تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف مخمصے میں

اسلام آباد میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے یا حکومت کی ہوا اکھڑ رہی ہے، اس بارے میں تجزیوں اور تبصروں کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ سچ کیا ہے، اور سراب کیا ہے؟ اس میں تمیز کرنا مشکل بن رہا ہے، تاہم ایک بات واضح اور دیوار پر صاف لکھی ہوئی نظر آرہی ہے کہ بادلوں کی وہ ٹکڑی جس نے سیاست کے گرم صحرا میں حکومت کو چھائوں فراہم کی ہوئی تھی اب وہ اپنی جگہ بدل چکی ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حمایت کا پھول اب اپوزیشن کے صحن میں کھل چکا ہے۔ اس وقت چار منظر اور چار میدان سامنے ہیں، ان میں سے تین میدان پاکستان میں اور ایک میدان خلیج میں سجا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اس کا ہدف ہے، اور ڈوری واشنگٹن سے ہلائی جارہی ہے۔ ایک میدان اپوزیشن سجائے بیٹھی ہے جس نے عدم اعتماد کی تحریک کا اعلان کیا ہے، تاہم وہ عددی قوت پوری کرنے اور حمایت کا وعدہ لینے کے لیے گلی گلی صدا لگا رہی ہے۔ تیسرا میدان وہ ہے جس نے اس نظام کی آبیاری کی تھی۔ چوتھا میدان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کا ہے۔ یہ سیاسی کشمکش ملک میں کیا نتائج لائے گی اس کا سرا بھی چند ہفتوں میں ہاتھ لگ جائے گا۔ ملک کی سیاسی تاریخ کا مختصر سا جائزہ بتاتا ہے کہ ماضی میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے جو بھی حکومت تبدیل ہوئی یا کی گئی اُس کے نعرے مقامی تھے مگر مقاصد عالمی تھے، اور ناکامیوںکا بوجھ ہمیشہ سیاست دانوں کے حصے میں آیا۔
ماضی کی طرح اب اس حکومت کو بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ غالب امکان ہے کہ آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد میں موجودہ ہائبرڈ بندوبست کی جگہ اسی روایت کا کوئی نیا ایڈیشن نمودار ہوجائے گا۔ شخصی اختلافات کی افواہوں سے قطع نظر اس جوار بھاٹے کے حقیقی اسباب دو ہیں: ملکی معیشت کے جملہ اشاریے دگرگوں ہیں، اور تاریخ نے ہمیں پھر سے ایک نئی سرد جنگ کے روبرو لاکھڑا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران حکومت اپنی ساختیاتی نوعیت کے باعث ان گراں بار آزمائشوں سے نمٹ نہیں سکتی۔ سوال مگر یہ ہے کہ عمران حکومت ماضی کی ہی سیاسی اور معاشی ترجیحات کے تسلسل کی کڑی ہے۔ حکومت بدل بھی جائے تو حقیقی مسائل حل ہونے کی امید اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ ہم کچھ زیادہ بنیادی نوعیت کی خود احتسابی کا بیڑا اٹھائیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک کے’’اعلیٰ و ارفع دماغ‘‘ سیاست میں مداخلت، اور سیاست دان قطار میں لگ کر اپنی وفاداری کی یقین دہانیاں کرانا چھوڑ دیں۔ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ مرکز کے بجائے پنجاب کو ہدف بنایا جائے۔ غالب امکان بھی یہی ہے کہ اپوزیشن دایاں ہاتھ دکھاکر بائیں ہاتھ سے وار کرے گی۔ فی الحال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے حتمی فیصلے کے منطقی نتیجے کے طور پر ملک میں سیاسی رابطوں میں غیرمعمولی تیزی دیکھی جارہی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی اتحادی جماعتوں اور ملک میں دیگر پارلیمانی جماعتوں سے رابطہ کررہی ہے، تاکہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ان سے حمایت حاصل کی جاسکے۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کی لیڈرشپ سے ملاقاتوں کا بنیادی مقصد یہی تھا۔ پی ڈی ایم بہت جلد دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی ملاقات کرے گی۔ فی الحال حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اپوزیشن قیادت کو تحریک کی کامیابی کی صورت میں اس کے بعد کے لائحہ عمل کا واضح نقشہ پیش کرنا ہے جو اب تک سامنے نہیں لایا جاسکا۔ مسلم لیگ(ق) بھی مستقبل کا سیاسی نقشہ اچھی طرح سمجھ کر ہی اپوزیشن کے گھاٹ پر پانی پینے کو تیار ہوگی، اسے یہ بھی سمجھنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب میں لائی جائے گی یا مرکز میں؟ عین ممکن ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا پہلا نشانہ بزدار حکومت بن جائے۔ مسلم لیگ(ق) سے رابطے اور جہانگیر ترین کے ساتھ قربت اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے خیر خواہ، جو اسے اقتدار میں لائے، اُن کی بھی خواہش ہے کہ بہتر گورننس کے لیے پنجاب میں تبدیلی لائی جائے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی سرگرمیوں کا اصل ہدف بھی جلد سامنے آجائے گا۔ اپوزیشن بھی تحریک عدم اعتماد کے لیے آسان ہدف کی جانب دیکھ رہی ہے۔ آنے والے چند دنوں یا ہفتوں میں سب واضح ہوجائے گا۔
جہاں تک حالات کے اس انتہا تک پہنچنے کا معاملہ ہے اس کی ذمے دار مرکزی حکومت ہے، اسے یہ بات سوچنی چاہیے کہ ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اسے ایک سال کے اندر اندر دوسری بار عدم اعتماد جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے؟ گزشتہ سال انہی دنوں حکومت کو سینیٹ کے انتخاب میں اسلام آباد سے وفاق کی نشست پر یوسف رضاگیلانی کی کامیابی کی شکل میں شکست ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تھا، تب حکومت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی، جبکہ آج اس کے دونوں پائوں رکاب کے بجائے ہوا میں ہیں۔ تحریک انصاف نے جو خوشنما وعدے کیے تھے اُن میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا، بلکہ عوام کو نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار، ہوش رُبا مہنگائی، روزگار کے نئے مواقع کے فقدان، اور ہر شعبۂ زندگی میں بالعموم انحطاط کا عذاب ملا ہے، اور پنجاب میں گورننس بدترین حد کو چھو رہی ہے۔ عوام کا بہت بڑا حلقہ بھی اس بات پر متفق ہے کہ پونے چار سال کی مدت کرپشن کے الزامات اور احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگائے رکھنے کی کوششوں میں ضائع کردی گئی، جبکہ کسی پر کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ اسی لیے اب اپوزیشن بھی عوام کی نظروں میں سرخرو نظر آتی ہے اور سیاسی میدان میں حکومت کے مقابل آن کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ اہم سوالات ہیں جن کے جواب درکار ہیں کہ کیا واقعی عمران خان کو رُخصت کرنے کا کوئی منصوبہ بن گیا ہے اوراپوزیشن کو کوئی اسکرپٹ دے دیا گیا ہے؟ عمران کو یہ یقین دلایا جارہا ہے کہ ان کی رخصتی کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں، اور اپوزیشن کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ غیر جانب دار ہیں، لیکن عمران خان کو ماضی جیسی سرپرستی نہیں مل رہی، اس لیے وہ سوچ رہے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل گیا ہے۔جبکہ اپوزیشن کو باقاعدہ اسکرپٹ نہیں مل رہا، لہٰذا وہ بھی مخمصے میں ہے۔ بہرحال اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا ہے، اب نشانہ کون بنے گا؟ عمران خان یا بزدار؟ دوسری طرف حکومت بھی اپنے داؤ پیچ آزما رہی ہے، قومی اسمبلی میں شہبازشریف کے خلاف قرارداد لائی جارہی ہے کہ انہیں منی لانڈرنگ کے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک اسمبلی میں خطاب کی اجازت نہ دی جائے، ایک دوسری قرارداد یہ لائی جائے گی کہ مقدمے کی کارروائی براہِ راست ٹی وی پر دکھائی جائے۔ صاف لگ رہا ہے کہ حکومت نے اب شہبازشریف کو پر رکھ لیا ہے۔ مگر یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ شہبازشریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، اُن کے اپوزیشن لیڈر رہنے میں کوئی آئینی الجھن نہیں ہے، وہ کسی عدالت سے سزا یافتہ ہیں نہ ہی نااہل ہوئے ہیں۔ اُن کے تمام تر آئینی حقوق بطور شہری اور بطور رکن اسمبلی برقرار ہیں۔ اُن کے خلاف حکومت کا مؤقف سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا یہ شخصی جنگ ہے؟ یا اس کے پیچھے دیگر سیاسی مقاصد ہیں؟
سیاست میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف حکومتی اتحادی جماعت قاف لیگ کی قیادت سے ملاقات کے لیے 14 سال بعد چودھری برادران کے گھر پہنچے۔ یہ ملاقات سیاسی سے زیادہ نجی نوعیت کی تھی، تاہم اب دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگ(ق) قومی اسمبلی میں شہبازشریف سے متعلق لائی جانے والی قرارداد کی حمایت کرے گی، مخالفت کرے گی یا غیر جانب دار رہے گی؟ یہ بہت اہم نکتہ ہوگا، اس سے سیاسی تبدیلیوں کے کچھ مناظر بھی واضح ہوجائیں گے۔ یہی سوال متحدہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے دیگر گروپوں کے لیے بھی ہوگا کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
شہبازشریف کی چودھری خاندان سے ملاقات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں خاندانوں کی اہم شخصیات اور ان کے مزاج کو سمجھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ممکن ہے شہبازشریف اور گجرات کے چودھری خاندان کی یہ ملاقات کسی اچانک ڈرامائی اور دھماکہ خیز اعلانات کی توقع رکھنے والوں کو فوری طور پر مایوس کرے، لیکن سیاست کی زیریں اور فیصلہ کن لہروں پر نگاہ رکھنے والوں کو آنے والے دنوں کے موسم سے ضرور آگاہ کرے گی، یہی ملاقات فیصلہ کرے گی کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کو شہہ مات ہونے جارہی ہے؟ اس حوالے سے حتمی جواب فی الحال تو کسی کے پاس نہیں، لیکن مسلم لیگ(ق) فیصلہ لینے سے قبل ضرور یقین دہانی حاصل کرے گی کہ حکومت کے لیے شجرِ سایہ دار کی چھائوں کا رخ بدلا ہے یا نہیں؟
عدم اعتماد کی تحریک کے لیے آئینی لحاظ سے تجزیہ بھی بہت ضروری ہے۔ اگر تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ کیا اگلا وزیراعظم آسانی سے منصب سنبھال لے گا؟ یا وزیراعظم کے نام پر عدم اتفاق کی صورت میں ملک میں کوئی نیا بحران کھڑا ہوجائے گا؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں، لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اگر قائد حزبِ اختلاف بن جاتے ہیں تو کیا وہ نئے وزیراعظم کے ساتھ ورکنگ ریلیشن رکھیں گے؟ آج تو یہی گلہ ہے کہ وزیراعظم قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن نہیں رکھ رہے، کل کو بھی یہی صورتِ حال پیش آسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ملک بحران سے نکل نہیں سکے گا اور جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجانے کی صورت میں عمران خان پہلے سے بھی زیادہ قوت حاصل کرلیں گے اور چھے ماہ تک پھر تحریکِ عدم اعتماد نہیں لائی جاسکے گی۔ ہوسکتا ہے عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن جائیں جو اپنی منتخب آئینی مدت پوری کرلیں۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کرکے اپوزیشن بہت بڑا سیاسی جوا کھیلنے جارہی ہے۔ یہ وہ اصل قدم ہوگا جس کے بعد آر یا پار کا حتمی فیصلہ ہوگا۔ کامیابی کی صورت میں تو ظاہر ہے اپوزیشن کے لیے بہت بڑے سیاسی جشن کا سماں ہوگا، لیکن ناکامی کی صورت میں حکومت پی ڈی ایم اور اپوزیشن سے نہ صرف دو دو ہاتھ کرے گی، بلکہ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے لیے تحریکِ انصاف کا مورال بلند ہوجائے گا۔
حالات و واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سے معاملات مختلف نظر آتے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آپشن پیپلزپارٹی کا دیا ہوا ہے، کامیابی اور ناکامی کی صورت میں سندھ میں حکومت کے باعث اسے نقصان کم ہوگا، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت مشکل میں آجائے گی جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا، وہ پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے گی۔ پیپلزپارٹی کی حکمت عملی بھی یہی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کا کوئی ہوم ورک نظر نہیں آرہا۔ حکومت کو ہٹانے کے لیے اس کے اتحادیوں کی حمایت بہت اہم ہے۔ پی ڈی ایم کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن پہلے خود متحد ہو، اس کے بعد حکومت کے اتحادیوں کا تعاون مل سکے گا۔ اصل فیصلہ تو حکومت کے اتحادیوں کو کرنا ہے۔ یہ سب فیصلہ کرنے سے قبل اپنی قیمت وصول کریں گے۔ کیا اپوزیشن انہیں کچھ دے سکتی ہے؟
ان تمام زمینی سیاسی حقائق کے باوجود فیصلہ کن مرحلہ قریب معلوم ہورہا ہے، اس لیے آنے والے دنوں میں ملک کا سیاسی ماحول بہت گرم ہونے والا ہے۔ حکومت کا پاور پلے اب ختم ہورہا ہے اور اپوزیشن کا شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال حکومت اپنے سر پر چھتری کے باعث اپوزیشن کی قبا بے رحم طریقے سے ادھیڑتی رہی ہے، اب اس کا طنطنہ زوال پذیر ہے۔ ملک میں ایک بحرانی کیفیت ہے، اس سے تو کوئی انکار نہیں، تاہم یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے؟ حتمی حل یہ ہے کہ محفوظ جمہوریت کے لیے ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو پوری نیک نیتی کے ساتھ آئین کی بالادستی اور جمہوری عمل کو ہر قسم کی مداخلت سے پاک رکھنے کو یقینی بنانا ہوگا، اس کے بغیر جمہوری استحکام ممکن نہیں۔