کتاب
:
امانُ اللغات
اردو میں مستعمل عربی الفاظ کا اشتقاقی لغت
مؤلف
:
مولوی محمد امان الحق
تدوین اور تحشیہ
:
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
صفحات
:
258 قیمت:550 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ۔ ادارہ فروغِ قومی زبان، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ، ایچ ۔4/8، اسلام آباد
فون
:
051-9269760-61-62
ای میل
:
matboaatnlpdisd@gmail.com
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے امانُ اللغات کی تدوین اور حواشی سے اس قدیم لغت کو جدید دور کے مطابق کردیا ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ رقم طراز ہیں:
’’اردو لغات اور لغت نویسی پر اب تو الحمدللہ کچھ تحقیقی و تنقیدی کام منظرعام پر آگئے ہیں، لیکن اب بھی کئی لغات ایسی ہیں جن کا یا تو لغت نویسی کی تاریخ میں ذکر ہی نہیں ملتا، یا اگر ملتا ہے تو بہت تشنہ، ان کی تدوین و طبعِ نو تو دور کی بات ہے۔ ایسی لغات میں سے بعض بہت اہم اور مفید بھی ہیں اور ان کی تدوین و اشاعت اردو لغت نویسی اور اردو زبان کے لیے بھی فالِ نیک ہوگی۔
امانُ اللغات بھی ایک ایسی ہی لغت ہے۔ اس کا بہت سرسری سا ذکر اردو لغت نویسی کی تاریخوں میں ملتا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1870ء میں طبع ہوا تھا اور دوسرا ایڈیشن 1876ء میں۔ اسی دوسرے ایڈیشن کی بنیاد پر محترم ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب نے اسے تدوین و ترتیب کے مراحل سے گزارا ہے اور اس پر حواشی کا اضافہ کیا ہے۔
امانُ اللغات بنیادی طور پر ایک عربی بہ اردو لغت ہے، لیکن اس میں عربی زبان کے مصادر کو الف بائی ترتیب سے مرتب کرکے ان کے ایسے مشتق اسما (Nouns) اور مشتق افعال (Verbs) کو پیش کیا گیا ہے جو اردو میں مستعمل ہیں۔ اصل میں یہ لغت نصابی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تالیف کی گئی تھی اور اس میں حاصلِ مصدر، فاعل، مفعول، اسمِ تصغیر، اسمِ جنس، اسمِ علَم، اسم ِمؤنث، اسم ِجمع وغیرہ بھی درج ہیں۔ نیز اس میں اعراب کا بھی اہتمام ہے تاکہ درست تلفظ کی نشان دہی ہوسکے۔ گویا یہ طالب علموں کے ساتھ عام قارئین کے لیے بھی مفید و معاون ہے۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے اس لغت کی تدوین و تحشیہ سے اس کو زیادہ مفید بنادیا ہے، اور وہ یوں کہ انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ مؤلف کے حواشی بھی شامل رہیں لیکن متن یا حواشی میں مؤلف سے کہیں سہوو خطا کا ارتکاب ہوا ہے تو اس کی نشان دہی کردی جائے۔ فاضل مرتب نے اپنے حواشی میں ایسے کئی مشتقات کی نشان دہی کرکے ان کا اضافہ بھی کیا ہے جو اردو میں مستعمل ہیں مگر مؤلف کی نظر سے اوجھل رہے۔ ان میں سے بعض کا رواج اردو میں ممکن ہے اُس وقت نہ ہو، لیکن مرتب کی اس سعی نے لغت کو عصری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کردیا ہے۔ نیز یہ کہ مؤلف سے بعض مقامات پر الف بائی ترتیب میں سہو ہوگیا تھا، اور مرتب نے ان اندراجات کو بھی صحیح مقام پر درج کردیا ہے۔ غرضیکہ فاضل مرتب ڈاکٹر ناشاد صاحب نے بڑی باریک بینی اور محنت سے اس لغت کی تدوین و ترتیب کا کام کیا ہے۔
اہلِ نظر واقف ہیں کہ پرانے متون میں املا کی اغلاط کے علاوہ ان کا پرانا املا بھی آج کے دور کے قاری کے لیے بڑی رکاوٹ ہے، اور اسی لیے پرانے متون کی تصحیح اور درست و جدید املا میں ان کی اشاعتِ نو ضروری ہے، تاکہ ہمارے علمی اور ادبی خزینے نئی نسل تک بہتر صورت میں پہنچیں۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اور آج کل زبان و ادب اور ان کے متعلقات پر کام کرنے والے ایسے محققین کم ہی رہ گئے ہیں جو اس طرح کے مشکل کاموں کو بہ تمام و بہ کمال انجام دے سکیں۔ ڈاکٹر ناشاد صاحب استاد، نقاد، شاعر اور محقق تو ہیں ہی… زبان، عروض، بیان و بدیع، رسم الخط اور لغت کے مسائل و مباحث سے بھی کماحقہٗ واقف ہیں، اور گویا ایسے کاموں کے لیے بہت موزوں ہیں۔ اسی لیے وہ اس کام کو اطمینان بخش طریقے پر انجام دے سکے ہیں۔
ہم ڈاکٹر ناشاد صاحب کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اس علمی کام کی اشاعت کے لیے ہمارے ادارے کا انتخاب کیا۔ امید ہے اس کام کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے اس لغت پر مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے۔ اس میں سے چند اقتباس ہم یہاں درج کرتے ہیں:
’’عربی زبان دنیا کی متمول اور باثروت زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کی زرخیز اور شاداب لغت نے دنیا بھر کی زبانوں کو متاثر کیا ہے۔ اردو پر بھی یہ ہمیشہ سایہ فگن رہی اور اردو نے ہر دور میں اس کے خوانِ کرم سے ریزہ چینی کرکے اپنے دامن کو کشادہ کیا۔ اردو میں عربی افعال و مصادر اور لفظیات و اصطلاحات کا بڑا ذخیرہ اس استفادے پر دال ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں عربی اور اردو کی مشترک لفظیات مختلف النوع رنگوں کے ساتھ لغت کی صورت میں متشکل ہوئی۔ عربی کے ساتھ جڑے ہوئے اساتذہ نے اردو میں مستعمل عربی الفاظ و تراکیب اور محاورات و اصطلاحات کو یک جا کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی طرح ڈالی۔ ان محسنینِ زبان و لغت نے آئندگاں کے لیے کئی ایسے کارنامے انجام دیے جو اردو لغت نویسی کی ترویج میں صرف ہوئے، مگر افسوس کہ آج اُن کے نام اور کام سے کوئی واقف نہیں، اور زمانے کی گرد نے اُن کے شہکاروں کو اپنی گرد میں لپیٹ لیا ہے۔ ایسے فراموش شدہ اور گم نام محسنینِ زبان و لغت میں ایک نام مولوی امان الحق کا بھی ہے۔ مولوی امان الحق نے اپنے عہد کے طلبہ کی نصابی اور درسی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ’امان اللغات‘ کے نام سے ایک مختصر مگر مفید لغت مرتب کیا۔ ’امان اللغات‘ کے مؤلف نے لغت کی معروف اور مستعمل صورت سے ہٹ کر عربی زبان کے اُن مادوں اور مصدروں کو الف بائی ترتیب کے ساتھ یک جا کیا ہے جن کے اشتقاقی اسما اردو اور فارسی میں عام مستعمل ہیں۔ عربی میں ایک کلمے سے دوسرے کلمے بنانے کا عمل اشتقاق کہلاتا ہے۔ اس کی معروف صورتیں دو ہیں: افعالِ مشتقہ اور اسمائے مشتقہ۔ مولوی امان الحق نے اردو میں مستعمل اسمائے مشتقہ کو اس لغت میں شامل کیا ہے۔ عربی میں اسمائے مشتقہ کی تعداد سات ہے: اسمِ فاعل، اسمِ مبالغہ، اسمِ مفعول، صفتِ مشبہ، اسمِ ظرف، اسمِ آلہ اور اسمِ تفضیل۔ اگرچہ اسمِ تصغیر، اسمِ جنس، اسم ِعلَم، اسمِ مؤنث اور اسمِ جمع بھی مشتق اسما ہیں مگر صرفی بالعموم انہیں قائم بالذات اسمائے مشتق خیال نہیں کرتے اور انہیں اسمِ فاعل کی ذیل میں رکھتے ہیں۔ مولوی امان الحق نے سات معروف اشتقاقی اسما کے ساتھ ساتھ اسمِ تصغیر، اسمِ جنس،اسمِ علم، اسم مؤنث اور اسم جمع کو بھی قائم بالذات اسمائے مشتق کے طور پر شاملِ لغت کیا ہے، یوں ایک مادے یا مصدر سے بننے والے کئی الفاظ اس لغت میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ مختصر سا لغت ’’بہ قامت کہتربہ قیمت بہتر‘‘ کا مصداق ہے اور عربی اردو مشترک لفظیات اور اشتقاقی لغات پر کام کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کارآمد اور معاون رہے گا۔
’امانُ اللغات‘ کا نومبر 1876ء کا ایڈیشن راقم کے کتب خانے میں محفوظ ہے، یہ ایڈیشن مطبع منشی نول کشور لکھنؤ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ سرِورق کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دوسرا ایڈیشن ہے اور پہلا ایڈیشن ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن، سررشتہ تعلیم اودھ کے زیر انتظام 1870ء میں اشاعت آشنا ہوا‘‘۔
’’اردو لغت نویسی کے میدان میں مستشرقین کی بے پایاں خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ اوساں (Aussant)، جان جیشوا کیٹلر (J.J.Ketelaer)، ڈاکٹر جان گل کرسٹ، جے فرگوسن (J.Fergusson)، جان شیکسپیر، ڈنکن فوربس، فیلن اور پلیٹس (Platts) نے اردو لغت نویسی کے دائرے کو کشادہ کرنے اور اسے نئے اسالیب سے ہم کنار کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مستشرقین کی لغت نویسی میں فیلن اور پلیٹس کو خاص طور پر اہمیت حاصل ہے۔ ان کے مبسوط اور ضخیم لغات ان کی لگن، محنت اور سعی و کوشش کے شاہد ہیں، مؤلفین نے ان کی تکمیل کے لیے بہت سا وقت اور صلاحیتیں صرف کیں۔ اپنے اوصاف اور استنادی حیثیت کے باعث یہ لغات مابعد کے لغت نویسوں کے لیے مثال بنے، اور ان کی وجہ سے یقیناً اردو لغت نویسی نئے امکانات سے متعارف ہوئی‘‘۔
ڈاکٹر ناشاد اردو کی تعمیر و تشکیل کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’اردو زبان کی تعمیر و تشکیل میں کئی زبانوں اور بولیوں نے حصہ ڈالا۔ اردو کے مزاج میں دوسری زبانوں کی لفظیات کو قبول اور جذب کرنے کی صلاحیت دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس وصف کے باعث اردو نے جن ثروت مند زبانوں سے بیش ازبیش فیض اٹھایا، ان میں عربی اور فارسی زبانیں سرفہرست ہیں۔ عربی اور فارسی کے ساتھ اس غیر معمولی تعلق اور قرابت داری نے اردو لغت نویسوں کو نئے راستوں کا خواب دکھایا۔ عربی، فارسی اور اردو کی مشترک لفظیات کے حامل لغات تیار کیے گئے۔ اردو میں مستعمل عربی اور فارسی کے الگ الگ لغت بھی مرتب ہوئے۔ عربی زبان کا اردو کے ساتھ ربط و ضبط قدیم بھی ہے اور گہرا بھی۔ اردو نے عربی زبان و ادب سے بلاواسطہ اور بالواسطہ دونوں حوالوں سے کسبِ فیض کیا۔ اسلامی لفظیات اور اصطلاحات کا گنجِ گراں مایہ براہِ راست اردو زبان میں شامل ہوا اور علمی و ادبی لفظیات کا بڑا ذخیرہ بالعموم فارسی کے واسطے اور وسیلے سے اردو کے سرمائے کا حصہ بنا۔ لفظیات اور اصطلاحات کے علاوہ اردو نے صرف، نحو، عروض، بیان، بدیع، املا، ہجا اور دوسرے علوم و فنون کے قواعد بھی عربی سے اکتساب کیے۔ معمولی ترامیم اور کم کم اضافوں کے ساتھ آج بھی اردو کا قواعدی نظام، عربی کے واضح اثرات کا آئینہ دار ہے‘‘۔
کتاب مجلّد ہے، ڈاکٹر صاحب نے بڑی محنت سے مدون کی ہے۔