سیکولر انڈیا، مسکان خان اور قومی سلامتی

اسلام آباد میں دو اہم مذاکرے ہوئے، ایک کا موضوع ’’قومی سلامتی پالیسی‘‘ اور دوسرے کا موضوع ’’سیکولر انڈیا اور مسکان خان‘‘ تھا۔ قومی سلامتی پالیسی کے مذاکرے میں آزاد کشمیر کے ممتاز سیاسی رہنما عبدالرشید ترابی،جبکہ ’’سیکولر انڈیا اور مسکان خان‘‘ کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں کشمیری رہنما، کُل جماعتی حریت کانفرنس سید علی گیلانی گروپ کے کنوینر محمد فاروق رحمانی مہمانِ خصوصی تھے۔
آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن، پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین، ممتاز کشمیری رہنما عبدالرشید ترابی نے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظریۂ اسلام ہی اصل میں پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی ہے، بیانیہ تبدیل کرنے سے ہمیں نقصان ہوسکتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں سیکولر سیاسی قیادت اپنا دین دھرم بھول چکی ہے اور اس کی اگلی نسل ہندوئوں کے ساتھ رشتے ناتوں میں بندھ رہی ہے، لیکن کشمیری عوام پاکستان اور اسلام کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، پاکستان کے بارے میں ہر اچھی خبر پر انہیں خوشی ہوتی ہے، اور جب انہیں کوئی بری خبر ملتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں، پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں کشمیر اوّل درجے پر ہونا چاہیے، لبنان نے انتہائی دبائو کے باوجود حزب اللہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، ہم کیوں حزب المجاہدین کو تسلیم نہیں کررہے؟ کشمیر میں ظلم ہورہا ہے، وہاں ڈیمو گرافی تبدیل کی جارہی ہے، پاک بھارت سفارتی تعلقات میں کشمیر ہی اوّل ترجیح ہے، کشمیر کی آزادی تک پاکستان مستحکم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی تک بھارت سے سفارتی تعلقات معمول پر نہیں آسکتے اور نہ اس کے ساتھ تجارت کی جاسکتی ہے، وزیراعظم بھارت سے تجارت کے حق میں نہیں ہیں یہ خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی میں نظامِ عدل کی اپنی ایک اہمیت ہے، نظامِ عدل کا مضبوط ہونا ہی کسی بھی معاشرے کے استحکام کی ضمانت اور علامت ہوتا ہے، عدلیہ کو خود رول ماڈل بننا چاہیے، ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی تو عدل کا نظام بھی بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاگیر داری نظام ہمیں ایک قوم نہیں بننے دے رہا ہے، یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے، اگر پاکستان کی سیاست اور معاشرت سے اسلام نکال دیا جائے تو پھر یہاں بے شمار قومیں ہیں جو سر اٹھائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یکساں نظام ِتعلیم ہماری قومی سلامتی پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے، اس کے بغیر ہم معاشرے میں امتیاز ختم نہیں کر سکیں گے۔ ہمارا نصابِ تعلیم تو این جی اوز کے نرغے میں ہے، یکساں نظامِ تعلیم سے ہی قومی اتحاد پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان بھی ہمیں رائج کرنی چاہیے، پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ اسے قومی زبان کے طور پر اہمیت دی جائے گی اور دفتری زبان بھی اردو ہوگی، اس بارے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی ایک فیصلہ دے رکھا ہے، تاہم ابھی تک اس فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل، سپریم کورٹ کے سینئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے کے لیے ہمیں ملک اور معاشرے کی بہتری کے بارے میں سوچنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک بیرونِ ملک پاکستانیوں کے بھجوائے ہوئے زرمبادلہ کی وجہ سے چل رہا ہے لیکن ہمارے سفارت خانے اُن کے مسائل کے حل کی جانب توجہ نہیں دیتے، ہمارے بے شمار پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں ہیں، انہیں قانونی مدد کی ضرورت ہے، اور یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے، اس کے لیے سفارت خانوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا انحصار طلب اور رسد کے قانون پر ہے، اگر ہمارا ملک بہتر برآمدات کررہا ہے تو ہم معاشی لحاظ سے خسارے میں نہیں جاسکتے، لیکن اگر ہماری درآمدات بڑھ جائیں اور برآمدات نہ ہوں تو پھر معیشت دبائو کا شکار ہوجاتی ہے، ہمارے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے، ہم زرعی ملک ہیں مگر گندم بیرونِ ملک سے منگوا رہے ہیں، اور اگر ہم چینی کا استعمال کم کردیں تو اس کی قیمت بھی کم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بندرگاہوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کراچی، گڈانی، سونمیانی، حب اور گوادر میں بندرگاہیں دے رکھی ہیں، ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ حب اور سونمیانی کو آئل اور کنٹینرز سٹی بنایا جائے اور بلوچستان میں ہائی ویز تعمیر کی جائیں۔ کوئٹہ، کراچی شاہراہ پر ہر سال ہزاروں حادثات ہوتے ہیں، وہاں کم از کم نیشنل ہائی ویز پولیس کا ہی بندو بست کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے لیے پانی کی اہمیت سے کون ناواقف ہے؟ ہمیں مستقبل میں پانی کے بحران کا سامنا ہوگا، لہٰذا ہمیں ڈیم بنانے چاہئیں۔ اس وقت نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیس لی جارہی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتیں تک نہیں ہیں، بلوچستان میں ملازمتوں کا فقدان ہے، وہاں کے نوجوان بے روزگار ہیں، وہاں 6 فی صد کوٹہ دیا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔ صوبے کا مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے نظامِ عدل کو دوسروں کے لیے مثال بننا چاہیے، مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ جج یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ ان سے کچھ نہ پوچھا جائے۔
تجزیہ کار احسن پریمی نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی حکومتوں کی نہیں بلکہ ریاستوں کی ہوتی ہے، حکومت نے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کے بارے میں پارلیمنٹ میں اتفاقِ رائے نہیں ملا۔ پارلیمنٹ سے پالیسی کی منظوری لینا بہت اہم ہے۔ انسانی ترقی ایک اہم پہلو ہے اور معیشت کی مضبوطی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار سے ہماری معیشت دبائو میں ہے، اسی لیے ہمیں آئی ایم ایف جیسے اداروں کی جانب سے شرائط کا سامنا رہتا ہے، ہم ایک ایٹمی قوت ہیں مگر ہمیں اقتصادی قوت بھی بننا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے، اور آبادی کو روزگار دینا اور اس کی خوراک کا بندوبست کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کا خاکہ سابق دورِ حکومت میں بنایا گیا اور آج کی حکومت نے اس میں رنگ بھرا ہے۔ ہمیں ایک ایسی قومی سلامتی پالیسی چاہیے جس میں ہم اندرونی استحکام حاصل کریں اور بیرونی جارحیت سے بھی محفوظ رہیں۔ اگرچہ مشیر سلامتی نے کہا ہے کہ اس کی تیاری میں تمام اسٹیک ہولڈر شامل رہے ہیں، مگر تحریک انصاف کے اپنے ارکان بھی شاکی ہیں، لہٰذا قومی سلامتی پالیسی کے لیے قومی سطح پر اتحاد اور یگانگت پیدا کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت خارجہ امور ہمارے لیے ایک چیلنج ہیں، افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد صورتِ حال پیچیدہ بنی ہوئی ہے، ہمیں اس کا بغور جائزہ لینا ہے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، اس لیے قومی سطح پر قومی سلامتی پالیسی کے لیے مکالمہ شروع کیا جائے۔
تجزیہ کار عبدالرحمٰن نے کہا کہ حکومتی جماعت قومی سلامتی پالیسی کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ قومی سلامتی پالیسی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تیار کی جائے اور ہم یہ دیکھیں کہ ہمیں وطنِ عزیز کو آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نجات دلانی ہے۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس (سید علی گیلانی) آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر محمد فاروق رحمانی نے ’’سیکولر انڈیا اور مسکان خان‘‘ کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں کہا کہ آج سے تیس سال قبل ہی یہ فیصلہ ہوگیا کہ بھارت ایک ہندو ریاست کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے گا، اور اس کے بعد ہی آر ایس ایس کو تقویت ملنا شروع ہوئی۔ مسکان خان کے واقعے کے خلاف دنیا بھر میں ہندو انتہا پسندوں کے خلاف جمہوریت پسند حلقوں کو اپنی آواز اٹھانا چاہیے تھی۔ مسکان کا واقعہ پہلا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں گلی گلی روزانہ ایسے واقعات ہورہے ہیں۔
مذاکرے میں نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمٰن سواتی، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق نائب صدر مدثر فیاض چودھری، سول سوسائٹی کے معراج الحق صدیقی اور دیگر شریک ہوئے۔ فاروق رحمانی نے کہا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد پورے کشمیری عوام متحد ہوگئے تھے اور شہید کے جنازے میں شمال سے جنوب تک کے لوگ شریک ہوئے۔ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے، اور اسے سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں مسلم دنیا سے بہت امید تھی کہ وہ کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کے لیے سب سے بڑی اور مؤثر آواز بن کر کھڑی ہوگی، مگر ہمیں مایوسی ہورہی ہے۔ جن دنوں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا کہ بھارت مسئلے کا حل چاہتا ہے، مگر وہ اس تیاری میں رہا کہ اسے ایک ہندو ریاست بنانا ہے۔ بے جے پی نے پوری تیاری اس کے لیے کی تھی اور آر ایس ایس اُس کی سرپرستی میں بنی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارتی سرکار مقبوضہ کشمیر میں قانون سازی کررہی ہے، اردو کی جگہ ہندی رائج کی جارہی ہے اور نئی حلقہ بندیاں کی جارہی ہیں جس کے بعد انتخابات ہوسکتے ہیں، مگر کُل جماعتی حریت کانفرنس ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمٰن سواتی نے کہا کہ مسکان خان کے واقعے کی وجہ سے ہی بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اور اُسے اُس کے نظریے سمیت شکست ہوگی، مقبوضہ کشمیر کی آزادی شہدا کی قربانیوں کے باعث ہوگی، یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ مسلم دنیا کو کشمیری عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینا چاہیے۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ پانچ اگست کے واقعے کے بعد ہمیں بہت دکھ ہوا ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے، بلکہ یہ امریکی صدر ٹرمپ کی آشیرباد سے ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ علم تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بہت کمزور ردعمل دیا ہے۔ سول سوسائٹی کے معراج الحق صدیقی نے کہا کہ کشمیری عوام کی تحریک کامیاب ہوگی اور مسکان خان کے واقعے سے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف نفرت پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔