مادری اور پدری زبان جوش ملیح آبادی

ایک بار جب میں پاکستان سے رخصت لے کر دہلی گیا اور پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا تو انہوں نے بڑے طنز کے ساتھ مجھ سے کہا تھا ”جوش صاحب! پاکستان کو اسلام، اسلامی کلچر، اور اسلامی زبان، یعنی اردو کے تحفظ کے واسطے بنایا گیا تھا، لیکن ابھی کچھ دن ہوئے کہ میں پاکستان گیا اور وہاں یہ دیکھا کہ میں تو شیروانی اور پاجامہ پہنے ہوئے ہوں لیکن وہاں کی گورنمنٹ کے تمام افسر سو فیصد، انگریزوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ مجھ سے انگریزی بولی جارہی ہے، اور انتہا یہ ہے کہ مجھے انگریزی میں ایڈریس بھی دیا جارہا ہے۔ مجھے اس صورتِ حال سے بے حد صدمہ ہوا اور میں سمجھ گیا کہ ”اردو، اردو، اردو“ کے جو نعرے ہندوستان میں لگائے گئے تھے وہ سارے اوپری دل سے اور کھوکھلے تھے۔ ایڈریس کے بعد جب میں کھڑا ہوا تو میں نے اس کا اردو میں جواب دے کر سب کو حیران و پشیمان کردیا اور یہ بات ثابت کردی کہ مجھے اردو سے ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ محبت ہے۔ اور جوش صاحب معاف کیجیے، آپ نے جس اردو کے واسطے اپنے وطن کو تج دیا ہے، اس اردو کو پاکستان میں کوئی منہ نہیں لگاتا۔ اور جائیے پاکستان“۔ میں نے شرم سے آنکھیں نیچی کرلیں۔ ان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ان کی باتیں سن کر مجھے یہ واقعہ یاد آگیا۔ میں نے پاکستان کے ایک بڑے شاندار منسٹر صاحب کو جب اردو میں خط لکھا اور ان صاحب بہادر نے انگریزی میں جواب مرحمت فرمایا تو میں نے جواب الجواب میں یہ لکھا تھا کہ جنابِ والا میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔
(جوش ملیح آبادی کی کتاب ”یادوں کی برات“ سے اقتباس)