کچھ دن گزرے، کچھ نیک لوگ غریب خانے پر تشریف لائے۔ ہمیں بھی نیکی کی دعوت دی:
’’ہم فلاں نیک مقصد کے لیے، فلاں موضوع پر ’ڈرامیٹک شو‘ کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ہمارے لیے ڈراما لکھ دیں گے؟‘‘
ساتھ ہی ایک پُرکشش پیش کش بھی کی۔ ہم نے معذرت چاہی اور کہا: ’’گو کہ دورِ نوجوانی میں ریڈیو پاکستان کراچی اور پاکستان ٹیلی وژن، کراچی مرکز کے لیے مختصر دورانیے کے کچھ ڈرامے ہم نے تحریر کیے تھے، جو نشر بھی ہوئے، معاوضہ بھی ملا اور داد بھی پائی۔ لیکن ڈرامے بازوں کو قریب سے دیکھا تو یہ کام چھوڑ دیا۔ آپ سے پہلے بھی کئی لوگوں نے پُرزور کوشش کر دیکھی، پر طبیعت اِدھر نہیں آتی‘‘۔
خاصی بحث و تمحیص کے بعد جب یہ نکوکارانِ قوم ناکام و نامراد واپس جانے لگے تو (نہ جانے خود زچ ہوکر یا ہمیں زچ کرنے کو) جاتے جاتے یہ بھی پوچھتے گئے کہ ’’ڈرامے کو اُردو میں کہتے کیا ہیں؟‘‘
ہماری ہنسی نکل گئی۔ جب اچھی طرح نکل چکی تو عرض کیا: ’’واللہ! آپ کے سوالات کی ترتیب بالکل اُلٹی ہے۔ آپ یہی سوال سب سے پہلے کرلیتے توہم سارے سیاپے سے بچ سکتے تھے۔ اتنی لمبی تقریر ہمیں کرنی پڑتی نہ آپ کو سننی پڑتی‘‘۔
اگرچہ لفظ ’ڈراما‘ اُردو زبان نے قبول کرلیا ہے، مگر اسے اچھا کبھی نہیں سمجھا گیا۔ ’ڈراما رَچانا‘ اور ’ڈرامے بازی کرنا‘ جیسے محاورے بھلے معنوں میں استعمال نہیں ہوتے۔ کراچی میں تو ایک نیا محاورہ بھی رائج ہوچکا ہے۔ تیز طرار لوگوں کے متعلق اکثر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’وہ تو پورا ڈراما ہے‘‘۔ یا یہ کہ ’’ہمارے ساتھ ڈرامے نہ کرو‘‘ وغیرہ۔ لڑکیوں کو انگریزی پڑھا پڑھا کر فلاح کی راہ ڈھونڈلینے کے پس منظر میں اقبالؔ نے بھی لفظ ’ڈراما‘ منفی ہی معنوں میں استعمال کیا ہے:
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہاں ’پردہ اُٹھنا‘ ذوالمعنین ہے۔ ڈرامے کا پردہ اُٹھنا اور لڑکیوں سے پردہ اُٹھ جانا۔ اُردو میں ڈرامے کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں۔ 1843ء میں جب واجد علی شاہ نے، لکھنؤ کے قیصر باغ میں، اُردو کا پہلا ڈراما رچایا تو اس کا نام ’رہس‘ رکھا۔ یہ سنسکرت کا لفظ ہے۔ رہس اصل میں کرشن جی اور ان کی گوپیوں کے ناچ کو کہتے تھے۔ پھر پورے قصے کا بہروپ بھرکر پریوں کا ناچ دکھانے کا تماشا بھی ’رہس‘ کہا گیا۔ ’گوپی‘گائے چَرانے والی اور دودھ بیچنے والی کو کہتے ہیں۔ مگر ہندو صنمیات میں یہ کرشن جی کی سہیلیوں کا لقب ہے۔ محسنؔ کو تشویش تھی:
دیکھیے ہوگا سِری کِرِشْن کا کیوں کر درشن
سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بے کَل
ہندوؤں میں کرشن جی کے قصے کی نقل پیش کرنا ایک مذہبی رسم ہے، نیک کام ہے۔ اسی نقل کی نقل میں واجد علی شاہ نے اپنے کھیل کا نام بھی رہس رکھ لیا۔ شاہ جی کی اپنی گوپیاں ہوتی تھیں۔ اسٹیج کے طور پر تخت استعمال کیا جاتا تھا۔ سحرؔ اس منظر سے لطف اندوز ہوتے تھے:
وہ کوٹھیوں میں محل بیگمات کمروں میں
وہ جم کے رہس کی پریوں کا تخت پر آنا
ہندی اور اردو میں ڈرامے کو ناٹک بھی کہا گیا۔ ناٹک کِیا جاتا ہے اور کھیلا جاتا ہے، کچھ لوگ رَچا بھی لیتے ہیں۔ یہ دراصل نٹوں کا تماشا تھا۔ ’نٹ‘ قلاباز اور شعبدے باز کوکہتے ہیں۔ ’بھیس بدلنا‘ بھی مستعمل ہے۔ بھیس بدلنے کے لفظی معنی تو لباس یا پوشاک تبدیل کرنے کے ہیں، مگر مجازاً اسے روپ بدل لینے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کے لیے سب سے شریفانہ لفظ ’تمثیل‘ ہے۔ تمثیل کا مطلب ہے: مثال، شبیہ، مماثلت، مشابہت اور نظیر۔ پاکستان میں ڈرامے کے لیے ’تمثیل‘ ہی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ ریڈیو پاکستان سے ہر سال بہترین ڈرامے پیش کرنے کا ایک مقابلہ ہوتا تھا، جسے ’’جشنِ تمثیل‘‘ کہا جاتا تھا۔ جشن کے زمانے میں ہر رات نو بجے ایک نیا ڈراما پیش کیا جاتا تھا۔ مگر اب ہمارے ذرائع ابلاغ نے ’تمثیل‘ جیسا دل کش لفظ استعمال کرنا ترک کردیا ہے۔
ڈراما ’اداکاری‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ’اداکاری‘ کو بھی اُردو میں اچھے معنوں میں نہیں لیا گیا۔ خالدؔ احمد کی ایک غزل کا مطلع ہے:
بے وفا ہوں نہ وفادار ہوں میں
سچ تو یہ ہے کہ اداکار ہوں میں
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ بھی اس فن سے عاجز پائے گئے:
وہ آنکھیں پھیر لے، میں کیسے پھیروں؟
محبت ہے، اداکاری نہیں ہے
مسلمانوں کی تاریخ میں ڈرامے کی روایت سرے سے موجود ہی نہیں۔ ڈراما یونانیوں اور ہندوؤں کی چیز ہے۔ مسلم معاشرے کی مخصوص اخلاقی اقدار کے سبب مسلمان اس فن سے گریزاں ہی رہے۔ مسلمان ملکوں میں ڈرامے کا ظہور اُنیسویں صدی کے آغاز میں ہوا۔ مشہور برطانوی مترجمِ قرآن محمد مارمیڈیوک پکتھال، جو قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کرتے کرتے 1919ء میں لندن میں مسلمان ہوگئے تھے، انھوں نے ہندوستان میں ’تہذیبِ اسلامی‘ کے موضوع پر مدراس میں کچھ خطبات دیے تھے۔ اُن کے خطباتِ مدراس کا ترجمہ ’’تہذیبِ اسلامی‘‘ ہی کے نام سے شیخ عطاء اللہ (مختار مسعود کے والد) نے کیا اور کتابی صورت میں شائع کیا۔ اصلاًیہ کتاب انگریزی میں تھی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہندو طلبہ کے نصاب میں شامل تھی۔ ’’ڈراما‘‘ کے عنوان کے تحت پکتھالؔ کے اقوال سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’ڈرامے کو تو مسلمانوں نے اس لیے لائقِ توجہ ہی نہ جانا کہ اُن کے خیال میں بھیس بدلنا اور بہروپ بھرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں، اور مسلمان عورت کے لیے تو یہ نہایت ہی حقیر فعل ہے۔ ڈرامے کو ایک ذلیل حالت میں یونانیوں اور آرمینیوں کی سفری ٹولیوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیا گیا‘‘۔
ڈراما ہے ہی یونانی لفظ۔ اس کا عروج یا تو یونانی صنمیات میں ہوا، یا ہندوستانی صنمیات میں۔ اقبالؔ بھی ڈرامے کو ’’کاروبارِ لات و منات‘‘ ہی قرار دیتے ہیں۔ ڈرامے میں اداکار خود کو ’غیرخود‘ کا قائم مقام بناکر پیش کرتا ہے۔ یہ عمل اُس کی خودی کا خاتمہ کردیتا ہے۔ مستقل اداکاری سے انسانی شخصیت کا جوہرِ فطری متاثر ہوتا ہے۔ اپنی نظم ’’تیاتر‘‘ میں اقبالؔ کہتے ہیں:
حریم تیرا، خودی غیر کی، معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے
رہا نہ تُو تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات
’تیاتر‘ کا لفظ اُردو میں ’تھیٹر‘ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اداکار ہو یا اداکارہ، اُسے کبھی کسی نیک شخص کی اداکاری کرنی پڑتی ہے،کبھی کسی بدکار شخص کی۔ دونوں کردار ڈوب کر ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یقیناً ہر دو کے نفسیاتی اثرات بھی ہر بار شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں۔ بعض اداکار تو محض ایک دفعہ ادا کیے ہوئے کردار کے سحر سے عمر بھر باہر نہیں نکل پاتے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
[پچھلا کالم ’’فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی‘‘ پڑھ کر برسبین، آسٹریلیا سے جناب سکندر علی نے یہ دلچسپ توجہ دلائی ہے کہ صوبے کا نام ’پنج آب‘ بھی فارسی ہی میں ہے۔]