میاں منشا کی تجویز اور ڈاکٹر شال کی شہریت

پاکستان کے معروف سیٹھ اور نشاط گروپ آف انڈسٹریز کے سربراہ میاں منشا نے لاہور چیمبرز آف کامرس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی بحالی کے لیے پرانے دلائل پیش کیے ہیں۔ میاں منشا نے انکشاف کیا ہے کہ ایک تیسرے ملک کی سہولت کاری سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات چل رہے ہیں، اور یہ مذاکرت کامیاب ہونے کی صورت میں نریندر مودی ایک ماہ میں پاکستان آسکتے ہیں۔ میاںمنشا کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی معیشت درست نہ ہوئی تو ایک اور بنگلہ دیش کا سانحہ ہوسکتا ہے، پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ٹھیک کرے اور معاشی ترقی کے لیے ریجنل اپروچ اپنائے۔ میاں منشا کا کہنا تھا کہ یورپ نے دوعظیم جنگیں لڑنے کے بعد آخرکار امن اور خطے کی ترقی کے لیے معاملات حل کیے، کیونکہ کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔
گزشتہ موسمِ سرما میں بھی خطے کے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بحالی کے لیے ایک خلیجی ریاست کی سہولت کاری سے مذاکرات ہونے کی اطلاعات منظرعام پر آئی تھیں۔ پاکستان نے 5 اگست2019ء کے اقدامات واپس لیے بغیر بھارت سے معمول کی تجارت بحال کرنے سے انکار کیا۔
میاں منشا ملک کے معروف بزنس ٹائیکون ہیں، جو ٹیکسٹائل اور سیمنٹ کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ چنیوٹ کا رہائشی یہ خاندان قیامِ پاکستان سے پہلے سے صنعت کاری سے وابستہ رہا ہے اور میاں منشا کے والد کلکتہ میں چمڑے کی صنعت سے وابستہ رہے ہیں۔ ملک کے کئی کاروباری گھرانوں سے جن میں سہگل خاندان نمایاں ہے، میاں منشا کی قرابت داری ہے۔ یوں ان کا شمار ملک کی طاقتور تجارتی کلاس اور کلب میں ہوتا ہے۔ یہ اُن صنعت کاروں میں شامل ہیں جو ملک کی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں پر اثر رسوخ، اور ملکی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی کاروباری گروپ میاں نوازشریف پر اپنا اثر قائم کرکے بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کو ایک نظریہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ بعد میں یہی طاقتور تجارتی گروپ جنرل پرویزمشرف کی ذہنی کایا پلٹ کا باعث بھی بنا، اور جنرل پرویزمشرف نے آگرہ سے نہر والی حویلی تک کا نظریاتی سفر طے کیا۔ میاں نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کی حکومتوں کی انہی پالیسیوں نے ان کے پیروں تلے سے قالین کھینچ لیا۔ اب میاں منشا نئے انکشافات اور پرانی تجاویز کے ساتھ میدان میں آدھمکے ہیں۔ یہ ایک فرد کی نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بے چین تجارتی مافیا کی تڑپ ہے۔ وہ پاکستان کو ہر صورت اور ہر قیمت پر تجارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں، اور یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف تجارت ہی مسئلہ نہیں، بلکہ اصل اور دیرینہ مسئلہ کشمیر ہے، اور کشمیر کو نظرانداز یا منجمد کرکے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔
کاروباری طبقے کی تڑپ اپنی جگہ، مگر کشمیر میں لوگوں کے کچھ خواب اور قربانیاں ہیں، اور قربانیوں کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ حکومت کو ان مچلتی خواہشات کو کسی فیصلے کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے، اور کشمیر پر کسی بامعنی پیش رفت کے بغیر بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی معمول کی تجاویز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
میاں منشا کے خبروں میں نمایاں ہوتے ہی ڈاکٹر فیاض شال بھی موضوع بحث بن گئے۔ ڈاکٹر فیاض شال سری نگر سے تعلق رکھنے والے امریکہ میں مقیم ایک معروف معالج ہیں۔ سری نگر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد عرصۂ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر فیاض شال نے میاں نوازشریف کی صحت اور انہیں لمبا سفر نہ کرنے سے متعلق ایک میڈیکل رپورٹ دی ہے۔ اسے رپورٹ کے بجائے تجویز بھی کہا جارہا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ متعلقہ ٹیسٹوں کی رپورٹیں نہیں ہیں۔ یہ رپورٹ پاکستان کی عدالت میں پیش کی جائے گی اور ثابت کیا جائے گا کہ میاں نوازشریف صحت کی اس کیفیت میں ہیں کہ وہ پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کرنے، یا جیل میں رہنے سے قاصر ہیں۔
اس رپورٹ کے مندرجات اور اس کی حقیقت سے قطع نظر یہاں ایک ایسی بحث شروع کردی گئی ہے جس کا تعلق ڈاکٹر فیاض شال کی شہریت سے ہے۔ سب سے پہلے وزیراعظم کے مشیر شہبازگل نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کہا کہ میاں نوازشریف کو رپورٹ لینے کے لیے ایک بھارتی ڈاکٹر ہی میسر آیا۔ جس کے بعد میڈیا میں ڈاکٹر فیاض شال کو بھارتی ڈاکٹر کہا جانے لگا، اور کئی یوٹیوبر بھی یہی بات کرتے رہے۔ ڈاکٹر فیاض شال کو زبردستی ’’بھارتی ڈاکٹر‘‘ ثابت کرنا ایک خطرناک سوچ اور اپنے برسوں کے قومی مؤقف پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کا اصولی مؤقف ہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصوابِ رائے کے اصول پر ہونا ہے۔ اُس وقت تک ریاست جموں و کشمیر کے تمام شہری بھلے سے اُن کے پاس کسی بھی ملک کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہو، کشمیری شہری ہی قرار پائیں گے۔ کشمیری باشندوں کے پاسپورٹ پر Former native of State of Jammu and Kashmir کی مہر اُن کی اصل شہریت کی علامت ہوتی ہے۔ بھارت کا مؤقف اس کے قطعی برعکس ہے، وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور کشمیر کی متنازع حیثیت اور علامتوں کا مخالف اور دشمن ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کا کوئی شہری اگر خود کو بھارتی کہے، تب بھی پاکستان ایسا نہیں کہہ سکتا۔ فاروق عبداللہ یا جموں کے ہندو سیاست دان اگر خود کو بھارتی شہری کہتے ہیں تو پاکستان، اور کشمیر کو متنازع سمجھنے والے اس دعوے کو باطل سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے ایک امریکن کشمیری کو زبردستی بھارتی ڈاکٹر ثابت کرنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے بہت سے امریکی کشمیری، برطانوی کشمیری دنیا میں موجود ہیں جو اپنا تعارف بھی اسی شناخت کے ساتھ کراتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی داخلی سیاست کی نمبر اسکورنگ مہم میں ایک کشمیری باشندے کو بھارتی شہری سمجھنے سے متعلق ریکارڈ درست کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر فیاض شال کی رپورٹ پر بحث کی جائے مگر اُن کی شناخت اور شہریت کو اس بھونڈے انداز سے موضوعِ بحث نہ بنانا ہی اچھا ہے۔