’’سندھ کا بلدیاتی قانون احتجاج اور ترامیم‘‘

معروف کالم نگار رشید میمن نے بروز اتوار 30 جنوری 2022ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں سندھ کے سیاسی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ (نوٹ: مترجم یا ادارے کا کالم کے تمام مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں ہے)
………………………
’’سندھ میں اس وقت بلدیاتی قانون پر مختلف سیاسی پارٹیوں کا احتجاج ہورہا ہے۔ احتجاج کرنے والی ہر جماعت بلدیاتی اداروں کو الگ الگ اختیار دینے کے مطالبات کررہی ہے۔ کوئی جماعت کہتی ہے کہ کراچی کے میئر کو واٹر بورڈ اور دیگر اداروں کے اختیارات دیئے جائیں، کسی جماعت کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی اداروں میں مالیاتی فنڈز کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی جائے، اور کوئی جماعت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی، مالیاتی ٹیکسز کے علاوہ مزید دوسرے اختیارات بھی دیئے جائیں۔ اہم بات یہ ہے کہ احتجاج کرنے والی تین اہم جماعتوں ایم کیو ایم، پی ایس پی اور جماعت اسلامی کا سارا زور کراچی کے میئر کو اختیارات دینے پر ہے۔ دریں اثنا جماعت اسلامی نے 29 دن کے دھرنے کے بعد حکومتِ سندھ سے ایک معاہدہ کرکے احتجاج ختم کر ڈالا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک معاہدے کے تحت سندھ لوکل گورنمنٹ قانون میں دوبارہ ترامیم کرنے کا اعلان کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ حکومتِ سندھ بلدیاتی اداروں کو کچھ مزید اختیارات دینے کے لیے رضامند ہوگئی ہے، اور اس انواع کی ترامیم آنے والے چند ایام کے اندر کردی جائیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی قانون میں ترامیم کون سی کی جائیں گی؟ اور یہ سارے صوبے کے لیے ہوتی ہیں یا پھر صرف کراچی کے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کے لیے ہی ہوں گی؟
حکومتِ سندھ نے جماعت اسلامی کے ساتھ بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے بارے میں جو تحریری معاہدہ کیا ہے اس کی کچھ تفصیلات پیش کی جارہی ہیں۔ معاہدے میں حکومتِ سندھ نے اتفاق کیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو صحت کے اداروں اور تعلیم کے اداروں کا کنٹرول دوبارہ دیا جائے۔ کراچی کا میئر، کراچی واٹر بورڈ کا چیئرمین ہوگا۔ میئر ہی سندھ سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا بھی چیئرمین ہوگا۔ الیکشن کے 30 دن بعد صوبائی مالیاتی کمیشن یعنی پی ایف سی قائم کیا جائے گا، اور بلدیاتی اداروں میں مالیاتی فنڈز کی تقسیم صوبائی مالیاتی ایوارڈ کے توسط سے کی جائے گی۔ ختم کردہ آکٹرائے ضلعی ٹیکس کے بدلے جی ایس ٹی کا حصہ جو 1999ء میں طے کیا گیا تھا، اسی تناسب سے بلدیاتی اداروں کو دیا جائے گا۔ سندھ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے ٹیکس سے بھی بلدیاتی اداروں کو حصہ دیا جائے گا۔ یوسیز کو بلدیاتی فنڈز آبادی کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔ صوبے میں پبلک سیفٹی کمیشن بنایا جائے گا، جس میں میئر یا بلدیاتی چیئرمین کو بطور ممبر شامل کیا جائے گا۔ کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں میئر یا چیئرمین کو کردار دیا جائے گا۔ معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ حکومت ِسندھ بلدیاتی قانون میں ترمیم کرکے اس میں یہ شق شامل کرے گی کہ بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوجانے کے بعد 90 دن کے اندر انتخاب کرادیا جائے گا۔ جماعت اسلامی اور حکومتِ سندھ کے مابین ہونے والے اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے دھرنے کے ذریعے اکثر مطالبات کراچی کے میئر کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ سندھ کے باقی اضلاع کے میئرز یا دیگر بلدیاتی نمائندوں کے حوالے سے کوئی خاص مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ یوسیز کو آبادی کی بنیاد پر فنڈز دینے کے مطالبے سے بھی سب سے زیادہ فائدہ کراچی کی یوسیز کو حاصل ہوگا۔ اس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے مطالبات کراچی کے بلدیاتی اداروں تک محدود ہیں۔ سندھ کے بلدیاتی قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ میئرز سمیت میونسپل چیئرمین کو بہت اختیارات حاصل ہیں، جنہیں گزشتہ بلدیاتی مدت کے دوران بلدیاتی نمائندوں نے استعمال نہیں کیا ہے، اور یہ بھی امر واقع ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو واٹر سپلائی اور سیوریج کے اداروں پر کنٹرول حاصل نہیں تھا جو کہ انہیں ملنا چاہیے تھا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سارے کراچی کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح سے حیدرآباد میں واسا ان سارے معاملات کو دیکھتا ہے۔ سندھ کے دوسرے شہروں میں ایسے خصوصی ادارے قائم نہیں ہیں، اور وہاں پر میونسپل کے نمائندے ہی واٹر سپلائی، ڈرینج اور اسی طرح کے دوسرے معاملات کو دیکھا کرتے ہیں۔ ان دونوں اداروں یعنی کراچی واٹر بورڈ اور واسا کا کنٹرول براہِ راست بلدیاتی نمائندوں کے پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے واٹر سپلائی اور ڈرینج کے امور اور معاملات ان کے دائرۂ اختیار سے باہر رہے اور ان سے دور رکھے گئے۔ اب نئے ترمیمی قانون کے تحت کراچی واٹر بورڈ کا چیئرمین میئر کراچی ہوگا لیکن واسا کا کنٹرول تاحال حیدرآباد کے میئر کو نہیں دیا گیا ہے، البتہ نئے قانون کے ذریعے سندھ سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے اختیارات میئرز اور دیگر بلدیاتی اداروں کو دیئے گئے ہیں۔ سندھ سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ ایک نیا ادارہ ہے جو شہروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہے، جبکہ صفائی کے اختیارات قبل ازیں بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ اس لیے اس بورڈ کا چیئرمین میئرکو بنانے سے بلدیاتی نمائندوں کو صفائی کرانے کے اختیارات پھر سے مل جائیں گے۔ سندھ حکومت نے کچھ وقت پہلے ایک ترمیمی قانون منظور کیا تھا جس کے تحت سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈ ہر ڈویژن میں علیحدہ علیحدہ قائم کیا جائے گا اور اس کا چیئرمین متعلقہ میئر ہوا کرے گا۔ ترمیمی بلدیاتی قوانین کے توسط سے بلدیاتی اداروں کو شادی ہالز، اشتہاری بورڈز اور پارکنگ کے ٹیکسز وصول کرنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں جس کے ذریعے بلدیاتی اداروں کے وسائل میں اضافہ ہوسکے گا۔ اسی طرح سے بلدیاتی اداروں کو اسکولوں، اسپتالوں اور پولیس تھانوں کی کارکردگی رپورٹ طلب کرنے اور جانچنے سمیت کسی بھی اہلکار کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کرنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سندھ کے ترمیمی بلدیاتی قوانین میں اِس مرتبہ بلدیاتی نمائندوں کو کچھ مزید اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ کے ایم سی کے پاس اسپتالوں اور اسکولوں کا کنٹرول برقرار رکھا جائے۔ یہ اُن اداروں کی بات کی جارہی ہے جو کے ایم سی کی ملکیت تھے، لیکن ہوا یہ کہ عباسی شہید اسپتال سمیت کے ایم سی کے کنٹرول میں جتنے بھی مراکزِ صحت، ڈسپنسریاں یا اسکول تھے اُن کی حالت اس وقت خراب ہوچکی ہے، یہاں تک کہ ملازمین کو ان کی تنخواہیں تک نہیں مل رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے ان اسپتالوں کے ڈاکٹرز نے تنخواہوں کے لیے احتجاج بھی کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کے ایم سی ان اداروں کو ٹھیک طرح سے چلا نہیں پائی ہے اور اس نے ان کی حالت خراب کر ڈالی۔ کے ایم سی سمیت سندھ کے لگ بھگ تمام بلدیاتی ادارے مالیاتی بحران کا شکار رہے ہیں جس کا بڑا سبب اضافی اور غیر قانونی بھرتیاں ہیں۔ کرپشن، اور سیاسی افراد کو بلدیاتی اداروں کے فنڈز میں سے پیسے دینے کی وجہ سے بھی بلدیاتی ادارے سخت مالیاتی بحران میں مبتلا رہے ہیں۔ ہائی کورٹ کے حکم پر حکومتِ سندھ تنخواہوں کی ادائی کے لیے کے ایم سی کو ہر ماہ 50 کروڑ روپے گرانٹ دے رہی ہے لیکن اس کا بحران پھر بھی برقرار ہے۔ اسی طرح سے کے ڈی اے بھی مالی بحران کا شکار ہے اور اُس کے پاس تنخواہیں اور پنشن دینے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ عدالت کے حکم پر حکومتِ سندھ نے اس ادارے کو بھی کروڑوں روپے کی گرانٹ دی ہے۔ میرے خیال میں بلدیاتی اداروں کی حالت اُس وقت تک بہتر نہیں ہوسکے گی جب تک حکومتِ سندھ کی جانب سے ان میں کی گئی بھرتیوں کی شفاف طریقے سے تحقیق نہیں کرائی جائے گی، اور کرپشن اور سیاسی مداخلت کو نہیں روکا جائے گا۔ یہاں پر سندھ کے بلدیاتی قانون سمیت ملک کے دیگر صوبوں کے بلدیاتی قوانین کا کچھ جائزہ بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ بلدیاتی قوانین میںکون کون سا فرق ہے؟ پنجاب کے بلدیاتی قانون کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کی منظوری سے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو کوئی بھی ٹیکس لگانے سمیت پراپرٹی ٹیکس، انٹرٹینمنٹ ٹیکس، تھیٹر شو، شادی، پیدائش اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کی فیس وصول کرنے سمیت مختلف اختیارات حاصل ہیں۔ خیبر پختون خوا کے قانون کے تحت وہاں کے بلدیاتی اداروں کو بھی صوبائی حکومت کی منظوری سے صحت کے اداروں، پارکنگ، تعلیم کے اداروں سمیت مختلف ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ سندھ کے بلدیاتی قانون کے تحت بھی اب بلدیاتی اداروں کو پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح سے بلوچستان کے بلدیاتی اداروں کو سینمائوں سمیت انٹرٹینمنٹ ٹیکس وصول کرنے، پراپرٹی ٹیکس، اشتہاری بورڈوں، جانوروں کی فروخت کے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو اس وقت سندھ کے بلدیاتی قانون پر تنقید کرتی نظر آرہی ہے اُس نے خود اسلام آباد میں بلدیاتی قانون پر ’’یوٹرن‘‘ لیا ہے، اور وہاں پر یہ اختیارات بلدیاتی اداروں کو نہیں دے سکی ہے جو وہ سندھ میں طلب کررہی ہے۔ اسلام آباد لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء کے ذریعے اسلام آباد کے اسکول وہاں کے میئر کے حوالے کیے گئے جس پر اسکولوں کے ملازمین نے سخت احتجاج کیا۔ بعد میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح سے اسلام آباد کی واٹر سپلائی اور نکاسی کے اداروں کے اختیارات بھی اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن کو دیئے گئے، لیکن ان اداروں کا کنٹرول واپس سی ڈی اے یعنی کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کردیا گیا۔ واضح رہے کہ واٹر سپلائی اور نکاسی کے اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں مل پارہی تھیں جب ان اداروں کے اختیارات اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حوالے کیے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو سندھ میں صحت، تعلیم، واٹر سپلائی اور ڈرینج کے اداروں کا کنٹرول میئر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اُسی کی حکومت نے اسلام آباد میں اس طرح کے اپنے کیے گئے فیصلوں کو واپس لے لیا۔ اسی طرح سے پی ٹی آئی نے پنجاب کے قانون میں بھی بلدیاتی اداروں کو کوئی ایسے ’’ایکسکلوسو‘‘ اختیارات نہیں دیئے جو کہ سندھ میں نہ ہوں۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء جو 11 ستمبر کو جاری کیا گیا تھا اس میں مندرجہ ذیل اختیارات بلدیاتی اداروں کے حوالے کیے گئے ہیں:
بلدیاتی اداروں کو زمین کے استعمال، ماسٹر پلان بنانے، بلڈنگ کنٹرول، ترقیاتی منصوبے بنانے اور انہیں چلانے، ایکسپریس ویز، فلائی اوورز، روڈ بلدیاتی فنڈز سے تعمیر کرانے، واٹر سپلائی، ٹریٹمنٹ پلانٹس اور ڈرینج کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اسی طرح سے بلدیاتی اداروں کو ٹریفک پلاننگ کرنے اور آبادی کنٹرول پالیسی بنانے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔