موجودہ دور کے انسان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنا دل، دنیا و دولت کو دے چکا ہے اور اس کی ساری حسرتیں اور سارے ارمان دولت و دنیا سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ ہمارا صنعت کار، ہمارا تاجر، ہمارے اہلِ سیاست، ہمارے افسران، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے انجینئر، ہمارے وکیل، ہمارے صحافی، ہمارے ٹیکنیکل ماہر، ہمارے پیر اور ہمارے اہلِ مذہب سے وابستہ طبقات، ان سب کا ہدف عام طور پر دنیا و دولت بن چکی ہے۔ ان سارے طبقات میں ایسے افراد تلاش بسیار کے بعد ملتے ہیں، جو حُبِّ مال اور دولت کی پرستش سے بلند ہوچکے ہوں۔ جہاں تک ضروریاتِ زندگی کی خاطر دولت کے حصول کی جدوجہد ہے تو وہ تو دینی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔
قرآن و احادیث میں دولت کی مطلق نفی نہیں کی گئی ہے، بلکہ دنیا کے اپنے حصے سے بہرہ ور ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک جگہ دنیا کی رونق کی چیزوں سے استفادہ اہلِ ایمان کا حق قرار دیا گیا ہے۔
اس طرح کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔
(ترجمہ)’’اور اللہ نے جو مال آپ کو دیا ہے اس سے اپنے لیے بھلائی طلب کیجیے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلایئے‘‘۔ (القصص آیت:77)
’’اللہ نے کھانے پینے اور زینت کی جو چیزیں اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں، ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے حرام کیا، کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں‘‘۔ (الاعراف آیت: 32)
قرآن میں مال کو زندگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
’’تم اپنے مال جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے باعث ِ قیام قرار دیا ہے، بے وقوفوں کو مت دے ڈالو‘‘۔(النسا:5)
دوسری جگہ ہے:
’’جب یتیموں کو دیکھو کہ اچھی طرح سمجھ آگئی تو اُن کے مال اُن کو دے دو‘‘۔ (النسا:6)
حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب بیٹوں نے آکر کہا کہ ونزداد کیل بعیر یعنی ایک اونٹ اناج اور زیادہ ملے گا، تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام جب بیماری سے شفایات ہوچکے تو سونے کی ٹڈیاں ان کے پاس سے گزریں، وہ ان کو پکڑنے کے لیے اپنی چادر پھیلانے لگے تاکہ زیادہ ٹڈیاں آئیں، ارشاد ہوا کہ اے ایوب، کیا سیر نہیں ہوا۔ عرض کی: اے پروردگار! تیرے فضل سے کس کا دل سیر ہوتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اسلام میں جائز ضروریات کے لیے دولت کے حصول کی جدوجہد ضروری ہے، بلکہ یہ ایسا فریضہ ہے جس میں بہت ساری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، اس سے دوسروں کی محتاجی سے بچنے کی صورت پیدا ہوتی ہے، اولاد کو احساسِ کمتری سے بچایا جاسکتا ہے، معاشی تفکرات سے نجات ملتی ہے وغیرہ وغیرہ، اس لیے بعض احادیث میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
حضورؐ نے حضرت سعدؓ کو فرمایا: تمہارے لیے اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑ کر مرنا اس سے بہتر ہے کہ ان کو ایسی حالت میں چھوڑ جائو کہ محتاج ہوکر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ نیز آپؐ نے فرمایا کہ مجھے ابوبکرؓ کے مال سے زیادہ کسی مال نے نفع نہیں پہنچایا۔
حضرت کعب بن مالکؓ اپنی توبہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے عرض کی: یا رسول اللہؐ میری توبہ یہ ہے کہ اپنا مال خدا اور اس کے رسول کے لیے خیرات کردوں۔ ارشاد فرمایا کہ کچھ مال اپنے پاس رہنے دو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہؐ نے بلایا اور فرمایا کہ کپڑے پہن کر اور ہتھیار سجا کر میرے پاس آئو۔ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، ارشاد فرمایا کہ میں تم کو ایک لشکر پر حاکم کرکے بھیجتا ہوں ، اللہ تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے گا اور غنیمت عطا فرمائے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ جس قدر جی چاہے مال لے لینا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ میں کچھ مال کی خواہش سے اسلام نہیں لایا، بلکہ اسلام کی محبت سے مسلمان ہوا ہوں۔ فرمایا: اے عمرو! اچھا مال اچھے فرد کے لیے ہوتا ہے۔
انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میرے لیے رسول اللہؐ نے خیر و برکت کی دعا کی اور دعا کے آخری الفاظ یہ تھے:
’’یا اللہ انس کو مال و اولاد زیادہ عطا فرما اور اس میں برکت دے‘‘۔
موجودہ دور کی معاشی جکڑ بندیاں
قرآن و احادیث میں جس معاشی جدوجہد کی تاکید کی گئی ہے، وہ آخرت کی زندگی کے استحضار اور اس کی تیاری کے احساس کے غلبے، اللہ کے ذکر کے لیے دل کی آمادگی اور دنیا کو مقصود کا درجہ نہ دینے، دوسروں کی محتاجی سے بچنے اور اپنی اولاد کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کے احساس کے ساتھ دی ہے۔
اس کے برعکس موجودہ دور کی ہماری معاشی سرگرمیاں ایسی ہیں (باقی صفحہ 41پر)
جو آخرت کو فراموش کرکے دنیا ہی کو مقصود بنانے اور ذکر و عبادت و اطاعت سے دست بردار ہوکر، خوشحال زندگی کو کامیابی کا معیار سمجھنے پر مشتمل ہیں۔
دورِ جدید کی سرمایہ دارانہ جکڑ بندیوں سے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی قوم آزاد نہیں۔ سرمایہ داری کی ان جکڑبندیوں نے ہمارے مادی اور معاشی احساسات کو نہایت طاقتور اور تیز سے تیز تر کردیا ہے اور ہمارے وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوگیا ہے۔ قرآن و حدیث اس طرح کی معاشی جدوجہد کی نہ صرف یہ کہ نفی کرتے ہیں، بلکہ وہ اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور دنیا میں اس انہماک کو آخرت کی زندگی کی تباہی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
(”انسانی شخصیت میں نصب بت، روحانی اور نفسی بیماریوں کا تجزیہ“)