برطانیہ مذہبی و نسلی منافرت، مسلمان اقلیت محفوظ

برطانیہ میں گو کہ مذہبی و نسلی منافرت کے قوانین سخت ہیں لیکن آئے دن منافرت پر مبنی رویّے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ عام شہری کی زندگی گو کہ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کبھی نہ کبھی متاثر ہوتی ہے، لیکن اب یہ الزامات حکومت کے وزراء و سابق وزراء کی جانب سے آئیں تو اس کی سنگینی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ سابق برطانوی وزیر نصرت غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو مسلمان ہونے کی پاداش میں وزارت سے برطرف کیا گیا۔ نصرت غنی کو جو کہ اب بھی برطانوی رکن پارلیمنٹ ہیں، جنوری 2018ء میں وزارتِ ٹرانسپورٹ کا قلمدان دیا گیا جوکہ 2020ء میں ان سے واپس لے لیا گیا۔ برمنگھم سے منتخب ہونے والی 49 سالہ نصرت غنی نے 2022ء میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کی وزارت سے برطرفی کی واحد وجہ ان کا مسلمان ہونا تھا۔ جس کے بعد سے برطانوی میڈیا میں ایک بحث جاری ہے، گو کہ اب بھی کنزرویٹو پارٹی کی موجودہ حکومت میں دو مسلمان وزراء ندیم ظہاوی تعلیم، اور ساجد جاوید صحت کی وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں، تاہم ان الزامات کے بعد برطانوی نائب وزیراعظم ڈومنک روب نے کہا ہے کہ یہ الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں لہٰذا نصرت غنی کو باقاعدہ ایک شکایت درج کروانی چاہیے تاکہ اس پر تحقیقات کا آغاز کیا جاسکے۔
دوسری جانب گوانتاناموبے کے قیدی اور برطانوی شہری معظم بیگ نے بھی اسی نوعیت کا الزام عائد کیا ہے۔ معظم بیگ کا تعلق بھی برمنگھم سے ہی ہے اور وہ ایک طویل عرصے تک گوانتاناموبے میں قید رہے، تاہم ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا، لیکن ان کو ماضی میں بھی سنگین پابندیوں کا سامنا رہا ہے اور ان کا پاسپورٹ معطل کردیا گیا۔ تاہم پاسپورٹ واپس لینے کی قانونی جنگ کے بعد 2012ء اور 2013ء میں معظم بیگ نے شام کا سفر کیا، جس پر برطانوی خفیہ ادارے اُن سے تحقیقات کرتے رہے، لیکن اس میں بھی معظم بیگ پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا، تاہم ایک بار پھر دسمبر 2013ء میں معظم بیگ کا پاسپورٹ واپس لے لیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت انہیں گرفتار کرلیا گیا، لیکن اِس بار بھی معظم بیگ پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا۔ برطانوی پاسپورٹ کے حصول کے لیے معظم بیگ کی جانب سے درخواست 2019ء میں جمع کروائی گئی جس پر دو سال کے انتظار کے بعد معظم بیگ کو پاسپورٹ کا اجراء کردیا گیا، لیکن محض چار ہفتے بعد ہی وزارتِ داخلہ کی جانب سے موصولہ ای میل میں ان کا پاسپورٹ دوبارہ غیر مؤثر کردینے کی نوید سنا دی گئی۔ معظم بیگ کے مطابق ای میل اتنی عجلت میں کاپی پیسٹ کی گئی کہ اس پر موجود 2017ء کی تاریخ کو بھی درست کرنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ تاہم اب پاسپورٹ واپس لینے کے بعد معظم بیگ قانونی جنگ کا آغاز کررہے ہیں، اور بیگ نے برطانوی اخبارات سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں بھارتی نژاد برطانوی وزیر داخلہ پرٹی پٹیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی۔
پاسپورٹ سے متعلق ایک اور خبر بھی برطانوی میڈیا کا حصہ بنی کہ برطانوی سپریم کورٹ نے 21 سالہ خاتون شمیمہ بیگم کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کے خلاف اپیل کو مسترد کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ شمیمہ بیگم 6 سال قبل مبینہ طور پر شام چلی گئی تھیں جہاں وہ اب کردش ملیشیا کے زیر حراست ہیں، اور برطانوی وزارتِ داخلہ نے 2019ء میں شمیمہ بیگم کا پاسپورٹ معطل کردیا تھا جس پر اب آخری اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی، لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ جب تک وہ خود عدالت میں پیش نہیں ہوتیں اُن کی کوئی اپیل قابلِ سماعت نہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شمیمہ بیگم کی پیدائش برطانیہ کی ہے، اور برطانوی شہرت کے سوا کوئی اور شہریت اُن کے پاس نہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ شام میں قید نوعمر لڑکی کی کوئی شہریت نہیں کہ وہ مدد طلب کرسکے۔ اس پر بھارتی نژاد برطانوی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ شمیمہ بیگم اپنے والدین کے ملک کی شہریت کے لیے درخواست دیں۔
اس فیصلے پر خاصی گفتگو ہورہی ہے، اور پاسپورٹ واپس لینے پر برطانوی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے، لیکن ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ پندرہ سال میں 464 برطانوی باشندوں کی شہریت ختم کردی گئی جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی کوئی اور شہریت نہیں، اور وہ خود برطانیہ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال یعنی 2017ء میں 148 برطانوی باشندوں کی شہریت واپس لی گئی۔ واضح رہے کہ 2006ء سے 2009ء کے درمیان یہ تعداد صرف 9 تھی، جبکہ کئی دیگر افراد کے خلاف مقدمات زیرالتوا ہیں جن کی تفصیل وزارتِ داخلہ کی جانب سے نہیں دی گئی۔ برطانیہ میں شہریت کی واپسی کا انوکھا قانون موجود ہے کہ جس کے تحت کسی الزام کے ثابت نہ ہونے پر بھی حکومت کئی افراد کی شہریت واپس لے چکی ہے۔ اس حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اگر کسی فرد کی بنیادی شہریت ہی ختم کردی جائے تو وہ کس ملک کا شہری تصور کیا جائے گا؟ اس کے بنیادی انسانی حقوق کہ جن میں نقل و حرکت کی مکمل آزادی بھی شامل ہے وہ کس ملک کے شہری کی حیثیت سے کس پاسپورٹ پر سفر کرسکے گا؟
پہلے تو یہ سوال صرف گوانتاناموبے کے حوالے سے تھا کہ جہاں امریکی زمین کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا، لہٰذا بغیر کسی مقدمے اور سزا کے، لوگوں کو طویل عرصے قید کیا گیا۔ لیکن اب یہ سوال ہر ایسے ملک میں اٹھ رہا ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی بات تو بہت ہے لیکن انسان کا بنیادی حق، حقِ شہریت ہی غصب کیا جارہا ہے۔ گویا پہلے صرف ایک گوانتاناموبے تھا، اب ہر ملک نے اپنی مرضی و منشا کے خلاف کوئی بھی فکر رکھنے والوں کے لیے بہت سے گوانتاناموبے بنا لیے ہیں۔ یہ انسانیت کی شدید ترین تذلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر بنانے والے ہی جب اس کی سنگین خلاف ورزیاں کریں تو پھر دنیا شاید ایک نئے بحران کا شکار ہونے جارہی ہے، اور وہ ہے شہریت کا بحران، کہ جس کے بعد غلامی کی بدترین شکل کا سامنا دنیا کو کرنا ہوگا۔