یکم فروری 2022ء سے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ ہڑتال پر ہیں۔ یہ ہڑتال شعبہ ماحولیاتی علوم (انوائرنمنٹل سائنس) سے یکم فروری کو 20 سال اسسٹنٹ پروفیسر رہنے کے بعد ریٹائر ہونے والے معروف ماحولیاتی محقق ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کو اُن کا حق دلوانے تک جاری رہے گی۔ ظفر اقبال ایسوسی ایٹ پروفیسر کی پوسٹ کے لیے 2014ء سے امیدوار تھے، ایک ماہ قبل سندھ ہائی کورٹ کے ججوں گورار اور میمن نے کراچی یونیورسٹی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ظفر اقبال کا سلیکشن بورڈ فوری رکھا جائے۔ یونیورسٹی نے ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل یہ بورڈ بلایا لیکن فیصلہ یہ کیا کہ کیونکہ وزیراعلیٰ سے 2014 اور دیگر اسامیوں کے اشتہارات ہی کی منظوری نہیں لی گئی اس لیے پہلے اجازت لی جائے۔ واضح رہے کہ اس اجازت کا کوئی قانون یا نظیر تک موجود نہیں۔ ظفر اقبال کے ساتھ اس زیادتی پر جیسے یونیورسٹی اساتذہ میں فرسٹریشن کا لاوا پھٹ پڑ۱۔ 2014ء اور اس کے بعد 2019ء کا اشتہار اساتذہ کے طویل احتجاج اور دھرنوں کے بعد ہی آیا تھا، اور اشتہار کو متنازع بناکر ظفر اقبال کو نشانہ بنانا جیسے جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ انجمن اساتذہ نے جو چھے سو اساتذہ کی منتخب یونین ہے، یکم فروری کو احتجاج کی کال دی۔ یہ احتجاج جلسہ اور ریلی کی صورت اختیار کرگیا۔ پروفیسر حارث شعیب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ون فار آل، آل فار ون۔ پھر ایڈمن بلڈنگ پر صدر سوسائٹی علی القدر نے اعلان کیا کہ اساتذہ 3 فروری تک ہڑتال کریں گے۔ اسی روز شام میں سابقہ چار پروفیسروں کے ایک کیس میں فیصلہ آیا کہ قائم مقام وائس چانسلر خالد عراقی کا تقرر ہی غلط ہوا ہے، اوروزیراعلیٰ کو ہدایت دی گئی کہ وہ سینئر ترین پروفیسر کو عارضی وائس چانسلر لگا کر دو ماہ میں مستقل وائس چانسلر کا انتخاب کرلیں۔ یونیورسٹی میں فضا جہاں ظفر اقبال شمس کے ساتھ زیادتی پر رنج و الم کا شکار تھی، وہاں قائم مقام وائس چانسلر کی اس طرح عدالتی برطرفی پر یہ محسوس کیا گیا کہ ڈھائی سال سے 27 ویں نمبر کے پروفیسر کو وائس چانسلر لگانے پر بالآخر عدالت نے فیصلہ دے ہی دیا۔ البتہ یونیورسٹی اب کسی انتظامی سربراہ سے محروم رہے گی جب تک نیا قائم مقام نہیں آجاتا۔ اس ماحول میں 3 فروری کو جنرل باڈی، ٹیچرز سوسائٹی کی تاریخ میں بڑی جنرل باڈیوں میں سے ایک بن گئی۔ چار سو کے قریب اساتذہ سے آرٹس آڈیٹوریم بھر گیا اور اساتذہ نے قرارداد پیش کی کہ جب تک ظفر اقبال شمس کا سلیکشن بورڈ نہیں ہوجاتا تب تک اساتذہ ہڑتال پر رہیں گے۔ یہ فیصلہ بھی تاریخی ہے۔ البتہ کراچی یونیورسٹی میں احتجاج اور ہڑتال کی ایک تاریخ ہے جس پر ہم کچھ دیر میں آتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ایک سرکاری یونیورسٹی ہے جس کا چانسلر وزیراعلیٰ ہے۔ قائم مقام وائس چانسلر جب نہ رہے تو چانسلر یعنی وزیراعلیٰ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اساتذہ کے احتجاج کا نوٹس لیتے۔ لیکن افسوس کہ صوبائی دارالحکومت میں موجود کراچی یونیورسٹی پر حکومت کے کسی ایک شخص کا کوئی تبصرہ تک نہیں آیا۔ کیا وزیراعلیٰ صاحب عوام کو جوابدہ نہیں کہ انہوں نے ڈھائی سال پہلے جسے قائم مقام وائس چانسلر لگایا اسے ہائی کورٹ نے برطرف کردیا، اس وائس چانسلر نے ہائی کورٹ کے حکم پر سلیکشن بورڈ منعقد نہیں کیا، اور اب عدالت کے فیصلے کے باوجود یہی شخصیت کیوں وائس چانسلر کے دفتر میں بیٹھ رہی ہے؟ یہ عدم توجہی، بدانتظامی، فیصلوں میں تاخیر دراصل تعصب، اقربا پروری، قانون سے انکار اور کرپشن کو جنم دیتی ہے۔ وفاقی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن گزشتہ 20 سال سے سرکاری یونیورسٹیوں کو مالی بحران کا شکار کرکے نجی یونیورسٹیوں کو فروغ دینے والا ادارہ بن چکا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یونیورسٹیاں جنہیں اعلیٰ تعلیمی ادارے سمجھا جاتا ہے ان کے ساتھ منتخب حکومت کا یہ سلوک کیوں ہے؟ پہلے اس سوال کو لیتے ہیں، پھر ہم کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی ہڑتال پر واپس لوٹتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی اور سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں میں سندھ حکومت کی مداخلت دراصل 2018ء سے شروع ہوئی جب 30 سیکنڈ میں یونیورسٹی ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں اور اساتذہ کی یونینیں احتجاج کرتی رہ گئیں لیکن یہ ترمیم مسلط کردی گئی۔ ان ترامیم نے چانسلر، پرو چانسلر اور سیکریٹری بورڈز اینڈ یونیورسٹیز کو یونیورسٹی میں تقرری اور داخلہ پالیسی تک میں مداخلت کا اختیار دے دیا۔ ظفر اقبال کے سلیکشن بورڈ نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکریٹری بورڈز اینڈ یونیورسٹیز کا یہ اعتراض تھا کہ یونیورسٹی کو اسامیوں کے اشتہارات پر وزیراعلیٰ سے اجازت لینی ہو گی۔ 2018ء کی ترامیم نے پہلی بار یونیورسٹی سلیکشن بورڈ کا رکن سیکریٹری بورڈز اینڈ یونیورسٹیز کو بنادیا، اور یوں صوبائی حکومت وہ شرائط لگاتی ہے جن کا نہ کوئی قانونی جواز ہوتا ہے نہ ہی کوئی منطق۔ ایسے اقدامات صوبے میں لسانی تفریق اور امتیاز کی فضا کو بڑھاوا دیتے ہیں لیکن ان کا منبع دراصل ترامیم ہیں۔ صوبائی حکومت جب یہ ترامیم کرکے اعلان کرتی ہے کہ کراچی یونیورسٹی سندھ میں ہے اور ان ترامیم سے سندھیوں سے زیادتی کا ازالہ ہوگا، تو یہ ایسی متعصبانہ سوچ ہے جو ایک جانب یہ نظرانداز کردیتی ہے کہ کراچی میں ہر زبان بولنے والا پیدا ہوتا ہے، دو ہاتھ سے کام کرکے روزی کماتا ہے اور یہ بھی سندھی ہی ہے، دوسری جانب یونیورسٹیوں میں مداخلت کسی قسم کا ازالہ نہیں کرپاتی بلکہ حکومت کے وزیروں اور ان سے زیادہ صوبائی بیوروکریسی کے اختیارات میں اضافہ کرکے یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ان بابوؤں کو مداخلت کا اختیار دیتی ہے جس سے کرپشن اور اقربا پروری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اور یہی صوبائی بیورکریسی اور خاص کر سیکریٹری بورڈز اینڈ یونیورسٹیز کا دفتر ہے جو صوبے بھر کی یونیورسٹیوں میں مداخلت کرتا ہے، بحران پیدا کرتا ہے اور پھر حکومت کو بے بس بھی رکھتا ہے کہ وہ اس بحران سے نکل پائے۔ یہی کراچی یونیورسٹی میں ہڑتال میں ہورہا ہے کہ صوبائی حکومت کو اُس کی نوکر شاہی اساتذہ سے مذاکرات کرنے تک سے مانع رکھے ہوئے ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ نوّے کی دہائی سے حال تک کراچی کو ایک لسانی سیاسی پارٹی کی اجارہ داری میں دے دیا گیا تھا۔ ایسے قوانین جیسے کراچی سے انٹرمیڈیٹ کرنے والے کو داخلے میں اوّلیت اور کئی ایک سلیکشن بورڈز میں صرف کراچی کے شہریوں کو ہی فوقیت نے جواز بھی فراہم کیا کہ سندھی بولنے والے یہ مطالبہ کریں کہ کراچی یونیورسٹی ان کی رسائی سے دور کیوں ہے؟ لیکن جس طرح ترامیم کرکے اور یونیورسٹی میں مداخلت کرکے بار بار بحران پیدا کیا جارہا ہے اس سے سندھی اور دیگر زبان بولنے والوں میں صرف دوریاں ہورہی ہیں۔ جمہوریت عددی برتری نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے زیادتیوں کے ازالے کا نام ہے، اور اس کی اولین مثال 18ویں ترمیم ہے جس نے صوبوں کو صحت، تعلیم، ریونیو پر اختیار دیا، اور اسی سبب سے شہری حکومتوں کے اختیارات کو صوبائی خودمختاری کی توسیع کے طور پر لیے جانے کے خلاف تحاریک بھی چل رہی ہیں۔ کراچی میں بلدیاتی حقوق پر جاری حالیہ تحریک کے تناظر کو دیکھیں تو یہ بہتر طور پر نظر آئے گا کہ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کیوں ایک طویل ہڑتال کی جانب بڑھے۔ یہ کراچی شہر میں فوجی آپریشن کے بعد پیدا ہونے والا خلا ہے جس میں بے پناہ مہنگائی، تحقیقی فنڈ کی عدم فراہمی، یونیورسٹی بجٹ میں کٹوتیاں، پروموشنز میں ظفر اقبال جیسی 20 سال تک تاخیر، ترامیم سے پیدا حکومتی مداخلت، ڈھائی سال سے مستقل وائس چانسلر کا عدم تقرر اور غیر مستقل کی سربراہی میں سلیکشن بورڈ میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی ہٹ دھرمی جیسے بہت چھوٹے اور بہت بڑے مسائل ہیں جنہوں نے اساتذہ کو انتہائی اقدام پر مجبور کیا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ نے جس طرح ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کے ساتھ حق تلفی پر احتجاج اور اب ہڑتال کر رکھی ہے یہ ایک منفرد مثال ہے۔ البتہ یہ یونیورسٹی اساتذہ کی اس شاندار روایت سے ابھر رہی ہے جس میں اظہارِ رائے، اجلاس اور پھر احتجاج اور ہڑتال ابھرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ ہی تھے جو 1969ء میں یونیورسٹی میں آمریت کے خلاف طلبہ اور مزدور تحریک کا حصہ بنے۔ اسی تحریک نے 1972ء کا یونیورسٹی ایکٹ دیا جو ملک بھر میں یونیورسٹی ملازمین اور اساتذہ کو یونیورسٹی چلانے میں شراکت دیتا ہے اور اساتذہ و طلبہ کے حقوق اور رائے کو اولیت دینے کی بنیادی دستاویز ہے، یہی ایکٹ آج بھی نافذ ہے باوجود اس کے کہ اس میں جنرل ضیاء نے ترامیم کرکے سنڈیکیٹ میں نوکرشاہی کی مداخلت بڑھا دی، طلبہ یونینز پر پابندی لگاکر طلبہ کی نمائندگی ختم کردی۔ پھر 2002ء میں ورلڈ بینک پروجیکٹ کے تحت یونیورسٹی ایکٹ ختم کرکے اردو یونیورسٹی کا برا حال کرنے والا ماڈل یونیورسٹی ایکٹ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جس کے خلاف طلبہ، اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے ملازمین نے تحریک چلائی، اس طرح ماڈل ایکٹ تمام یونیورسٹیوں پر نافذ نہ ہوسکا اور آمر جنرل پرویزمشرف کو پسپا ہونا پڑا۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست کو نیم فوجی مداخلت کے ذریعے 2008ء میں کچل دیا گیا۔ البتہ ملازمین اور افسران کی پرتیں منظم ہونے لگیں، ساتھ ہی اساتذہ کی ایسوسی ایشنز نئی یونیورسٹیوں جیسے کراچی کے ڈائو میڈیکل اور سندھ مدرستہ الاسلام میں بن گئیں۔ البتہ کراچی یونیورسٹی ان تمام یونیورسٹیوں میں ممتاز ہے۔ یہاں جب بھی یونیورسٹی کی زمین یا اس کی عمارات پر بیرونی، شہری، سول و فوجی قوتوں کی جانب سے دراندازی کو بڑھانے کی کوشش ہوئی، اساتذہ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور یونیورسٹی کی خودمختاری کے لیے ڈٹے رہے۔ 2018ء کے انتخابات کے دوران رینجرز نے فارمیسی فیکلٹی کی عمارات کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی تو اساتذہ نے ہڑتال کردی۔ اسی طرح وائس چانسلر نے ملازمین کی ہڑتال توڑنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا تو اساتذہ ان ملازمین کے ساتھ کھڑے رہے۔ اسی طرح حال ہی میں وفاقی ایچ ای سی نے یونیورسٹی ڈگری پروگرام کی جگہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام مسلط کرنے کی کوشش کی تو یونیورسٹی اور کالجوں کے اساتذہ، ملازمین اور طلبہ نے اس پروگرام کے خلاف احتجاجی تحریک چلا کر اسے بھی پسپا کردیا۔
البتہ کراچی یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح بدترین مالی بحران کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور ایچ ای سی اور صوبائی حکومت کی گرانٹ گھٹ رہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں اس وقت 45ہزار طلبہ ایوننگ اور مارننگ پروگرام میں داخل ہیں۔ اخراجات 5 ارب روپے کے ہیں جبکہ ایچ ای سی کی گرانٹ 2 ارب روپے ہے۔ یوں یونیورسٹی دو سے تین ارب روپے خود فیسوں کی مد میں لے رہی ہے۔ اسی سبب عام طلبہ کی فیسوں میں گزشتہ دو سال میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔ سیلف فنانس پر نااہل طلبہ کو نشستیں بیچنے کا رحجان اب بعض شعبوں میں 50 فیصد نشستوں تک لے جایا گیا ہے۔ عمومی طور پر 45 فیصد مارکس لینے والے انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو یونیورسٹی میں شام کے پروگرام میں داخلہ دے دیا جاتا ہے۔ فیسوں میں اضافے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس سے یونیورسٹی کی گرتی ہوئی عمارتوں، کلاس رومز، لیب میں ایکوئپمنٹ یا لائبریری کی دگرگوں حالت بہتر ہورہی ہے، بلکہ ان کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس کوئی رقم نہیں۔ جبکہ دوسری جانب بیرونی مداخلت یوں بھی بڑھی کہ اب یونیورسٹی میں جابجا نجی لائبریریاں، نجی پروفیشنل کورسز، نجی اسکولوں کو زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں اور ان مقامات پر ابھرنے والے اداروں پر یونیورسٹی کا کوئی کنٹرول تک نہیں۔ وفاقی سطح سے صوبے کو یونیورسٹیوں کا مالی کنٹرول منتقل نہیں کیا جاتا، کیونکہ وفاقی سطح پر ورلڈ بینک اور مقامی جادوگر سائنس دان اپنا تسلط ختم نہیں کرنا چاہتے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح سے مداخلت پر اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، اور یہی اساتذہ وفاقی سطح پر یونیورسٹی کو اتنا بجٹ فراہم نہ کرنے پر بھی سراپا احتجاج (باقی صفحہ 41پر)
ہیں کہ ان کٹوتیوں نے یونیورسٹی میں کلاس رومز، لیب اور معمولی سہولیات کو ختم کرکے فیسوں میں اضافے سے علمی فروغ کے عمل کو مکمل طور پر سبوتاژ کر دیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی موجودہ تحریک جہاں شہر میں صوبائی حکومت کی یلغار کے خلاف جاری دیگر تحاریک کے دوران ابھری ہے، وہیں یہ سرکاری یونیورسٹیوں کی ابتر حالت کو بھی سامنے لارہی ہے۔یونیورسٹی اساتذہ کی اس ہڑتال کو سندھ یونیورسٹیز منتخب اساتذہ ایسوسی ایشن سندھ فپواسا کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے اور 8 فروری کو کراچی یونیورسٹی میں سندھ فپواسا کا اجلاس اس تحریک کو تمام سندھ کے اساتذہ کے مسائل کا ترجمان بنا دے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے اساتذہ کراچی یونیورسٹی ہڑتال کے ذریعے اپنی بات عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ معاشرے کے اہل علم، رائے عامہ بنانے والے اداروں اور افراد کو اس تحریک کا ساتھ دینا ہوگا۔