عوامی لیگ بنگلہ دیش کو بھارت کی منشا اور مرضی کے مطابق چلاتی ہے

اقلیتیں اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے جماعت اسلامی کے سیاسی پروگرام میں شریک ہو سکتی ہیں بنگلہ دیش مسلمانوں کا ملک ہے، مگر مسلم دنیا سے الگ تھلگ بھارت میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے تین جانب بھارت ہے اور ایک جانب سمندر
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر نائب امیر مولانا اے-کے-ایم یوسف مرحوم کا یادگار انٹرویو

یہ انٹرویو 2004ء میں شائع ہوا تھا

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر نائب امیر مولانا ابوالکلام محمد یوسف 9فروری 2014ء کو جیل کی کال کوٹھری سے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ انہیں بنگلہ دیش ٹریبونل کے حکم پر 12 مئی 2013ء کو گرفتار کیا گیا تھا، اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے دیگر رہنمائوں کی طرح اس 88 سالہ بزرگ کو بھی بے بنیاد اور خود ساختہ الزامات عائد کرکے سزائے موت کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔ اپنی سزا پر عمل درآمد کا خندہ پیشانی سے انتظار کرتے ہوئے وہ اپنے خالق و مالک سے جا ملے ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مولانا 1926ء میں ضلع باکرہاٹ کے کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے، اور تعلیم کے تمام مدارج امتیازی حیثیت سے مکمل کرتے ہوئے 1952ء میں علوم حدیث کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’ممتاز المحدثین‘‘ حاصل کیا۔ دورانِ تعلیم ہی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوئے اور جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور اپنی زندگی دعوتِ حق کے لیے وقف کردی۔ جماعت کی اعلیٰ ذمے داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ 1962ء سے 1969ء تک متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے، اور ملک کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف اسمبلی میں توانا آواز بلند کرتے رہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد انہیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ 2004ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے اضاخیل میں منعقدہ اجتماعِ عام میں بنگلہ دیش جماعت کے سینئر نائب امیر کی حیثیت سے نمائندگی کی۔ اُس وقت وہ جماعت کی کاشت کاروں کی تنظیم کے صدر اور مجلسِ علماء کے سربراہ بھی تھے۔ اس موقع پر ان سے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے لیے ایک خصوصی انٹرویو کیا گیا۔ تب اور اب کے حالات اگرچہ خاصے بدل چکے ہیں تاہم مرحوم کا یہ معلومات افزاء انٹرویو تبرک کے طور پر نذرِ قارئین ہے۔
………………
فرائیڈے اسپیشل: بنگلہ دیش کی سیاست میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: الحمدللہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ایک مؤثر اور متحرک جماعت ہے۔ بنگلہ دیش ایک ہی یونٹ ہے، کوئی صوبہ نہیں۔ ایک ہی مرکزی حکومت اور ایک ہی مرکزی پارلیمنٹ ہے جس کی تین سو نشستیں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں جماعت نے اسلام کی شدید مخالف اور بھارت نواز عوامی لیگ کے مقابلے میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، علماء کے اتحاد اور جماعت پر مشتمل متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔ محاذ نے مجموعی طور پر دو تہائی سے زائد 228 نشستیں حاصل کیں جن میں سے 17 جماعت اسلامی کو ملیں۔ حکومت بھی محاذ کی بنی۔ وزارتِ عظمیٰ سمیت سب سے زیادہ وزارتیں زیادہ نشستوں کی حامل بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے پاس ہیں۔ جماعت اسلامی کے پاس دو وزارتیں ہیں۔ مولانا مطیع الرحمٰن نظامی جو امیر جماعت بھی ہیں، وزیر صنعت ہیں، جب کہ جماعت کے سیکرٹری جنرل علی حسن محمد مجاہد سماجی بہبود کے وزیر ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی بنگلہ دیش شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار حکومت میں شامل ہوئی ہے۔ حکومت میں شمولیت کا یہ تجربہ کیسا رہا، اس کے اثرات کیا متوقع ہیں؟ انہیں آپ مستقبل میں جماعت اسلامی کے لیے مفید سمجھتے ہیں یا اس کے کچھ مضمرات بھی محسوس کیے جارہے ہیں؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: ہم اس تجربے کو بہتر سمجھتے ہیں، اس سے جماعت کو حکومت چلانے کا تجربہ بھی ہوا اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کا تجربہ بھی جماعت کو ہو گیا۔ ہمارے وزراء بھی الحمد للہ نہایت احسن انداز میں اپنے فرائض نبھا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ مستقبل میں اس کے اچھے اثرات مرتب ہو ںگے۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کی تنظیمی اور تحریکی صورت ِحال کیا ہے ؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ارکان کی تعداد سولہ ہزار سے زائد ہے، خواتین ارکان کی تعداد تین ہزار ہیُ جب کہ کارکنان ستّر ہزار کے قریب ہیں۔ ہمارے شعبہ جات میں بنگلہ دیش اسلامک سینٹر اہم ہے جو تحقیق کا کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اکیڈمی بھی قائم ہے جو مولانا کی تفسیر اور دیگر کتب کا مقامی زبان میں ترجمہ و اشاعت، اور مولانا مودودیؒ کی فکر پر سیمینارز کا اہتمام کرتی ہے۔ عربی کتب کو مقامی زبان میں منتقل کرنے کے لیے ’’دارالعروبہ‘‘ قائم کیا گیا ہے جس کے زیراہتمام ایک عربی مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ زبان کا روزنامہ ’’سنگرام‘‘، ہفت روزہ ’’سونار بنگلہ‘‘ اور چند علمی ماہانہ جرائد بھی شائع کرتی ہے۔ ملک میں اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے ’’اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی ‘‘ قائم کی گئی ہے جو خود بھی مدارس اور اسکول وغیرہ قائم کرتی ہے اور دیگر اسلامی مدارس سے تعاون بھی کرتی ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم کے دو طرح کے نظام ہیں، ایک مدارسِ دینیہ ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں اور وہاں جماعت کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔ عمومی تعلیم کے اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتروشبر) خاصی متحرک ہے اور اس کا بعض کالجوں، یونیورسٹیوں میں خاصا اثر رسوخ ہے۔ جماعت کے دینی مدارس کی تعداد دو سو سے زائد ہوگی، جب کہ اسکولوں کی تعداد تین، ساڑھے تین سو ہوگی۔ اس کے علاوہ ایسے مدارس بھی ہیں جو قائم تو جماعت نے نہیں کیے مگر ان میں جماعت کا اثر رسوخ موجود ہے۔ وہاں اکثر مدرسین جماعت کے ارکان ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا وہاں تعلیمی اداروں میں انتخابات ہوتے ہیں؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: جی، انتخابات ہوتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ان انتخابات میں جمعیت کی کیا پوزیشن رہتی ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: چند یونیورسٹیوں میں جمعیت کی پوزیشن اچھی ہے، مثلاً راجشاہی اور چاٹگام یونیورسٹیاں۔ البتہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں جمعیت کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے۔ جماعت کے لوگوں نے خود بھی نجی شعبے میں یونیورسٹیاں قائم کررکھی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سماجی بہبود میں کام کی نوعیت کیا ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: اصلاحِ معاشرہ جماعت کا مستقل کام ہے۔ جماعت اس کام کو مختلف تنظیموں کے ذریعے سے انجام دیتی ہے۔ ایک تو خدمتِ خلق جماعت اسلامی کا شعبہ ہے، پھر کاشت کاروں کی تنظیم کسان بورڈ، اور مزدوروں کی تنظیموں کے ذریعے بھی فلاحی کام کرتے ہیں۔ مثلاً کسان بورڈ کے بھی مختلف پروگرام ہیں جن میں ایک پروگرام خدمتِ خلق ہے جس کے ذریعے سے ہم بیوائوں، یتیموں اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہم نے دارالیتامیٰ قائم کررکھا ہے، ہمارے پاس بیوائوں کی بحالی کا پروگرام ہے۔ اس طرح دیہات میں پھیلے ہوئے کاشت کاروں کی خدمت کے لیے ٹیوب ویل لگا کر دینے اور مساجد کی تعمیر کے منصوبے بھی ہیں۔ اگر سیلاب یا کوئی دوسری آفت آجائے تو بھی ہم امداد لے کر ان تک پہنچتے ہیں۔ سیلاب کے بعد کاشت کاروں کی بحالی کا بھی پروگرام ہے، ان کی رہنمائی اور تربیت کرتے ہیں اور انہیں آلات بھی فراہم کرتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے بلاسود اسلامی بینکاری کا تجربہ کیا ہے۔ یہ تجربہ کیونکر شروع ہوا، اب کس نہج پر کام کررہا ہے اور کس حد تک کامیاب رہا ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: الحمدللہ یہ بہت ہی کامیاب ہے۔ ہم نے ایک ہی برانچ سے اس کا آغاز کیا تھا مگر اب اس بینک کی برانچیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں اور اسلامی بینک اب عوامی بینک بن گیا ہے، اور نجی شعبے کے بینکوں میں یہ بینک پہلے نمبر پر ہے۔ اسلامی ذہن کے لوگ… خواہ نفع کم ملے یا زیادہ… اپنا سرمایہ اس بینک میں جمع کراتے ہیں۔ اس تجربے سے متاثر ہوکر سودی بینکوں نے بھی اپنے غیر سودی کائونٹر کھولے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی بینکنگ کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ دوسرے بینکوں کے لیے بھی اس میں بہت کشش ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں اقلیتیں بھی آباد ہیں، جماعت اسلامی ان میں بھی کام کرتی ہے یا نہیں؟ اور اگر کرتی ہے تو کس طرح؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: بنگلہ دیش میں بودھ، عیسائی اور ہندو اقلیتیں ہیں، ہمارے ان میں دو طرح کے پروگرام ہیں، ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی۔ ہمارا ایک ادارہ ہے جس کا بنگلہ میں نام ہے ’’اسلام پوسچارشمیدی‘‘ جو غیر مسلموں میں اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے لیے کام کرتا ہے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فی الحقیقت غیر مسلموں کا مسئلہ انہیں مسلمان بناکر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے، قبولِ اسلام کا کیسا رجحان غیر مسلموں میں موجود ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: الحمدللہ اگرچہ آہستگی سے مگر کامیابی ہوئی ہے۔ قبولِ اسلام کا رجحان ہے مگر ہمارے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اُن کی خوراک و لباس اور تعلیم وغیرہ کی ذمہ داری کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے، اس لیے ہم یہ کام اپنی استطاعت کے مطابق کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر لوگ اسلام قبول کریں تو ہمارے لیے یہ خاصا بوجھ بن جاتا ہے، اس لیے ہم آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اقلیتوں کے لیے آپ کا سیاسی پروگرام کس نوعیت کا ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: سیاسی پروگرام کے مطابق ہم اُن کے پاس جاتے ہیں، اُن کو سمجھاتے ہیں کہ اسلامی نظام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، یہ سب انسانوں کے لیے ایک سا مفید ہے، اگر یہاں اسلام قائم ہوگا تو بلا سود قرض ملے گا، یہ مسلمانوں کو بھی ملے گا اور غیر مسلموں کو بھی ملے گا، اسی طرح اسلامی قانون نافذ ہوگا تو چور خواہ مسلمان کے گھر چوری کرے یا غیر مسلم کے، اُسے یکساں سزا ملے گی۔ یوں اسلامی قانون بھی آپ کے تحفظ کا ذمہ دار ہے اور اسلامی معاشیات سے بھی سب کو برابر کا فائدہ ملتا ہے۔ یوں ہم انہیں سمجھاتے ہیں کہ آپ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ہمارے سیاسی پروگرام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم انہیں مختلف پروگراموں میں بلا کر اپنی دعوت پیش کرتے ہیں۔ الحمدللہ کافی غیر مسلم ہمارے متفق ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا! یہ بتائیے کہ بنگلہ دیش میں جماعت کے علاوہ کون سی دینی سیاسی جماعتیں ہیں، اور ان سے آپ کے روابط کیسے ہیں؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: بنگلہ دیش بننے سے پہلے تو ایک ہی دوسری دینی جماعت تھی ’’نظام اسلام‘‘۔ اُن سے ہمارا تعلق بہت اچھا تھا۔ اُس وقت نظام اسلام کے مرکزی صدر چودھری محمد علی اور صوبائی صدر مولانا اطہر علی صاحب تھے، ان سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے، ہم انتخابات میں نشستیں باہم تقسیم کرلیتے تھے تاکہ دونوں جماعتوں میں باہم مقابلہ اور ووٹوں کی تقسیم نہ ہو، پارلیمنٹ میں بھی ہم مل کر کام کرتے ہیں۔ 1962ء کی پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی اور نظام اسلام کے چار چار اور جمعیت علماء کے دو ارکان منتخب ہوئے تھے۔ ہم دس ارکان نے مل کر اپنا اسلامی پارلیمانی گروپ بنایا۔ مولانا عبدالباری ہمارے لیڈر تھے۔ پارلیمنٹ کی پوری مدت میں ہم مل کر اسلامی نظام کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ پھر جب ملک کے دو حصے ہوگئے تو ’’نظام اسلام‘‘ پارٹی ختم ہوگئی۔ اس میں اکثر علماء قومی مدارس کے تھے، ان کی دو تنظیمیں بن گئی ہیں: خلافت محاذ اور خلافت تحریک۔ آپس میں تو ان کے تعلقات کشیدہ ہیں مگر ہم سے دونوں کے روابط اچھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان کے تین ارکان ہیں۔ بنگلہ دیش میں حکمران اتحاد میں یہ دونوں جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے یہاں انتخابات کا جو نظام رائج ہے کیا آپ اُس سے مطمئن ہیں، اور اس کے نتیجے میں وہاں انتخابات آزادانہ و منصفانہ ہوجاتے ہیں؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: بالکل، نگران حکومت کا نظام ہمارا فارمولا ہے۔ 1980ء میں پروفیسر غلام اعظم نے یہ فارمولا پیش کیا تھا کہ حکومت جس بھی جماعت کی ہو، انتخابات سے چھ ماہ قبل مستعفی ہوجائے اور اقتدار نگران حکومت کے سپرد کردیا جائے جس کا سربراہ عدلیہ کا سابق چیف جسٹس ہو، جو انتخابات کروائے اور اقتدار نومنتخب لوگوں کے سپرد کرکے فارغ ہوجائے۔ اس طرح تین انتخابات ہوچکے ہیں اور اب دھاندلی کی کوئی شکایت نہیں ہوتی، کیونکہ دھاندلی سیاسی جماعت ہی کرتی ہے جو اقتدار سے محروم ہونا برداشت نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی کا پیش کیا ہوا نگران حکومت کا یہ فارمولا بہت کامیاب جارہا ہے اور بعض دوسرے ممالک بھی اس سے استفادے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کی بنگلہ دیش میں مداخلت کا اب کیا حال ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: بنگلہ دیش مسلمانوں کا ملک ہے، مگر مسلم ممالک سے الگ تھلگ بھارت میں گھرا ہوا ہے۔ ہمارے تین طرف بھارت ہے اور ایک جانب سمندر۔ وہاں بھارت کا اثر رسوخ خاصا ہے، وہاں ہندو کاروبار میں بہت بااثر ہیں اور انہیں بھارت سے بہت مدد ملتی ہے۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ 14 کروڑ انسانوں کے اس ملک میں صرف اُسی کا کاروبار چلے، یہ بھارتی مصنوعات ہی کی مارکیٹ ہو۔ اس سے قبل بھارت نواز جماعت عوامی لیگ اُن کی منشاء اور مرضی کے مطابق ہی ملک کو چلاتی تھی، البتہ اب جو محاذ کی حکومت آئی ہے تو اس کاروبار کے لیے مشرق کا دروازہ بھی کچھ کھول دیا ہے۔ اور میانمر، تھائی لینڈ، چین اور انڈونیشیا کے ساتھ کاروباری معاہدے کیے ہیں جس کی وجہ سے بھارت خفا ہے اور اپنے جاسوس ادارے ’’را‘‘ کے ذریعے سے بھارت نواز عناصر کو ساتھ ملا کر تخریبی کارروائیاں کررہا ہے تاکہ حکومت کے قدم نہ جمیں۔ لیکن الحمدللہ دوتہائی سے زائد سیٹیں حکمران محاذ کے پاس ہیں۔ وہ دستور میں بھی تبدیلی لا سکتا ہے۔ بہرحال ان سازشوں کے باوجود حکومت کامیابی سے چل رہی ہے، تخریبی کارروائیوں سے بھی نمٹ رہی ہے اور گزشتہ دنوں آنے والے بڑے پیمانے پر سیلاب اور پھر مسلسل شدید بارشوں کے طوفان کے مسائل سے بھی کامیابی سے نمٹ رہی ہے۔ الحمدللہ اس وقت بنگلہ دیش کی معیشت بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بھی خاصے ہیں، بیرون ملک سے زرمبادلہ کی آمدن بھی اطمینان بخش ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی بنگلہ دیش، پاکستان اور ہند میں باہم کوئی رابطہ ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: کوئی تنظیمی یا سیاسی رابطہ نہیں ہے، بس فکر ایک ہے جس کے مطابق وہ اپنی جگہ کام کررہے ہیں، ہم اپنی جگہ کام کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے ’’را‘‘ کی تخریبی کارروائیوں کا تذکرہ کیا۔ گزشتہ دنوں حسینہ واجد پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ مرشد خان نے اسے ’’را‘‘ کی تخریبی کارروائی قرار دیا۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
مولانا ابوالکلام محمد یوسف: اس طرح کی تخریبی کارروائیاں گزشتہ کچھ عرصے بلکہ عوامی لیگ کی حکومت کے دور سے چل رہی ہیں۔ حسینہ واجد پر حملے کی واردات کے بعد پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ عوامی لیگ کا جلسہ ہے، جس پر مخالفین نے حملہ کیا ہوگا، لیکن جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہ کارروائی اُن عناصر کی ہے جو بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ حسینہ واجد کی تقریر ختم بھی اس کے بعد ہوئی اور پھر اُن کے جسم پر کوئی چوٹ بھی نہیں آئی۔ حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جن اداروں کی ذمہ داری لگائی، اُن کے ساتھ بھی عوامی لیگ تعاون نہیں کررہی۔