دنیا بھر کے مسلمانوں نے کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے پانچ فروری کو یوم یکجہتیِ کشمیر منایا۔ پاکستان کے ہر شہر میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ریلیاں نکالیں، جلسے ہوئے اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ پانچ فروری کو پاکستانی قوم نے32 واں یوم یکجہتیِ کشمیر منایا، مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے، قومی سطح پر شاید یہ ذمہ داری اب صرف جماعت اسلامی کی قیادت اور اُس کے کارکن ہی پوری کررہے ہیں، حکومت کا اس یوم سے تعلق اب واجبی سا رہ گیا ہے۔ حکومتیں اب بوجھل دل کے ساتھ اس کام میں شریک ہوتی ہیں، اور دن کی تقریبات اب بینرز آویزاں کرنے اور پیغام جاری کرنے تک محدود ہوگئی ہیں، مگر عوام کے جذبات اور ان کے دل کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی اور پاکستان کے عوام اور دنیا بھر کے حقیقی جمہوریت پسند طبقے ایک پیج پر ہیں، یہ سب چاہتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے تسلط سے آزاد ہوجائیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ حکومت کی سطح پر پانچ فروری کو ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ یہ خاموشی اب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سال تو پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں پانچ فروری کے حوالے سے کوئی قرارداد بھی حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے پیش نہیں کی گئی، ہر حکومت ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ شاہراہ دستور اسلام آباد میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ریلی نکال لی جاتی ہے جس میں صدر مملکت ، وفاقی وزرا، ارکانِ سینیٹ و قومی اسمبلی اور عوام بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ صدرِ مملکت یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور بھارتی مظالم دنیا کے سامنے بے نقاب کیے جاتے ہیں۔
اس مرتبہ لوک ورثہ اسلام آباد میں وزارتِ امور کشمیر و گلگت بلتستان کے تعاون سے تصویری نمائش، ڈاکومنٹری، مشاعرے اور اسٹیج ڈرامے کا اہتمام کیا گیا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے سائیکل ریلی، کرکٹ میچ اور میراتھن ریلی کا اہتمام کیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی حکومت نے ہنزہ میں آئس ہاکی میچ کا پروگرام ترتیب دیا۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ اظہارِ محبت کے لیے پوری مقبوضہ وادی میں قائداعظم محمد علی جناح، وزیراعظم پاکستان عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پورٹریٹ اور پوسٹر آویزاں کیے، جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت اُن کے لیے کچھ کرے اور سوچے۔ لیکن پاکستان سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت سے آگے نہیں بڑھ رہا، جب کہ کشمیری کچھ مزید چاہتے ہیں۔ سانحہ ڈھاکا کے بعد جب شیخ عبداللہ بھارتی سرکار کے ساتھ جا ملے تو اُس وقت کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے بھرپور اظہار کے لیے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں اس کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ بعدازاں ایک طویل وقفے کے بعد باضابطہ طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ 5 فروری 1990ء کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا۔ اسی نسبت سے آج تک ہر حکومت کسی نہ کسی حد تک یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد یہ تھا کہ پوری قوم متحد ہوکر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا، جب کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک پاکستان کے لیے ہے، کشمیری عوام کی لاکھوں شہادتیں، عفت مآب خواتین کی قربانیاں صرف اور صرف پاکستان کے لیے ہیں۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل و استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے، درمے، قدمے، سخنے ہی نہیں، عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹرطارق سلیم نے راولپنڈی، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں اسلم، اور کے پی کے کے امیر سینیٹر مشتاق احمد نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کیا۔ راولپنڈی میں سید عارف شیرازی، ضلعی سیکرٹری محمد عثما ن آکاش، نائب امیرضلع سید عزیر حامد، سید ارشد فاروق نے بھی اظہارِخیال کیا۔ اسلام آباد میں جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصر اللہ رندھاوا، زبیر صفدر، ساجد اقبال چودھری، ڈاکٹر طاہر فاروق، کاشف چودھری، عزیز الرحمٰن، تنویر احمد خان، جمیل کھوکھر اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیربنائی گئی۔ جماعت اسلامی پنجاب کے زیراہتمام صوبے بھر میں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور مظلوم کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیوں، آل پارٹیزکانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کیا گیا۔ اٹک میں بھی یکجہتیِ کشمیر ریلی ہوئی جس سے صوبائی سیکرٹری جنرل اقبال خان، نائب امیر صوبہ حافظ تنویر احمد اور امیر ضلع سردار امجد علی خان نے خطاب کیا۔ جماعت اسلامی گجرات شہرکے زیراہتمام یکجہتیِ کشمیر آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس سے امیر صوبہ ڈاکٹرطارق سلیم، امیرضلع سید ضیاء اللہ شاہ ایڈووکیٹ، ضلعی سیکرٹری ڈاکٹرخالد محمود ثاقب، امیرشہرچودھری انصرمحمود دھول ایڈووکیٹ سمیت دیگرمذہبی وسیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا۔ نائب امیر صوبہ پنجاب ڈاکٹرمبشراحمد صدیقی نے بھلوال سرگودھا، اور امیر ضلع میاں اویس قاسم تلہ نے سرگودھا شہر میں یکجہتی کشمیر ریلی کی قیادت کی۔ حافظ فدا الرحمژن نے خوشاب، ڈاکٹر نثاراحمدنے بھکر، پروفیسرمحمداشرف آصف نے چکوال، ڈاکٹر محمد قاسم چودھری نے جہلم، حافظ جاویداقبال ساجد نے میانوالی اورمنڈی بہاالدین میں امیرضلع رانا محمداعظم نے یکجہتیِ کشمیر ریلیوں سے خطاب کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد اسلم نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کیا اور کہا کہ پانچ فروری منانے کا مقصد کشمیری عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں اکیلے نہیں، زندگی کی آخری سانس تک کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جا ئے گی،کشمیری اس وقت تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، پوری قوم یوم یکجہتیِ کشمیر بھرپور جوش و خروش سے منارہی ہے، آج 913 دن ہوگئے کہ 80 لاکھ لوگ محاصرے میں ہیں، ہمارے حکمرانوں نے حقِ خودارادیت کے مؤقف پر ہمیشہ کمزوری دکھائی ہے، مسئلہ کشمیر کے حل اور اس مسئلے کو عالمی سطح پر درست انداز میں پیش کرنے کے لیے ڈپٹی وزیر خارجہ تعینات کیا جائے، دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیے جائیں، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی مگر ہماری حکومت نے اس پر مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا۔ میاں محمد اسلم نے کہا کہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کے ڈومیسائل بنائے جارہے ہیں، یہ چند سیکنڈ کی خاموشی، ایک روز کے احتجاج اور کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر رکھنے سے کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا۔ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ کشمیر پاکستان کے وجود میں ایک دھڑکتا ہوئے دل کی سی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں کشمیر کہیں بھی اسٹرے ٹیجک پالیسی کا حصہ نہیں۔ جب تک نیشنل سیکورٹی پالیسی میں کشمیر پہلی ترجیح نہیں تب تک پاکستان کا سیکورٹی پلان نامکمل ہے،کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت واضح روڈ میپ کا اعلان کرے، بھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت کشمیریوں کے ساتھ غداری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی سفیر مقرر کرے، آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے کہ کشمیر کو عملاً ہندو اسٹیٹ کا حصہ بنایا جائے، مودی حکومت نے 5 اگست 2019ء کے بعد ہندوئوںکو کشمیری ڈومیسائل جاری کیے، کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی ہورہی ہے، جینو سائیڈ واچ اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں کے مطابق کشمیر میں 10 ہزار نامعلوم قبریں ملی ہیں، کشمیری اس وقت انڈین فورسز کے وار کرائم کا شکار ہیں۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہمارا وزیراعظم خود کو ٹیپو سلطان کہتا ہے لیکن وہ میر جعفر ثابت ہوا ہے، ہندوستان کی جارحیت پر پاکستان کی کوئی دوٹوک پالیسی نہیں، پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں کشمیر کے لیے صرف 113 الفاظ ہیں، ہم وزیراعظم سے پوچھتے ہیں کہ کشمیر ایشو پر کتنے ممالک کے دورے کیے، ہمارے بے غیرت حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ سیز فائر معاہدے کرکے لائن آف کنٹرول کو بیچا ہے، موجودہ حکومت مسئلہ کشمیرکو سبوتاژ کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سیزفائر کرکے حل نہیں ہوگا اور نہ ہی آئٹم سونگ ریلیز کرنے سے کشمیر آزاد ہوگا، ہم حکو مت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنیوا کی عالمی کانفرنس میں بھارت کے خلاف قرارداد منظور کروائے، کشمیری لیڈرشپ اور گرفتار صحافیوں کو رہا کرنے کے لیے عالمی تحریک لائی جائے، کشمیر کی آزادی کے لیے جذبۂ جہاد کو تیز کیا جائے، اورکشمیریوں کی مدد اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ جلسہ تقریباً تین گھنٹے جاری رہا اور کشمیری عوام کی آزادی کی دعا کے ساتھ ختم ہوا۔