آج کا کالم شروع کرنے سے پہلے شکریہ محترمہ پروین اسحاق کا، جنھوں نے پچھلا کالم کینیڈا میں پڑھ کر وہیں سے یاد دلایا:
’’ڈرامے کو اُردو زبان میں نوٹنکی بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی میں اکثر اُردو بولنے والے یہی کہتے ہیں کہ لو ہو گئی اس کی نوٹنکی شروع‘‘۔
دیکھیے کتنی کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ہم بھول بیٹھے تھے۔ اگرچہ ’نوٹنکی‘ دیہاتی ناٹک کو کہا جاتا تھا، مگر جو شہری اعزہ ہر روز ایک نیا ڈراما کرنا چاہتے ہیں اور کر نہیں پاتے، انھیں پروین آپا نے یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ وہ ناکام ہوکر نوٹنکی شروع کردیا کریں۔
قریب قریب دو برس ہونے کو آتے ہیں، دنیا بھر میں اموات و وفات کی بہتات ہوگئی ہے۔ آئے دن ورقی و برقی ذرائع ابلاغ سے یا سماجی ابلاغیات کے صفحات پر، یا محلّے کی مسجد سے اعلان کیا جاتا ہے:’’فلاں صاحب رضائے الٰہی سے وفات پاگئے ہیں …‘‘
سوگواران کو سمجھانا تو بے وقت کی راگنی ہوگی۔ اطلاع دہندگان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’رضا‘ کا مطلب ہے خوشی، خوشنودی، رغبت اور پسندیدگی۔ ’رِضا‘ کے ’ر‘ پر زیر ہے۔ مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور اعمالِ صالحہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی خاطر سر انجام دیتے ہیں۔ صاحبانِ ایمان اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے یا دیگر مقاصد کے لیے جتنے بھی کام کرتے ہیں، یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہر کام اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے فرامین کی روشنی میں کیا جائے۔ نافرمانی والا کوئی عمل سرزد نہ ہو، تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو۔ یہی بندگی ہے، یہی ہے عبادت۔ سورۃ القارعہ میں جس ’’عِیْشَۃِ رَّاضِیَہ‘‘ کی بشارت دی گئی ہے اُس کا مطلب ’دل پسند، من پسند، خوش گوار اور عیش و آرام‘ کی زندگی ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:
’’آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کردیا ہے، تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے اور اسلام کو تمھارے دین کے طور پر پسند کرلیا ہے‘‘۔
یہاں ’’رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَا مَ دِیْناً‘‘ کے الفاظ ہیں۔ لہٰذا رضائے الٰہی اسلام کو اختیار کرنے میں ہے۔ اسی طرح سورۃ البیّنہ کی آخری آیت میں جنتیوں کے لیے فرمایا گیا: ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہٗ‘۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
القصہ مختصر ’رِضا‘ خوشی اور پسندیدگی کو کہتے ہیں۔ ’مرضی‘ کا مطلب پسند یا آمادگی ہے۔ ’مکان اپنی مرضی سے بیچا ہے‘۔ بقولِ اقبالؔ:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
اقبالؔ کا وہ مشہور مصرع بھی مدّنظر رہے کہ ’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘ کائنات کا ہر کام اللہ کی مشیت، ارادے، اجازت اور چاہنے سے ہوتا ہے۔ جس کام کو اللہ نہ چاہے وہ کام دنیا کی تمام طاقتیں مل کر، اپنا ہر طرح کا مال و زر اور اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی کرنا چاہیں تو نہیں ہوگا۔ مثلاً دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرلینے کا کام۔ لہٰذاجو کچھ صادر ہوگا وہ اللہ کی مشیت سے صادر ہوگا۔ انسانوں کو اللہ نے خیرو شر دونوں طرح کے راستے دکھاکر انھیں اختیار دے دیا ہے کہ وہ چاہیں تو شکر گزار بنیں اور چاہیں تو ناشکرے۔ انسانوں کے کچھ اعمال ایسے ہیں جن سے اللہ راضی ہوتا ہے اور کچھ افعال ایسے ہیں جن سے وہ ناراض اور غضبناک ہوجاتا ہے، یعنی ان کرتوتوں سے رضائے الٰہی حاصل نہیں ہوتی۔
انسان ہو، حیوان ہو، جنات ہوں یا کوئی اور مخلوق، اُس کی موت ’قضائے الٰہی ‘ سے واقع ہوتی ہے۔ قرآن میں موت کے لیے کئی جگہ ’قضا‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’رضا‘ کا لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ ’قضا‘ قسمت، تقدیر یا مقدر کو کہتے ہیں۔ ہرمخلوق کی پیدائش، زندگی اور موت کی تفصیلات پہلے سے لکھ دی گئی ہیں۔ اسی کو مقدر کہتے ہیں۔ مرنا سب کا مقدر ہے۔ لہٰذا سب کی موت ’قضائے الٰہی‘ سے آتی ہے۔ ’قضا‘دراصل حکمِ الٰہی یا مشیتِ الٰہی ہے۔ رشکؔ کہتے ہیں:
مرنے کا خوف کیا کہ قضائے خدا ہے یہ
پَر پہلے حقِّ خدمت ادا ہو خدا کرے
قضا کا مفہوم اللہ کی مقرر کردہ، نہ ٹلنے والی تقدیرکے علاوہ عموماً طبعی موت یا وفات ہی لیا جاتا ہے۔ ’نماز قضا ہوگئی‘ کا مطلب ہے نماز فوت ہوگئی۔ اپنے مقررہ وقت کی حد میں ادا نہ کی جا سکی۔ استاد ابراہیم ذوقؔ نے اِس مطلعے میں قضا کو موت ہی کے معنوں میں لیا ہے:
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
’قضا‘ اور ’قدر‘ میں فرق یہ ہے کہ قضا وہ حکم ہے جو روزِ ازل پوری کائنات کے متعلق مجملاً جاری کردیا گیا۔ جب کہ قدر (تقدیر یا مقدر) وہ احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً اور بتدریج اُسی حکمِ ازلی کے موافق ہر فرد کے متعلق تفصیل سے اُتارے جاتے ہیں۔ ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ’’لیلۃ القدر‘‘ ہوتی ہے۔ اِس رات میں ہر اَمر سے متعلق ’اذنِ رب‘ لے کر فرشتے طلوعِ فجر تک نازل ہوتے رہتے ہیں۔ (دیکھیے: سورۃ القدر)
’قضا‘ کا ایک مطلب قضیہ چکانا یا فیصلہ کرنا بھی ہے۔ قضیہ کی جمع ’ قضایا‘ ہے۔ قضیہ چکانے والے کو قاضی کہتے ہیں۔ قاضی کی جمع قضاۃ ہے۔ سب قاضیوں کے قاضی (چیف جسٹس) کو’قاضی القضاۃ‘ کہا جاتا ہے۔ ’قضا‘ کے معنی حاجت پوری کرنے کے بھی ہیں۔ ’قضائے حاجت‘ کا یہی مفہوم ہے۔ جو ذات تمام مخلوقات کی تمام حاجتیں پوری کرتی ہے، اُسے ہم ’قاضی الحاجات‘ کہتے ہیں۔
جب بھی یہ عاجز کسی صاحب کے متعلق سنتا ہے کہ وہ ’رضائے الٰہی‘ سے وفات پاگئے تو ذہن میں کچھ اس قسم کا مفہوم اُبھرتا ہے کہ مرحوم کے نیک اعمال سے اللہ اتنا راضی ہوا کہ انھیں وفات دے دی، تاکہ وہ مزید نیکیاں کرنے سے باز آجائیں۔ عوام میں ایک خیال عام ہے کہ اللہ اپنے محبوب بندوں کو جلدی بلا لیتا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ کیسے معلوم ہوا۔ اس خیال کی سند کیا ہے؟ اسی خیال کے تحت اُردو میں ایک محاورہ بھی رائج ہے ’’اللہ کو پیارے ہوگئے‘‘۔ انبیا سے زیادہ اللہ کا پیارا کون ہوسکتا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر انبیا نے پوری عمر پائی۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے طویل عمر گزاری۔ ’عمر نوحؑ‘ ضرب المثل ہے۔ اللہ کے ان محبوب بندوں پر دنیاوی زندگی میں بہت سی مصیبتیں اور آزمائشیں آئیں۔ حتیٰ کہ اللہ کے محبوب ترین بندے (صلی اللہ علیہ وسلّم) پر تو سب سے زیادہ آزمائشیں آئیں۔ جسمانی آزمائشیں بھی اور جذباتی آزمائشیں بھی۔
یہاں ہمیں موجودہ دور (ماضیِ قریب) کا ایک قصہ یاد آگیا۔ اُردو کے صاحبِ طرز ادیب مُلّا واحدی (وفات: 22اگست 1976ء) پاپوش نگر،کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ اخیر عمر میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔ بستر پر پڑ گئے۔ مولانا حافظ محمد ایوب دہلوی، جو ملا واحدی کے استاد تھے، عیادت کو تشریف لائے۔ استاد کو دیکھتے ہی واحدی صاحب نے اٹھنا چاہا، مگر مفلوج ہونے کی وجہ سے اُٹھ نہ پائے۔ اپنی اس بے بسی پر اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لڑکھڑاتی زبان میں اُستاد سے درخواست کی:
’’اللہ سے دُعا فرمائیے کہ وہ مجھے اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلے‘‘۔
یہ سنتے ہی اُستاد بگڑ گئے۔ بڑے زور سے ڈانٹا:
’’ہائیں، ہائیں، ہائیں… یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
پھر شاگردِ عزیز کوسمجھایا:
’’ارے میاں! اللہ سے ہمیشہ رحم کی دُعا مانگا کرو، ورنہ اپنے محبوب بندوں کے سروں پر تو وہ آرے بھی چلوا دیا کرتا ہے‘‘۔
(اشارہ سیدنا زکریا علیہ السلام کے واقعے کی طرف تھا)