امریکہ … رسّی جل گئی، پر بل نہ گیا

افغانستان میں 20 برس تک چٹانوں سے سر ٹکرانے اور اتحادیوں سمیت اپنا ہر طرح کا اسلحہ اس سرزمین پر آزمانے کے بعد وسط اگست 2021ء میں امریکہ ذلت و رسوائی سمیٹ کر واضح شکست کا داغ پیشانی پر سجائے پسپائی اور اپنی مسلح افواج کی واپسی پر مجبور ہوا، مگر اس کے عالمی بالادستی اور من مانی کے رویّے میں تبدیلی نہیں آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان عوام پر بلاوجہ طویل عرصے تک جنگ مسلط رکھنے اور وسیع پیمانے پر تباہی مچانے کے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ افغانستان کو بھاری ہرجانہ ادا کرتا، اور عالمی برادری جنگی جرائم پر امریکہ کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلا کر افغان عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان مظلوموں کو انصاف کی فراہمی کا اہتمام کرتی، مگر ہوا یہ کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق انسانی اور نسوانی حقوق کا بہانہ تراش کر امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے بینکوں میں موجود افغان عوام کے اثاثے ضبط کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ وہ اثاثے ہیں جو بیس برس کی جنگ کے دوران عالمی برادری سے افغان عوام کی مدد کے لیے عطیات کے طور پر وصول کیے گئے، یا اپنے قبضے کے دوران امریکہ نے افغان اسٹیٹ بینک سے اپنے بینکوں میں منتقل کرلیے تھے۔ مجموعی طور پر ان اثاثوں کی مالیت دس ارب ڈالر کے قریب بتائی گئی ہے، جس میں سے سات ارب ڈالر نیویارک میں جب کہ باقی ماندہ یورپی ممالک اور متحدہ عرب امارات میں رکھے گئے تھے۔ اولاً تو افغان عوام کی یہ امانت امریکہ اور دوسرے ملکوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کا کوئی اخلاقی و قانونی حق حاصل نہیں تھا، پھر جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تھی تو افغانستان کے اثاثے فوری طور پر اس حکومت کے حوالے کردیئے جانے چاہیے تھے، تاکہ وہ جنگ سے متاثرہ اپنے غریب اور مفلوک الحال عوام کے مسائل کے حل پر انہیں خرچ کرسکتی۔ مگر اس کے برعکس ایک جانب تو افغانستان کے اثاثے منجمد کرکے اپنے پاس رکھ لیے گئے، اور دوسری جانب وسائل سے محروم نئی اور غیر مستحکم افغان طالبان حکومت کو طرح طرح کی جکڑ بندیوں میں باندھ دیا گیا، جس سے چالیس برس سے جنگ کی بھٹی میں جھلستے افغانستان کے مسائل میں زبردست اضافہ ہوگیا جس کی جانب پاکستانی حکومت اور مختلف بین الاقوامی ادارے مسلسل عالمی برادری کو متوجہ کرتے آرہے ہیں کہ افغانستان میں بھوک اور افلاس کے سبب انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے، مگر انسانی حقوق کے نام نہاد علَم برداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اور بھوکے افغان باشندے اپنے گھروں کے سامان کے بعد اب اپنے بچے تک فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے افغان عوام کی اس کسمپرسی پر ظالمانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک شاہانہ صدارتی حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں جس میں یہ نادر شاہی فیصلہ صادر کیا گیا ہے کہ نیویارک کے وفاقی ریزرو فنڈ میں موجود افغانستان کے اسٹیٹ بینک کے سات ارب ڈالر کے اثاثوں کو دو حصوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ ایک حصہ بیس برس قبل رونما ہونے والے سانحۂ نائن الیون کے متاثرین کو بطور معاوضہ ادا کیا جائے گا، جب کہ بقیہ نصف افغان عوام کی ’’مدد‘‘ کے لیے استعمال ہوں گے۔ تاہم صدارتی حکم نامے کے مطابق افغان عوام کی ’’مدد‘‘ کے لیے مختص یہ نصف رقم بھی افغان حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز وغیرہ کے ذریعے تقسیم کی جائے گی، جو ظاہر ہے امریکہ کی چہیتی ہوں گی اور اُس کے مقاصد کی آبیاری ہی کے لیے کام کریں گی۔ یوں افغان عوام کے اثاثے افغان قوم میں انتشار و افتراق کے لیے استعمال میں لائے جائیں گے۔ جہاں تک نائن الیون کے سانحے کا تعلق ہے، بیس برس گزر جانے کے باوجود یہ سارا قصہ آج بھی مشکوک اور دنیا اور خود امریکہ کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے ناقابلِ اعتبار خود امریکہ اور یہودیوں کا اسٹیج کردہ ڈراما ہے۔ اگر بالفرضِ محال اسے درست تسلیم بھی کرلیا جائے تو سوال یہ ہے کہ دنیا کی مثالی فلاحی ریاست ہونے کے دعویدار امریکہ نے آج تک اس سانحے کے متاثرین کو معاوضہ کیوں ادا نہیں کیا کہ اب افغان عوام کے اثاثوں سے اس کی ادائیگی کا اعلان کیا جارہا ہے؟ پھر اگر بیس برس کی طویل مدت کے بعد امریکی حکومت کو اس معاوضے کی ادائیگی کا خیال آ ہی گیا ہے تو اس کے لیے غریب افغان قوم کے اثاثے کیوں استعمال کیے جائیں؟ جب کہ خود امریکہ کی طرف سے اس واقعے میں ملزم ٹھیرائے گئے افراد میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب، 2 کا متحدہ عرب امارات اور ایک ایک کا مصر اور لبنان سے بتایا گیا تھا۔ افغانستان کا کوئی ایک بھی باشندہ کسی بھی طرح اس واقعے میں کبھی ملوث نہیں پایا گیا تو پھر افغان اثاثے کس قاعدے اور ضابطے کے تحت نائن الیون کے متاثرین کو معاوضے کے طور پر دیئے جا سکتے ہیں؟
امریکی صدر کے اس فیصلے پر ردعمل میں افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا چوری ہے اور امریکہ کے انسانی و اخلاقی انحطاط کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی بجا طور پر منجمد اثاثوں کو افغان عوام کی ملکیت قرار دیا ہے جن کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق بھی افغان قوم ہی کو حاصل ہے۔ چین نے بھی امریکہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی نظام کے پردے کے پیچھے چھپا امریکہ ایک بار پھر عیاں ہوگیا ہے، امریکہ افغان بحران کا ذمے دار ہے، وہ اپنی غلطیوں پر غور کرے، اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پوری سنجیدگی سے نبھائے، منجمد افغان فنڈز بحال کرے اور یک طرفہ پابندیاں جلد از جلد ختم کرے، اور حقیقی اقدامات کے ذریعے افغان عوام کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرے… اس ضمن میں امریکہ کے عدالتی نظام کی بھی آزمائش ہے کہ صدر جوبائیڈن کے انتظامی حکم پر عمل درآمد عدالتی توثیق سے مشروط ہے۔ انتظار ہے کہ یہ عدالت انصاف کا بول بالا کرتی ہے یا ……!!!
(حامد ریاض ڈوگر)