ہمارا سب کچھ بدل رہا ہے

بعض باتیں ہم غیر محسوس طور پر نظرانداز کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ہمارے معاشرے اور اس معاشرے کی اقدار میں کیا بنیادی تبدیلی آرہی ہے۔ ایک رائے کے مطابق یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت ہماری زندگیوں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر قتل کے ایک کیس نے بہت شہرت پائی ہے۔ ویسے یہ کسی ایک واقعے ہی تک محدود نہیں، ہر روز کا معاملہ ہے۔ کسی لڑکی کی مسخ شدہ لاش ملی ہے جسے اس کے کسی دوست نے قتل کردیا ہے۔ ہم اس بہیمانہ اقدام کی مذمت تو کرتے ہیں مگر اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ یہ لڑکا لڑکی اکٹھے کیوں رہ رہے تھے! ہمارے معاشرے کی ترجیحات اور اقدار بدل چکی ہیں۔ مغرب میں بغیر شادی کے لڑکا لڑکی کا ساتھ رہنا ایک عام سی بات تھی اور اس معاشرے میں معیوب نہ تھی۔ ہمارے ہاں مگر اس کا رواج نہ تھا کہ کوئی آسانی سے منہ سے یہ بات نکال لے کہ مخالف صنف کے فرد کو وہ اپنا دوست قرار دے۔ میرا مطلب ہے کہ اس طرح کا دوست جسے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کہتے ہیں۔ اور اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو اسے برا ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ گناہ قرار دیا جاتا۔ خیر آج کل گناہ کا لفظ استعمال کرنا معیوب ہوگیا ہے۔ اب ہم قانون کی زبان بولتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اسے جرم قرار دیتے ہیں، وگرنہ غیر محسوس انداز میں یہ جرم بھی نہیں رہا۔ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہورہا ہے۔ میں جس کیس کا حوالہ دے رہا ہوں، وہ سب کے سامنے ہے۔ روز اس کا تذکرہ میڈیا پر ہوتا ہے۔ ہم شہادتوں کے خلط ملط کیے جانے پر تو افسردہ ہوتے ہیں مگر یہ بات کہنا آداب کے خلاف سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فلیٹ ہی میں رہ کیوں رہے تھے۔ چند برس پہلے ترکی نے Adultery کے خلاف قانون پاس کرنا چاہا۔ پورا یورپ چیخ اٹھا کہ خبردار جو ایسا کیا۔ آپ جو یورپی یونین کے ممبر بننا چاہتے ہیں پھر یہ ممکن نہ ہوگا۔ معلوم ہے اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟ شادی شدہ افراد کا صنفِ مخالف سے جنسی تعلق رکھنا۔ گویا اسے جرم قرار دو گے تو آپ یورپ کے لبرل معاشرے کا حصہ نہیں بن پائو گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جنسی تعلقات کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے۔ میں بے دھڑک پوچھتا ہوں کہ اس کا انگریزی متبادل کیا ہے؟ کوئی بتا نہیں پاتا، کیوں کہ انگریزی میں زنا کا کوئی تصور ہے ہی نہیں۔ ایک بار کائوس جی نے سرِبازار مجھ سے پوچھ لیا، عرض کیا انگریزی میں یہ تصور ہے ہی نہیں۔ Rape برا ہے، اس لیے نہیں کہ یہ عمل برا ہے، بلکہ صرف اس لیے کہ اس میں جبر کا پہلو شامل ہے۔ فرانس کا ایک مشہور ادیب ہوا ہے، البرٹ کامیو۔ اس نے کہیں لکھا تھا کہ بیسویں صدی کے انسان کی تعریف یوں کی جائے گی کہ وہ اخبار پڑھتا تھا اور زنا بالرضا کا شوق رکھتا تھا۔Fornication کا یہی مطلب ہے۔ یہی اس انسان کی علم کی سطحیت کے ساتھ اس انسان پر یہ اعتراض بھی تھا کہ اس نے انسان کی اس بنیادی جبلی خصلت کو بھی سطحی بنادیا ہے۔ یہ مغربی اقدار کے مطابق قطعاً کوئی برائی نہیں ہے۔ میں جن دنوں کچھ عرصے کے لیے اپنی اہلیہ کی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں آسٹریلیا میں تھا جو بھی ملنے آتا تھا اس کے بارے میں یہ بتایا جاتا کہ یہ ساتھ رہے ہیں۔ They are living together۔ یہ عام سی بات تھی۔ لگتا تھا کہ شادی کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہاں، رہی یہ تیسری قسم جسے Adultery کہا جاتا ہے، اسے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ آپ کسی سے پیمانِ وفا توڑتے ہیں، وگرنہ اس عمل پر اعتراض نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ باہمی تعلقات کا معاملہ ہوسکتا ہے، وگرنہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے قابل تعزیر گردانا جائے۔ کیا غیر محسوس انداز میں اس طرح کے تصور کو ہم فروغ نہیں دے رہے؟ یہ آزادیِ نسواں یا حقوقِ نسواں کی بھی بات نہیں ہے، مگر فیمن ازم، نسائیت کی یہ خاص شکل ہمارے اندر اتنی سرایت کرچکی ہے کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس بات پر اعتراض کیا کہ یہ ساتھ کیوں رہے تھے تو فوراً کہا جائے گا کہ اسے بنیادی اخلاقیات بھی نہیں آتیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے کسی گھنائونے جرم میں ساری ہمدردیاں اس جرم کا نشانہ بننے والے کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم سارے معاشرتی ڈھانچے کو تلپٹ کردیں۔ ہم اتنا ڈرتے ہیں کہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ ان لوگوں کا زندگی کے بارے میں رویہ کیا تھا۔ اگر مثال کے طور پر یہ عورت مارچ کے ہراول دستے میں تھے تو ہم اس وقت اس کا تذکرہ گول کرنا ضروری سمجھیں گے حالانکہ اس وقت ہم اسے ان کا کریڈٹ بتا رہے تھے۔ معاشرے کی اقدار غیر محسوس طور پر بدلتی جا رہی ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں ہورہی۔ جیساکہ میں نے عرض کیا کہ یہ سب کچھ آزاد میڈیا میں ایک ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔ ہم بدل رہے ہیں یا ہمیں بدلا جارہا ہے۔ اس بات کو چلتے رہنے دیتے ہیں مگر ہم نے بہت سی باتوں کے نازک پہلوئوں پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں جب کبھی کبھی صبح صبح پانچ یا چھے بجے خبریں سننے کی کوشش کرتا ہوں تو سارا دن غارت ہوجاتا ہے، مگر یہ میری پیشہ ورانہ مجبوری ہے کہ خود کو باخبر رکھوں۔ ذرا غور کریں سویرے سویرے کس قسم کی خبریں ہوتی ہیں۔ کہیں آگ لگی، سب کچھ جل گیا، بھسم ہوگیا۔ پولیس مقابلے میں کوئی مجرم مارا گیا۔ فلاں لڑکی جس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اُس سے زیادتی کرنے والوں کا سراغ نہیں ملا۔ ایسی بہت سی خبریں جن سے دل اداس ہوا اور اعصاب مضمحل۔ جانے یہ سب کچھ اکٹھا کیسے مل جاتا ہے! کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے کہ سویرے سویرے پورا دن خراب کرنے والی خبریں نہ دی جائیں۔ کبھی کبھی تو خبروں کے اس ملغوبے میں ایسی خبریں بھی ہوتی ہیں جن کی کوئی خبریت نہیں ہوتی۔ کسی اخبار میں چھپتی تو کہیں اندر سنگل کالم ہوتی ہیں، مگر برقی میڈیا کی چکا چوند نے انہیں قومی نوعیت کے بلیٹن کا حصہ بنادیا۔ پھر یہ سب صرف صبح صبح ہی کیوں؟ یعنی سب ایسی خبروں کا یکجا ہونا۔ کیا صرف اس لیے کہ رات گئے کچھ ہوتا نہیں، حتیٰ کہ سیاسی بیانات بھی نہیں۔ سیاست دان سمجھدار ہیں، جانتے ہیں بات کرنے کا کون سا وقت مناسب ہے۔ یا یہ بھی کوئی ایجنڈا ہے۔ اعصاب جواب دے جائیں گے، ذہن بے قرار ہو جائے گا تو پھر باقی سارا دن کیسے گزرے گا! میں نے تو یہ صرف دو چار مثالیں دی ہیں وگرنہ آٹھ دس ایسی خبریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھی کی گئی ہوں گی۔ اور کچھ نہیں تو فلاں لڑکی رات کو گھر سے غائب ہوگئی۔ یہ فلاں گائوں کا واقعہ ہے، پولیس ابھی تک سراغ نہیں لگا سکی۔ شہر میں یہ واقعہ ہوا ہو تو یہ خبر بھی ہوسکتی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ کیسے ہوا، مگر پولیس تاحال خاموش ہے۔ دن خراب کرنے والی یہ خبریں آپ کو صبح صبح ہی ملیں گی۔ شاید اسی لیے بعض ماہرینِ نفسیات نے یہ کہہ رکھا ہے کہ صبح کے ایک دو گھنٹے اسکرین کو آف رکھیں۔ ان کا یہ فرمان تو شاید وسیع تر مفہوم میں ہے اور عمومی ہے۔ اسکرین پر آنے والی ہر شے کے بارے میں ہے۔ میں البتہ اس وقت خانہ خدا سے آنے والی قرآن کی تلاوت آن کردیتا ہوں، مگر آخر کب تک؟ جونہی اصل اسکرین پر آئو اور پورے دن کا بوجھ لے کر اٹھو۔ ہمیں اس کا نہ اندازہ ہے نہ خبر ہے۔ ہمیں تو بتادیا گیا تھا کہ کسی لاش کی تصویر نہ چھاپو، کچھ اور باتیں بھی، یعنی مجھے نہیں پتا ہم کیا کررہے ہیں۔ ہمارا سب کچھ بدل رہا ہے یا شاید ہم ہی بدل گئے ہیں، یا ہمیں بدلا جارہا ہے۔ اچھا، ایسا بھی ہوتا ہے، یقین نہیں آتا۔ پہلے تو ہم اس خیال کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ کوئی معاشرے کو اس طرح نیت کرکے نہیں بدل سکتا۔ ایک لطیفہ تھا کہ یونیسکو کہتا ہے کہ آئو کلچر پیدا کریں۔ تو چلیے بھائیو‘ ہم مل کر نیا کلچر پیدا کریں۔
(سجاد میر۔ روزنامہ 92۔ منگل 15 فروری 2022ء)