لارڈ نذیر احمد کو سزا کیا حقیقت، کیا فسانہ؟

لارڈ نذیر احمد سابق رکن برطانوی پارلیمنٹ کو پچاس سال قبل کے الزامات میں ساڑھے پانچ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ پاکستانی نژاد لارڈ نذیر برطانیہ و یورپ میں پاکستان و مسلمانوں کی ایک توانا آواز تصور کیے جاتے تھے۔ اپریل 1957ء میں میرپور آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والے لارڈ نذیر احمد ایک طویل عرصے سے مختلف مقدمات اور سازشوں کا شکار رہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے لارڈ نذیر کو لیبر پارٹی نے برطانوی ایوانِ بالا ہاؤس آف لارڈز کی رکنیت کے لیے نامزد کیا تھا اور انہیں 1998 ءمیں برطانوی ہاؤس آف لارڈز کا رکن بنایا گیا۔ اس کے بعد سے لارڈ نذیر احمد کی توانا آواز کشمیر، فلسطین اور امتِ مسلمہ کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں گونجنے لگی۔ ان کی اس بلند آہنگ نے کشمیر اور فلسطین سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک حوصلہ دیا۔ برطانیہ کے اندر اور پوری دنیا میں لارڈ نذیر نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کسی بھی مصلحت سے کام لیے بغیر لندن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے مظاہرے منظم کیے۔ وہ غلام نبی فائی کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو جسٹس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اجاگر کرتے رہے۔ یہ بھی ایک المیہ اور عجیب اتفاق ہے کہ غلام نبی فائی کو بھی امریکہ میں جاسوسی اور لابنگ کے الزامات کے تحت قید کردیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق ان پر الزام تھا کہ انھوں نے آئی ایس آئی سے تقریباً 40 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے، امریکی حکام کے مطابق اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر فائی نے آئی ایس آئی سے مختلف اوقات میں رقوم وصول کی تھیں۔ اس طرح کا کھیل اس سے قبل جنگ گروپ اور بی بی سی اردو سے وابستہ، امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم پاکستانی بزرگ صحافی نیرزیدی کے ساتھ بھی کھیلا جاچکا ہے۔ کہانی یہ ہے کہ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے نائن الیون کے بعد ایجنٹ بننے کی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کردیا، اس کے بعد اُن کا گھیرا تنگ کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر ایک 13 سالہ بچی کو جنسی صحبت کے لیے بہلا پھسلا کر راضی کیا، اگست 2008ء میں امریکی ریاست مونٹانا کے ایک جج نے انہیں 30 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ پھر اُن کے لیے کس نے کیا کیا اور رہائی کیسے نصیب ہوئی، یہ ایک الگ قصہ ہے۔
لارڈ نذیر احمد کی کہانی یہ ہے کہ انہوں نے ملعون سلمان رشدی کو برطانیہ کی جانب سے ”سر“ کا خطاب دیے جانے پر 19 جون 2007ء کو شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ برطانوی وزیراعظم کی دوعملی ہے کہ ایک جانب تو وہ امتِ مسلمہ کے ساتھ رابطوں کو مستحکم بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب ایسے فرد کو اعزاز سے نواز رہے ہیں جس نے نہ صرف برطانوی عوام کی توہین کی ہے بلکہ برطانوی معاشرے کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فرد (سلمان رشدی) نے اپنی تحریر سے اشتعال کو جنم دیا جس سے کئی افراد جانوں سے گئے، ان سب افراد کا خون سلمان رشدی کی گردن پر ہے۔ ان بیانات کے بعد سے ہی یہودی و بھارتی لابی لارڈ نذیر احمد کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئی۔ اُسی سال یعنی 2007ء کے ماہ دسمبر کی 25 تاریخ کو موٹر وے پر لارڈ نذیر کی گاڑی ایک حادثے کا شکار ہوئی۔ اس حادثے میں ایک فرد کی ہلاکت ہوئی جوکہ دوسری گاڑی میں سوار تھا، اور تمام شواہد سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس میں سارا قصور دوسری گاڑی والے کا تھا جوکہ اس حادثے میں جان سے گیا، لیکن برطانوی میڈیا میں ایک طوفان اٹھا دیا گیا، اور یہ بات واضح تھی کہ اس کے پیچھے یہودی اور بھارتی لابی تھی جوکہ اس کی آڑ میں لارڈ نذیر کو مجرم ثابت کرکے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہیں نااہل کروانا چاہتی تھی۔ یکم دسمبر 2008ء کو شیفیلڈ مجسٹریٹ کورٹ نے خطرناک ڈرائیونگ کے الزامات کے تحت لارڈ نذیر احمد کو مجرم قرار دیا اور اُن کے ڈرائیونگ کرنے پر پابندی بھی عائد کردی۔ بعد ازاں برطانوی کراؤن کورٹ نے لارڈ نذیر کو 6ماہ قید اور ایک سال ڈرائیونگ لائسنس معطلی کی سزا سنائی۔ لارڈ نذیر احمد کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل کی گئی اور بالآخر عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو اقدامِ قتل کے الزامات سے بری کردیا، لہٰذا لارڈ نذیر احمد باعزت بری ہوگئے۔ لیکن بے خوف لارڈ نذیر احمد کے خلاف سازشوں کے جال پھیلائے جاتے رہے۔ 15 اپریل 2012ء کو پاکستانی اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون نے لکھا کہ لارڈ نذیر احمد نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ نے حافظ محمد سعید کو گرفتار کرنے والے کے لیے دس ملین ڈالر کا انعام رکھا ہے تو میں بھی امریکی صدر بارک اوباما اور جارج بش کو قتل کرنے والے کے لیے دس ملین ڈالر انعام کا اعلان کرتا ہوں“، اس خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی ایک سراسیمگی پھیل گئی اور لیبر پارٹی نے لارڈ نذیر احمد کی رکنیت معطل کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا۔ لارڈ نذیر احمد نے اس خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ میں نے کہا تھا کہ ”جارج بش اور ٹونی بلیئر دونوں نے افغانستان اور عراق میں سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا وہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی چاہتے ہیں۔“ 18 اپریل 2018ء کو اس تقریر کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ لارڈ نذیر نے کہا تھا کہ ”اگر وہ دس ملین ڈالر جمع کرپائیں تو ان کی کوشش ہوگی کہ جارج بش اور ٹونی بلیئر کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں جنگی جرائم کا مقدمہ کریں۔“ بعد ازاں اخبار نے اپنی غلطی تسلیم کی اور 25 جون 2012ء کو لارڈ نذیر کی معطلی کو ختم کردیا گیا۔ لیکن شاید قدرت کو اور بھی امتحان مطلوب تھے۔ یکم مارچ 2019ء کو لارڈ نذیر احمد اور ان کے دو بھائیوں کے خلاف ”زنا کی کوشش“ کی متفرق درخواستوں پر عدالت نے طلب کیا۔ درخواست دہندہ کے مطابق یہ واقعات 1971ء اور 1974ء کے ہیں جب لارڈ نذیر احمد کی عمر 14 اور 17 سال تھی.. اور اب پچاس سال کے بعد ان الزامات کے تحت مقدمہ قائم کردیا گیا۔ کیونکہ کوئی واقعاتی یا قانونی شواہد موجود نہیں تھے، لہٰذا جو کچھ بھی درخواست دہندہ نے کہا وہی سچ ہے۔ لہٰذا 19 مارچ 2019ء کو شیفیلڈ مجسٹریٹ کورٹ میں لارڈ نذیر پیش ہوئے اور 16 اپریل کو اس کیس میں ان کی ضمانت منظور ہوئی۔ ایسا ہی مقدمہ لارڈ نذیر احمد کے دو بھائیوں محمد فاروق اور محمد طارق کے خلاف بھی قائم کیا گیا جس میں استغاثہ نے پچاس سال قبل کے حوالے دیے تھے۔ ان مقدمات میں لارڈ نذیر احمد کے دونوں بڑے بھائیوں کو تو بری کردیا گیا لیکن لارڈ نذیر احمد کو ”زنا کی کوشش“ کے الزامات کے تحت جبکہ اُس وقت اُن کی عمر محض 14 اور 17 سال تھی اور بظاہر ان الزامات کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں تھا، 4 فروری 2022ء کو ساڑھے پانچ سال کی سزا سنا دی گئی۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے قوانین کے مطابق کوئی بھی رکن جس کو کسی جرم میں ایک سال یا اس سے زیادہ قید کی سزا ہو وہ ہاؤس آف لارڈز کا رکن نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا اس سزا کے ساتھ ہی لارڈ نذیر احمد کی رکنیت بھی ختم ہوئی اور ان کو کشمیر اور فلسطین کا مقدمہ لڑنے کی پاداش میں ایک پچاس سال پرانے بغیر کسی ثبوت کے کیس میں سزا بھی سنا دی گئی۔
لارڈ نذیر احمد کے خلاف پچاس سال پرانے الزامات کو تو قابلِ اعتناء سمجھا گیا گوکہ ان الزامات کے حق میں کوئی بھی ثبوت پیش نہ کیا جاسکا، لیکن برطانوی سرزمین پر ہی قتل ہونے والے برطانوی شہری ڈاکٹر عمران فاروق کہ جن کو 16 ستمبر 2010ء کو لندن کے علاقے ایجویر میں چاقو کے وار سے قتل کیا گیا اور برطانوی خفیہ اداروں کی معلومات کی بنیاد پر محض چند گھنٹوں میں اس قتل میں ملوث تین افراد کو پاکستانی اداروں نے برطانیہ کی جانب سے ملنے والی معلومات پر پاکستان واپس پہنچتے ہی ایئرپورٹ سے حراست میں لے لیا، لیکن ان تمام افراد کے بیانات، قانونی شواہد اور خفیہ اداروں کی مکمل معلومات کے باوجود بھی آج تک مبینہ طور پر یہ قتل کروانے والے برطانوی شہری کے خلاف کوئی کارروائی گیارہ سال گزر جانے کے باوجود بھی عمل میں نہ لائی جاسکی، اور دوسری جانب ایک پچاس سال پرانے الزام کے تحت محض دو سال کے عرصے میں لارڈ نذیر احمد کو مکمل قانونی شواہد نہ ہونے کے باوجود سزا سنادی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں عدلیہ آزاد ہے، لیکن لگتا ہے مسلمانوں اور اسلام کے معاملے میں عدلیہ کی آزادی سے زیادہ ریاست کی پالیسی اور خواہش اہم ہے،یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کی عدلیہ پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا واقعی وہاں کی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے؟ ایک طرف لندن میں بیٹھ کر کراچی کا ایک شخص جو اب برطانیہ کا شہری ہے، طویل عرصے تک کراچی میں فسادات کی آگ بھڑکاتا رہا، اس کے خلاف سیکٹروں درخواستوں کے باوجود بھی کوئی کارروائی نہ ہوسکی، اور دوسری جانب لارڈ نذیر کے خلاف دو سال کے عرصے میں کارروائی کرکے سزا سنادی گئی، جس کا صاف مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے، اور بظاہر لگتا ہے کہ لارڈ نذیر پر الزامات حقیقت نہیں فسانہ ہیں، اور یہ مسلمانوں کے خلاف عالمی کھیل کا تسلسل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے اسلامو فوبیا کا سلسلہ جاری ہے اور ماضی قریب میں بھی سابق برطانوی وزیر نصرت غنی نے اپنی وزارت سے برطرفی کی وجہ مسلمان ہونا قرار دیا۔ اس کے علاؤہ سعیدہ وارثی، مسلمان کرکٹر عظیم رفیق بھی نسل پرستی اور مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنائے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ برطانوی حکومت ایک طرف تو مساوات اور یکجہتی کی بات کرتی ہے اور دوسری جانب یہ سنگین الزامات اور واقعات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ مسلمان اقلیت کے ساتھ روا رکھا جانے والا نامناسب سلوک ایک خاص سوچ کے ساتھ ہورہا ہے، اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں بھی مسلمانوں کا کردار محدود کیا جارہا ہے۔ یہ بات عالمی سطح پر سوچنے والوں کے لیے اہم ہے کہ اگر مسلم اقلیت کو منتخب فورمز میں بھی جگہ نہیں دی جائے گی تو ان کے اندر شدید ترین عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگا جوکہ ان کو نہ صرف سیاست سے مایوس کرے گا بلکہ اس کے ردعمل میں سیاست سے مایوس ہوکر نوجوان کوئی اور راستہ اختیار کریں گے جوکہ نہ تو مسلمانوں کے حق میں ہوگا اور نہ ہی برطانوی ریاست کے حق میں۔ اسلاموفوبیا، اور مسلمانوں میں شدید قسم کے پیدا شدہ احساسِ عدم تحفظ کو روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمانوں میں احساسِ محرومی ختم کیا جائے۔ ان کے نمائندوں کو مذہب کا لیبل لگا کر دیوار سے نہ لگایا جائے، اور من گھڑت الزامات کے تحت سنائی گئی سزائیں واپس لی جائیں۔ ورنہ ان کے دوررس اثرات نہ صرف مسلمانوں بلکہ برطانیہ کے لیے بھی کوئی اچھے حالات پیدا نہیں کریں گے۔