دیدُ شُنید

کتاب
:
دیدُ شُنید
مصنف
:
ڈاکٹر سید امجد علی ثاقب
موضوعِ مضامین
:
یادیں اور باتیں (نثری تحریر)
صفحات
:
338 قیمت:1500روپے
ناشر
:
رائل بک کمپنی BG-5،ریکس سینٹر، فاطمہ جناح روڈ، صدر کراچی
فون
:
0300-3722906,35653418
فیکس
:
92-21-37015472

mahmoodalam.siddiqui@yahoo.com
تعارف (مصنف)
سید امجد علی ثاقب کی تاریخِ ولادت قیامِ پاکستان کی تاریخ یعنی 14 اگست 1947ء ہی ہے۔ فیروزپور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا محمد علی شاہ ہوشیارپور کے ایک قصبے شام چوراسی میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے والد پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ ان کے خاندان میں دینی محافل منعقد ہوتی رہتی تھیں، جن میں ان کے خاندان کے سادات کے عقیدت مند کافی غیرمسلم بھی شریک ہوتے تھے۔ مصنف نے اپنی تعلیم کا آغاز نئے نئے پاکستان میں نواب شاہ کے ایک اسکول سے کیا۔ نواب شاہ سے انٹر کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔ اخبار جنگ کا صفحہ طلبہ میں بہت مقبول تھا۔ سید امجد ثاقب ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ کے عنوان سے ایک ہفتہ وار کالم لکھا کرتے تھے، اور 1970ء میں ایک سال تک وہ یہ کالم لکھتے رہے۔ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں آنرز اور ایم اے کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے، جہاں سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے کورسز مکمل کیے۔ ملک واپس آکر کراچی یونیورسٹی میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن جلد ہی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (NIPA) سے منسلک ہوگئے جہاں پورے 32 سال کام کیا، اور سینئر ترین عہدے پر پہنچ کر وہیں سے ریٹائر ہوگئے۔ کتاب کا پیش لفظ جیّد اور معروف صحافی محترم سید الطاف حسن قریشی نے لکھا ہے۔ وہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں اسے دوبار پڑھ چکا ہوں اور تیسری بار پڑھنے کے لیے بے تاب ہوں۔ مجھے آپ بیتیاں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا لڑکپن ہی سے شوق تھا، اور میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دید و شنید اردو ادب میں ایک منفرد اور گراں قدر اضافہ ہے۔ ڈاکٹر ثاقب نے خود اپنا صحیح تعارف ایسے دلنشیں انداز میں کرایا ہے کہ قاری کتاب پڑھنے سے زیادہ مصنف کی زندگی کے نشیب و فراز میں اترتا اور طلسماتِ ہوش ربا میں گم ہوجاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک فرد اور ایک خاندان کی آپ بیتی ہے، مگر حقیقت میں وہ اس اخلاقی اور ذہنی کشمکش کی فکر انگیز اور باطن کے اندر اتر جانے والی آپ بیتی ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر جاری ہے، اور شاید ابد تک جاری رہے گی۔ بحر کی موجوں کے اضطراب سے جو لعل و گوہر وجود میں آتے ہیں، ان سے پھوٹنے والی سکون بخش دھیمی روشنی اور اعلیٰ انسانی قدروں کے ساتھ وابستگی کی بھینی بھینی خوشبو پوری آپ بیتی میں رچی بسی ہے۔‘‘
دید و شنید میں جہاں آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا احوال محفوظ کیا گیا ہے، وہاں اس کی بیش بہا قدر و منزلت اس بنا پر دیر تک قائم رہے گی کہ اس میں سوچ بچار کے شگوفے کھلتے اور تروتازہ پھول مشام جاں کو معطر کرتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے والد ڈاکٹر تھے، انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے سرکاری ملازمت ترک کردی۔ وہ شروع میں خاکسار تحریک سے تعاون کرتے رہے۔ پھر کسی وقت ان کی ملاقات پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ہوئی، تو ان کے اسلامی ریاست کے بارے میں خیالات سے متاثر ہوئے اور اس کے لیے جدوجہد میں شامل اور متحرک رہے‘‘۔
والدِ محترم کے اس تعلق اور ذہنی وابستگی کا ان کے بیٹے ثاقب پر گہرا اثر ہوا اور ایسے حالات بنتے گئے کہ وہ طالب علمی کی زندگی ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے زیر اثر آتے گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے والد نواب شاہ آکر آباد ہوگئے تھے جہاں سندھی بھائیوں نے ان کا نہایت پُرتپاک استقبال کیا اور انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اس کا صلہ ان کے والد نے یہ دیا کہ عمر بھر اہلِ نواب شاہ کے ساتھ رہے اور ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کی خدمت بجالاتے رہے۔ ان کے فرزند ثاقب نے اسکول کی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ کالج میں فلسفہ، منطق اور معیشت کے مضامین لیے۔ ابھی وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے کہ انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا، جس میں کراچی یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد پروفیسر خورشید احمد بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے نوجوان ثاقب کو کراچی یونیورسٹی منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے وہ کراچی یونیورسٹی میں بی اے آنرز میں داخل ہوگئے اور پروفیسر صاحب کی تجویز پر انگریزی ادب کا مضمون لیا۔ دو سال انگلش لٹریچر پڑھا اور دو سال علومِ سیاست۔ ان کا پہلا مفصل تعارف اعجاز شفیع گیلانی سے ہوا جو اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کے قائدین میں سے تھے۔ انہوں نے اس طالب علم کو یونیورسٹی کی روایات کے بارے میں بتایا اور لائبریری سے استفادہ کرنے کے آداب سکھائے۔ یونیورسٹی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے بلند پایہ مؤرخ اور ممتاز ماہر تعلیم کی رہنمائی میسر آئی جو اُس وقت جامعہ کے وائس چانسلر تھے۔ انہیں ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیقی، ڈاکٹر شاہد حسن، ڈاکٹر تنویر خالد، ڈاکٹر نثار احمد زبیری، ڈاکٹر ظفر اقبال جدون، پروفیسر ممتاز احمد، سید منور حسن ،ڈاکٹر سید عادل حسین، ڈاکٹر انیس احمد، پروفیسر منظور الدین احمد، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر محمود حسین خان، معروف سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے فراواں مواقع میسر آئے جو ان کی شخصیت کی تعمیر میں غایت درجہ مددگار ثابت ہوئے۔
نیپا میں ان کی چیف انسٹرکٹر ڈاکٹر معصومہ حسن تھیں۔ ان کی شخصیت کے سحر میں ڈاکٹر ثاقب اس درجہ گرفتار ہوئے کہ ان کی اعلیٰ خوبیوں کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں۔ آج کل وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کی سربراہ ہیں جس کی داغ بیل ان کے والد بیرسٹر خواجہ سرور حسن نے ڈالی تھی۔ ’’دید و شنید‘‘ میں ان کا ذکر مختلف مقامات پر کمال درجہ احترام کے ساتھ آیا ہے۔ ان کی بے پایاں صلاحیتوں کی بنا پر انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کیا گیا اور بعد ازاں وہ کیبنٹ ڈویژن کی سیکریٹری مقرر کی گئیں جو سول سروس کی معراج تصور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب نے اپنی آپ بیتی میں درجنوں نامور شخصیتوں کا بڑے مؤثر پیرائے میں ذکر کیا ہے جن سے وہ غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے، اکتسابِ فیض کرتے رہے اور جن کے فیض سے بنی نوعِ انسان کی تشکیل اور تعمیر جاری ہے۔ اس اعتبار سے یہ آپ بیتی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ بن گئی ہے۔ڈاکٹر ثاقب نے قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کے چند بے مثال گوشے ان کے معاونین مطلوب حسین سید اور رضوان احمد کی زبانی اجاگر کیے ہیں۔ پروفیسر غفور احمد کی کرشماتی اور مدبر شخصیت کے خدوخال ایک نئی معنویت کے ساتھ سامنے لائے ہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری کی تحریکِ پاکستان میں شاندار خدمات اور 1973ء کے دستور کی تدوین میں ان کا حصہ، ان کے بڑے صاحب زادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، فہم دین کے سلسلے میں صوفی عبداللہ کے کمالات، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت اور عبدالستار ایدھی کی خدمات کو انہوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ اجاگر کیا ہے، کیونکہ ان شخصیات نے بالواسطہ ان کی حیات اور کردار کو متاثر کیا ہے۔