کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن کشمیری روزانہ کربلا جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ کشمیر 1948ء سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج مسئلہ کشمیر زندہ ہے تو اُن کشمیریوں کی وجہ سے، جو اپنے سپوتوں کی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اور اس جدوجہد میں پاکستان کے عوام اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کا صرف ایک ہی نعرہ ہے: ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور شہادت کے وقت بھی ان کی زبان پر صرف سید علی گیلانی کے دیے گئے یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ ”ہم پاکستانی ہیںپاکستان ہمارا ہے“۔ 5 فروری قاضی حسین احمد کا صدقہ جاریہ ہے جو قاضی حسین احمد کی تحریک اور جدوجہد سے ہی یومِ یکجہتیِ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی پس منظر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر امسال بھی 5 فروری کو پورے ملک میں کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرے کیے گئے۔ پشاور میں نکالے گئے کشمیر آزادی مارچ سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خطاب کیا۔ لاہور مال روڈ پر نکالے گئے آزادی مارچ سے سیکریٹری جنرل امیرالعظیم نے خطاب کیا۔ اسی طرح ملتان میں نکالی گئی عظیم الشان یکجہتیِ کشمیر ریلی کی قیادت نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کی۔ اسلام آباد میں نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم اور سینیٹر مشتاق احمد خان، ساہیوال اور اوکاڑہ میں امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب مولانا جاوید قصوری، فیصل آباد میں قیم جماعت اسلامی وسطی پنجاب نصراللہ گورائیہ، کوئٹہ میں امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی، کراچی میں حافظ نعیم الرحمٰن امیر جماعت اسلامی کراچی اور گوادر میں مولانا ہدایت الرحمٰن نے یکجہتیِ کشمیر ریلیوں کی قیادت کی۔
پشاور میں ایک بڑے یکجہتیِ کشمیر مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پاکستانی قوم کشمیریوں کی پشتی بان ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر کا مقدمہ ہر سطح پر لڑے گی۔ کشمیری پاکستانی حکمرانوں سے مایوس ہیں، مگر پاکستانی قوم نے ان کے حوصلے جوان رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی شمع تیسری نسل کو منتقل ہوگئی۔ یقین ہے کہ کشمیر میں آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے قومی پالیسی کا اعلان کرے اور واضح روڈ میپ دے۔ مسئلہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر او آئی سی اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے۔ کشمیر جہاد سے ہی آزاد ہوگا۔ کشمیر ایشو پر 22 کروڑ پاکستانی ایک پیج پر ہیں، لیکن حکومت بین الاقوامی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ مودی حکومت کے 5اگست 2019ء کے اقدام کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر پر کوئی سنجیدہ ردعمل نہیں اپنایا۔ وزیراعظم کو یوم یکجہتیِ کشمیر کے موقع پر پاکستان میں ہونا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ایک تقریر کے بعد مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال دیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے کشمیر کاز سے غداری کی، جس کا قوم حساب لے گی۔ ماضی کے حکمران بھی کشمیریوں سے بے وفائی کرتے رہے۔ اسلام آباد کے ایوانوں میں براجمان لوگ ہزاروں کشمیری شہدا کے خون سے مسلسل بے وفائی کررہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا کی علَم بردار حکومت نے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ قابض بھارتی افواج مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں تارتار کررہی ہے۔ کشمیریوں کے گھر جلائے جارہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری نوجوان لاپتا ہیں، بڑی تعداد کو بھارتی جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ مقبوضہ وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں بدترین مظالم پر ادارئہ اقوام متحدہ سورہا ہے اور عالمی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اپنا رکھی ہے۔ سلامتی کونسل کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دے کر اس پر پابندی لگائی جائے۔
مال روڈ پر نکالی گئی ریلی سے جنرل سیکریٹری امیرالعظیم نے خطاب کیا اور کشمیری قیادت اور خصوصاً علی گیلانی مرحوم کی جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے حکومت کو چارج شیٹ کرتے ہوئے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ایف اے ٹی ایف کے حکم پر اُن لوگوں کو سزائیں دے رہی ہے جنہوں نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی میں ان کا ساتھ دیا۔ وزیراعظم اقوام متحدہ میں جاکر کشمیریوں کے حق میں تقریر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بھارت سے دوستی بھی چاہتے ہیں۔ حکومت کشمیر کو جنگ زدہ علاقہ قرار دے اور عالمی قوانین کے مطابق کشمیریوں کے مال، جان اور عزت و آبرو کے لیے عملی مدد کرے۔
ملتان میں گورنمنٹ علمدار کالج سے گھنٹہ گھر تک نکالی گئی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو سلام پیش کیا اور کہا کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیریوں کا پشتی بان ہے۔ کشمیری اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کے عقیدے اور بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ کشمیریوں نے مودی حکومت کے اقدام کو مسترد کردیا اور ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی کے زیراہتمام جیل چورنگی تا مزار قائد ’’یکجہتیِ کشمیر ریلی‘‘ نکالی گئی، جس میں شہر بھر سے بچوں، بوڑھوں، جوانوں، مرد و خواتین نے بڑی تعداد میں مظلوم و نہتی کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے شرکت کی۔ ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر مظلوم کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و نہتے عوام کو وزیراعظم عمران خان کی تقریروں کی ضرورت نہیں، انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ وزیراعظم 5 فروری کے دن پاکستان میں ہی موجود نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر قراردادوں سے نہیں، عملی اقدامات سے آزاد ہوگا۔ اقوام متحدہ اور اس کے آلہ کار جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بارے میں تو فیصلہ کرتے ہیں لیکن اسلامی ممالک کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ انہیں مظلوم کشمیری بچیوں کا خون کیوں نظر نہیں آتا؟ اسد اللہ بھٹو نے مزید کہا کہ قاضی حسین احمد مرحوم نے پہلی بار5 فروری کو پاکستان میں ہڑتال کرکے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کا دن منایا تھا۔ تاریخی، تہذیبی و علاقائی طور پر کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ رہا ہے، مظلوم کشمیریوں نے ہمیشہ پاکستانیوں سے والہانہ محبت کا اظہار کیا، کشمیری عوام شہید ہونے کے بعد پاکستانی پرچم میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر ایسا خطہ ہے جہاں سے پورے پاکستان کو پانی ملتا ہے۔ مظلوم کشمیریوں کا سب سے بڑا جرم کلمہ طیبہ ہے۔
ریلی سے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5 فروری کو یکجہتیِ کشمیر پاکستان سمیت تمام عالم اسلام میں منایا جارہا ہے، 5 فروری ہر سال ’’یوم یکجہتیِ کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، پوری دنیا کے سامنے بھارتی جارحیت اجاگر کرنا لازمی ذمے داری ہے، حکومت کا کام یہ ہے کہ ریاستی طور پر بین الاقوامی قانون کے تحت اقدامات کرے، پوری دنیا میں سفارتی محاذ پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرے، موجودہ حکومت جتنا بجٹ فوج کے لیے رکھتی ہے کیا اتنا بجٹ سفارتی محاذ کے لیے رکھتی ہے؟ وزیراعظم عمران خان صرف تقریر کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حق ادا کردیا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے اندرونِ خانہ مک مکا کرلیا ہے، کیا وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کو محاذ پر نہیں بھیجا جاتا؟ آدھا کشمیر جنگ کے ذریعے سے ہی آزاد کرایا گیا تھا، بقیہ کشمیر بھی جہاد کے ذریعے سے ہی آزاد کرائیں گے۔
ریلی سے نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
جماعت اسلامی سندھ کے تحت بھی سندھ بھر میں یوم یکجہتیِ کشمیر بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، تھرپارکر، نواب شاہ، میرپورخاص، گھوٹکی، خیرپور، شکارپور، کندھ کوٹ، ٹھٹہ، ٹنڈوالہیار، ٹنڈومحمد خان، بدین، گولارچی، ٹنڈوباگو، ماتلی، ٹنڈوآدم سمیت سندھ بھر میں یوم یکجہتیِ کشمیر کے سلسلے میں ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرے ہوئے، ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی اور سیمینار منعقد کیے گئے، جن سے جماعت اسلامی کے مرکزی، صوبائی ومقامی رہنمائوں کے علاوہ دیگر سیاسی، سماجی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ میرپورخاص میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، حیدرآباد میں امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی، لاڑکانہ میں جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی صوبہ سندھ کاشف سعید شیخ، جیکب آباد میں حافظ نصراللہ چنا، شکارپور میں پروفیسر نظام الدین میمن، نوشہرو فیروز میں ممتازحسین سہتو،بدین میں مولانا عبدالقدوس احمدانی، ٹنڈومحمد خان میں نواب مجاہد بلوچ، خیرپور میں مولانا حزب اللہ جکھرو، ٹھٹہ میں آفتاب ملک،کندھ کوٹ میںعبدالحفیظ بجارانی، شہدادپور میں حافظ طاہر مجید، محمد افضال آرائیں اور گھوٹکی میں محمد حسن کھوسہ نے یکجہتیِ کشمیر ریلیوں کی قیادت کی اور شرکا سے خطاب کیا۔ اس موقع پر شرکا نے پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جن پر ’’کشمیریوں سے رشتہ کیا ..لاالٰہ الااللہ“ اور” کشمیر بنے گا پاکستان‘‘کے نعرے درج تھے، جبکہ مظاہرین نے زبردست نعرے بازی بھی کی۔
بھارت نے کشمیر میں اپنی سفاک اور قاتل فوج کے ذریعے ہر وہ ظلم کیا جو اُن کی دسترس میں ہے۔بدقسمتی سےپاکستان کے حکمرانوں نے بھی کشمیریوں کے ساتھ دھوکے اور جھوٹ کا کھیل تاریخی طور پر کھیلا ہے۔ سید علی گیلانی نے خود اپنی زندگی میں فرائیڈے اسپیشل کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”کشمیر کی تحریکِ آزادی میں پاکستانی قیادت نے زبانی جمع خرچ اور اخباری گھوڑے دوڑانے کے سوا عملاً کوئی قابلِ قدر خدمت انجام نہیں دی ہے“۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ ”ہماری تحریک جہاں آج کھڑی ہے ظاہری طور پر تو دور دور تک منزل کا کوئی دھندلا سا نشان بھی نظر نہیں آرہا۔ جہاں آٹھ لاکھ مسلح فوج ہو، پولیس اور نیم فوجی دستے سڑکوں پر ہی نہیں سروں پر بھی سوار ہوں، قابض طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے نجی معاملات میں بھی مداخلت کرتی ہوں، دہلی کے آقاؤں کے مقامی غلام جب اقتدار اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنی غیرت، اپنی عزت، اپنی انا اور اپنی خودی سب کچھ بیچ کھا چکے ہوں اور ان قاتلوں کے آگے اپنی قوم کی جواں سال نسل کو کٹنے کے لیے پیش کررہے ہوں وہاں اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھی ہم نے یقینِ محکم کی شمع روشن رکھی ہے۔ جس طرح مجھے کل کے سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے بالکل اسی طرح مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ خون حق وصداقت کے لیے بہا ہے، یہ عصمت اللہ کی زمین کو غیر اللہ کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے تار تار ہوئی ہے، یہ قیدوبند کی صعوبتیں اقامتِ دین کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے برداشت کی جارہی ہیں۔ ہم کمزور ہی سہی، کم عمل ہی سہی، لغزشوں سے پُر ہی سہی، لیکن ہمارا رب تو فیاض ہے۔ اس کو ہماری ناتوانی کا علم ہے، وہ ضرور ہمیں کامیاب کرکے ظالموں کے پنجے سے آزاد کرنے میں مدد فرمائے گا۔ اِن شاء اللہ“