افراد نے حملہ کرکے ایک شادی شدہ خاتون اور اس کی تیرہ سالہ بیٹی کو اغوا کرلیا اور انہیں اپنے گھر لے جاکر سخت تشدد کا نشانہ بنایا، کپڑوں کو پھاڑ کر انہیں اسی حالت میں دوڑایا گیا، اور مبینہ طور پر کئی ملزمان نے اغوا کردہ مذکورہ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ اطلاعات کے مطابق نامزد ملزمان میں سے تادم تحریر رسمی طور پر صرف 3 ملزمان ہی کو گرفتار کیا جاسکا ہے جبکہ بقیہ 17 ملزمان اور ان کا بااثر سرغنہ ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ اس سانحے کے خلاف بھی سندھ بھر میں عوام سمیت سیاسی اور سماجی جماعتیں شدید احتجاج کررہی ہیں اور ملزمان کی فوری گرفتاری اور انہیں سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ آج ہی ایک سماجی تنظیم کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ سندھ میں گزشتہ برس 2021ء میں غیرت کے نام پر 186 واقعات پیش آئے ہیں جن میں لگ بھگ 140 عورتوں اور 46 مردوں کو قتل کیا گیا۔ مقتولین میں اکثریت بے گناہ مرد و خواتین کی تھی، جنہیں من گھڑت الزامات عائد کرکے ان کی جانیں لی گئیں۔ قتل کے یہ واقعات اکثر ضلع جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور گھوٹکی میں پیش آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سندھ بھر میں عملاً ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا سا سماں ہے، اور لاقانونیت چہارسو پھیل چکی ہے، حکومت اور انتظامیہ یا پولیس نام کی کوئی چیز کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتی، جس کی وجہ سے اہلِ سندھ شدید احساسِ عدم تحفظ میں مبتلا ہیں اور ان کی جان و مال، عزت و آبرو ہر وقت دائو پر لگی رہتی ہے۔ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کرمنل اپیل نمبر284 مورخہ 14-09-2020 پر روپوش مجرموں کی فہرست شائع ہوئی ہے جس میں گھوٹکی ضلع کے 24 تھانوں کے روپوش مجرموں کی تعداد 2108، ضلع سکھر کے 24 تھانوں کے جرائم پیشہ روپوش افراد کی تعداد 849، ضلع خیرپور کے 40 تھانوں کے مجرموں کی تعداد 3245، ضلع قنبر شہداد کوٹ کے جرائم پیشہ روپوش افراد کی تعداد 781، اور ضلع لاڑکانہ کے 33 تھانوں کے پروکلیمڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد دو فہرستوں سمیت 12743 پر مبنی ہے۔ سندھ کی 24 جیلوں میں 18500 اسیران ہیں، جو گنجائش سے ساڑھے تین ہزار سے بھی زائد ہیں، اور اگر سارے روپوش مجرم بھی گرفتار کرلیے جائیں تو اسیران کی کُل تعداد 38226 ہوجائے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں تو ہمارے ہاں کی جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ’’قیاس زکن گلستان من بہار مرا‘‘ یہ تو محض 5 اضلاع میں روپوش مجرموں کی تعداد ہے، جو اتنی بڑی اور تشویش ناک ہے۔ اگر سندھ کے بقیہ 25 اضلاع کے جرائم پیشہ روپوش افراد کی تعداد کو بھی اس میں شامل کردیا جائے تو پھر مجموعی عددی جرائم پیشہ افراد کی تعداد کس قدر چونکا دینے والی اور پریشان کن ہوگی؟ اس کا اندازہ بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں بروز اتوار 13 فروری کو ضلع نواب شاہ کے علاقے نواب ولی محمد کے قریب دیہہ بنبھائی میں متنازع زمین پر دیرینہ قبائلی جھگڑے کے شاخسانے میں پولیس کی موجودگی میں بھنڈ مغیری برادری کے 6 افراد کا ایک پولیس انسپکٹر عبدالحمید کھوسو سمیت قتل کا سانحہ ہوا ہے، جس کا الزام زرداری برادری پر لگاکر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ورثا گزشتہ 30 گھنٹوں سے لاشیں قومی شاہراہ پر رکھ کر دھرنا دے رہے ہیں۔ متاثرہ بھنڈ برادری کے مطابق پولیس کی سرپرستی میں زرداری برادری کے مسلح افراد نے براہ راست فائرنگ کرکے بے گناہ دیہاتیوں معشوق، صابن، اکمل، ایاز، شیر محمد اور پولیس انسپکٹر عبدالحمیدکھوسو کا قتل عام کیا ہے، حالانکہ ضلع جیکب آباد کے معروف فیصلہ کرنے والے سردار میر منظور خان پنہور نے اپنے فیصلے میں یہ طے کیا تھا کہ فتویٰ آنے تک متنازع زمین تعلقہ مختیارکار کی تحویل میں رہے گی۔ چھے افراد کے خونِ ناحق کی سندھ بھر میں ہر سطح پر شدید مذمت کی جارہی ہے۔ سابق ایم این اے، امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے بھی بے گناہ قیمتی جانوں کے اتلاف پر شدید اظہارِ افسوس کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب قومی شاہراہ پر دھرنا دینے والی بھنڈ برادری کے مقتولین کے ورثا نے اعلان کیا ہے کہ جب تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہمارا مقتولین کی میتوں کے ساتھ یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ورثا نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ بے گناہ مقتولین کو پی پی کے ایم پی اے علی حسن زرداری، محسن زرداری اور عابد زرداری نے قتل کروایا ہے، اس لیے قاتلوں کے اصل سرپرست فی الفور گرفتار کیے جائیں اور 12 سو ایکڑ متنازع قرار دی گئی زرعی زمین بھی جو ہماری ہے، ہمارے حوالے کی جائے۔ سندھ بھر میں اس سانحے کے خلاف بھی مقتولین کے ساتھ بہ طور اظہارِ یکجہتی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں بڑے پیمانے پر احتجاج میں مصروف ہیں۔ ان تنظیموں کی جانب سے بہ طور احتجاج بروز منگل 15 فروری کو سندھ بھر میں شٹربند ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا۔
یہ ہے آج کے سندھ کا سیاسی و سماجی منظرنامہ… جو کسی طور بھی قابلِ رشک نہیں ہے، بلکہ بے حد پریشان کن اور تشویش ناک حد تک خطرناک ہے۔ ساتھ ہی حکومتِ سندھ کے لیے یہ صورتِ حال باعثِ تازیانہ بھی ہے۔