سیاست میں فون کال کی ”برکت“

حکومت کی انتظامی نااہلی تو اب ایک کھلا راز ہے، مگر معاشی و مالیاتی دیوالیہ پن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری طرح عیاں کردیا ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے لیے عمران خان کا زوردار بیانیہ بیچ چوراہے پر پھوٹ چکا ہے۔ کرپشن ایک جانب رکھ دی جائے، ملک کو انتظامی نااہلی کے باعث اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اس قدر جکڑ دیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی سلامتی کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ سری لنکا اس خطے کا ایک ایسا ملک ہے جس کی بندرگاہیں اس وقت غیر ملکی قرضوں کے باعث گروی رکھنا پڑی ہیں۔ معاشی ماہرین پاکستان کی معیشت کا جو نقشہ کھینچ رہے ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ یہ سب متفق ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ ماہرینِ معیشت کی باتیں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے اور قرضوں کے ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ اب اگر حالات کو درست نہ کیا گیا تو ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ ہمارے معاشی بحران کے تناظر میں ہم سے کوئی ایسا مطالبہ کردیا جائے جس کا ہماری سلامتی سے براہِ راست تعلق ہو۔ ملکی معیشت کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال جولائی سے دسمبر2021ء کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 9 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے جو ملکی جی ڈی پی کے 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ 2019-20ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.7 فیصد اور 2020-21ء میں 0.6 فیصد تھا۔ ان 6 مہینوں میں ملکی برآمدات 18.65 ارب ڈالر، جبکہ درآمدات 41.66 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جس کی وجہ سے 6 مہینوں میں 23 ارب ڈالر تجارتی خسارہ ہوا جو گزشتہ سال 12.33 ارب ڈالر تھا۔ رواں مالی سال 2021-22ء کے دوران پاکستان کو 23 ارب ڈالر کے قرض کی قسط ادا کرنی ہے، آنے والے 6 مہینوں میں 8.6 ارب ڈالرکی ادائیگیاں ہونی ہیں جن میں 7.2 ارب ڈالرکا اصل قرض اور 1.4 ارب ڈالرکا سود شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDP کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو قرضوں میں بے تحاشا اضافے پر وارننگ دی گئی ہے۔کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے حکومت قرضوں پر قرضے لے رہی ہے جو ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت نے اگست 2018ء سے دسمبر 2021ء تک 42.7 ارب ڈالر کے قرضے لیے، اور 32.7 ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے، اور 3 سال میں 10 ارب ڈالرکے اضافی قرضے لیے جس میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز اور4.3 ارب ڈالر کمرشل بینکوں سے لیے گئے، جس میں 971 ملین ڈالر SCB لندن، 355 ملین ڈالر سوئس بینک، یو بی ایل، الائیڈ بینک، ایک ارب ڈالر چائنا ڈویلپمنٹ بینک، 800ملین ڈالر ICBC چائنا، 350 ملین ڈالر عجمان بینک اور 700ملین ڈالردبئی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 1.2 ارب ڈالر، ورلڈ بینک سے 2.5ارب ڈالر، ایشیا انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 80.5 ملین ڈالر، چین سے 181.8 ملین ڈالر، امریکہ سے65.5 ملین ڈالر اور فرانس سے ملنے والا 15 ملین ڈالرکا قرض شامل ہے۔ پی ٹی آئی جب حکومت میں آئی تو پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 95.24 ارب ڈالرتھے، 3سال کے دوران یہ قرضے بڑھ کر 131 ارب ڈالرتک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے تقریباً 50کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیںجس میں مقامی قرضے انویسٹمنٹ بانڈز، ٹریژری بلز اور نیشنل سیونگ اسکیم شامل ہیں، جی ڈی پی کا51فیصد جبکہ بیرونی قرضے جن میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب، کمرشل بینک اور یورو بانڈز شامل ہیں، جی ڈی پی کا41فیصد ہیں۔حکومت کے زیادہ سے زیادہ قرضے لینے کے حد کے قانون FRDLA کے مطابق حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی، لیکن اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 88فیصد سے تجاوز کرچکے ہیں جس کو2032-33ء تک کم کرکے جی ڈی پی کے 50 فیصد تک لانا ہے۔ 2020-21ء کے وفاقی بجٹ میں ان قرضوں پر سود کی ادائیگی حکومت پر سب سے بڑا مالی بوجھ تھا جو دفاعی اور ترقیاتی بجٹ سے بھی بڑھ گیا ہے، اور یہ ملکی سلامتی کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ 3 سال میں حکومت نے 33 ارب ڈالر کے جو بیرونی قرضے لیے، وہ زیادہ تر بجٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے تھے۔ بیرونی قرضوں پر 3052ارب روپے سود ادا کیا گیا جس میں 2750 ارب روپے مقامی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں تھیں، دفاع کے لیے 1370 ارب روپے، تعلیم کے لیے 28 ارب روپے اور صحت کے لیے 22 ارب روپے رکھے گئے جو مجموعی طور پر 1420 ارب روپے بنتے ہیں۔
رواں مالی سال کی اب تک کی مدت کے دوران حکومت نے جو محاصل اکٹھے کیے ہیں وہ حتمی ہدف سے بہت پیچھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سرکاری اداروں اور کمپنیوں کے مالی اور غیر مالی معاملات کی نگرانی کے لیے معاشی و مالیاتی ریفارمز یونٹ (ای ایف آریو) کے قیام کی منظوری دی ہے، خزانہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے اور متعلقہ وزارتوں بشمول نج کاری کمیشن کے ساتھ مل کر اصلاحات کی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ یونٹ اداروں کے بجٹ اور کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بہتری لانے کی تجاویز مرتب کرے گا، نیز گردشی قرضے، امدادی قیمتیں، ٹیرف، مہنگائی سمیت دیگر اداروں اور حکومتی تنظیموںکے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ معاشی اصلاحات کے لیے متذکرہ یونٹ کا قیام اور اسے ذمہ داریاں تفویض کرنا بلاشبہ ایک اہم قدم ہے، تاہم زمینی صورت حال کی روشنی میں ممکنہ رکاوٹیں دور کرنا ہی اصل کامیابی تصور ہوگی۔
ایک نئی کہانی سنائی جارہی ہے کہ ریاستِ مدینہ بھی ابتدا میں مسائل کا شکار رہی۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھی جاسکتی ہے کہ ان کی اب تک کی دی ہوئی مثالیں ملک میں حکومت کے خلاف کسی بھی سطح پر تنازعے کا باعث نہیں بن سکیں۔ اپوزیشن نے خوش دلی کے ساتھ اپنا سینہ آگے کیا ہوا ہے، اور تحریک انصاف کی قیادت بے پر کے تاریخی اور مذہبی حوالوں اور بے معنی مثالوں کی مدد سے اس پر مونگ دَل رہی ہے۔ وزیراعظم کو ایک اچھے اتالیق کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ کے بجائے حکومت کا صحن ترجمانوں سے بھرا ہوا ہے، جن کا سوائے اپوزیشن کو کوستے رہنے کے اور کوئی کام نہیں۔ تاہم اپوزیشن کے پلے بھی کچھ نہیں ہے۔ حزبِ اختلاف کی قیادت احتساب کے شکنجے میں ہے، حال ہی میں پیپلزپارٹی کی قیادت کی ایک انتہائی قریبی رازدان کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا گیا ہے جس کے ردعمل میں سینیٹ میں سہولت کاری کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا، جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل آسانی کے ساتھ منظور کیا گیا ہے۔ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 11 ارکان غیر حاضر پائے گئے، معلوم نہیں کس کے فون پر؟ اس بل پر حکومت کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے فیصلہ کن ووٹ کے ساتھ 43 ووٹ، اور حزبِ اختلاف کو 42 ووٹ پڑے۔ یوسف رضا گیلانی وفاق کی نشست سے اسلام آباد سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے، اور بعد ازاں حکومتی بینچوں سے ایک آزاد گروپ کی مدد سے قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کرائے گئے۔ اب اس کامیابی کی قیمت کہاں کہاں ادا کی جائے گی؟ ایک اہم بل پر قائد حزبِ اختلاف کی دانستہ غیر حاضری سے حکومت کی ایک ووٹ سے فتح اور اپوزیشن کی اخلاقی شکست پر پیپلزپارٹی اپنے قائد حزب اختلاف کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے کو تیار ہے؟ اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود اسٹیٹ بینک بل کا سینیٹ سے پاس ہوجانا نہ صرف اپوزیشن کی حکمتِ عملی کی ناکامی بلکہ بیانیے کی بھی تباہی ہے۔ اپوزیشن مسلسل ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے۔ اس بات کا کیا جواز اور جواب ہے کہ ووٹنگ سے قبل اپوزیشن کی عددی اکثریت ایوان میں موجود ہو اور عین ووٹنگ کے وقت کوئی غائب ہوجائے، کوئی غیر حاضر نکل آئے اور کوئی حکومت کا غیبی ووٹر بن کر ابھر آئے؟ یہ سب کچھ ایک فون کال کی ’’برکت‘‘ سے ہوا۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی ترجیحات کھنگال لیجیے تو ہر ایک کے تانے بانے باآسانی سمجھ میں آجائیں گے۔ لیکن اصل سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اراکین کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں کیا ان سے جواب دہی کریں گی؟ وہی قسط دہرائی گئی ہے جو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو پڑنے والے اضافی ووٹوں کی کہانی تھی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے جوشیلے بیانات، عوام کی ترجمانی اور حقوق کے تحفظ کی لفّاظی کی قبا پہن رکھی ہے۔ یہ عمل کی دنیا میں ہمیشہ ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘ ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن کے پاس نہ تو ایوان میں، نہ ہی میدان میں حکمتِ عملی موجود ہے، نہ ہمت۔ اسٹیٹ بینک بل کی منظوری جیسے ہر اچنبھا دینے والے مگر ممکنہ اور متوقع واقعے کے بعد اپوزیشن نہ صرف بذات ِ خود حکومت کو سہارا دے رہی ہے بلکہ اس کے سرپرستوں کے لیے زرخیز مٹی ہے۔ اسٹیٹ بینک بل پر شکست کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے لانگ مارچوں کا بوریا بستر سمیٹ لیں اور عوام کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہرگز نہ کریں۔ رہ گئے عوام، تو جس طرح رو پیٹ کر گزشتہ ساڑھے تین سال نکال لیے، آئندہ ڈیڑھ سال بھی گزر ہی جائیں گے۔
سینیٹ میں اپوزیشن کے پاس پچاس سے زائد ارکان ہیں لیکن اسٹیٹ بینک کے بل کی منظوری کے بعد تو اِن ہائوس تبدیلی کا خواب دیکھنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ویسے بھی نظام کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے نہ اپوزیشن کے۔ جس سرعت سے پارلیمنٹ سے درجنوں بل مع منی بجٹ منظور کروائے گئے ہیں، اس کے بعد کیا اُمید رہ جاتی ہے؟ پارلیمنٹ اپنا تیسرا آئینی سال گزار کر چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے، ابھی تک تو ’اسٹیٹس کو‘ کی حکمرانی دکھائی دے رہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی صفوں میں اِن ہائوس تبدیلی کے منصوبے اور نعرے سراب معلوم ہوتے ہیں۔ سینیٹ میں جس طرح اپوزیشن کی بھد اڑی ہے، اب وہ فیس سیونگ کے لیے سڑکوں پر آنے اور عدلیہ سے رجوع کرنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ اگر آج پارلیمنٹ میں ہونے والی اب تک کی قانون سازی اور ملکی سیاست پر ایک جملے میں تبصرہ اور تجزیہ کیا جائے تو یہی کہنا کافی ہے کہ حکومت خود نہیں چل رہی بلکہ حزبِ اختلاف اسے چلا رہی ہے۔ اپوزیشن تذبذب کا شکار ہے کہ سیاست ’’اجازت‘‘ سے کی جائے یا عوامی قوت کے بل پر؟ اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ اگر نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں تو شہبازشریف اگلی بس کے انتظار میں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، پیپلزپارٹی میں اگر بلاول بھٹو آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس اب مزید کسی کو کھونے کی ہمت نہیں۔ اپوزیشن کی اندرونی کمزوریاں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور کررہی ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے بعد اب اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون سازی کے عمل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ’اسٹیٹس کو‘ کی عمارت کے بنیادی پتھر ہیں، ووٹ کو عزت دو کی بات صرف نعرے کی حد تک ہے۔ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی متبادل ایجنڈا ہے، نہ عوامی سکت۔ پارلیمنٹ آئینی لحاظ سے اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کرتے ہوئے بینک دولت پاکستان کو حکومت و پارلیمان کے کنٹرول سے یکسر آزاد کرنے کے لیے جس ترمیمی بل کی پارلیمان کے ایوانِ بالا سے منظوری حکومت کے لیے اس وجہ سے محال سمجھی جارہی تھی کہ یہاں اُس حزبِ اختلاف کو واضح اکثریت حاصل ہے جس نے بڑے زور و شور سے یہ مؤقف اپنا رکھا تھا کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی اس مسودۂ قانون کی منظوری کا مطلب ملک کی معاشی خودمختاری کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا، بل سینیٹ سے منظور کرالیا گیا، اور یہ کام جس طرح ہوا اس نے ہمارے سیاسی نظام کو قطعی بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ بل پاس ہونے کے بعد حکمرانی کا اختیار عملاً حکومت اور پارلیمان کے پاس نہیں رہا بلکہ اسٹیٹ بینک کے پاس چلا گیا ہے، اور گورنر اسٹیٹ بینک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے محض ایک رکن کے اتفاقِ رائے سے فیصلے کرسکے گا۔ حکومت قدرتی آفات، جنگ اور دوسرے ہنگامی حالات میں بھی اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی، اور اس مقصد
کے لیے اسے کمرشل بینکوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یوں ملک میں معاشی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے بارے میں برملا اظہار کررہی تھیں، جس کی بنا پر توقع کی جارہی تھی کہ اپوزیشن سینیٹ میں اپنی عددی اکثریت کے باعث اس بل کی منظوری کا راستہ بہرصورت روکے گی، اور قومی معیشت کو پارلیمنٹ کے کنٹرول سے آزاد کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ حکومت اپوزیشن کو مات دینے میں کامیاب رہی، اور بل کی منظوری سے اسٹیٹ بینک خودمختار بن گیا۔ اپوزیشن کے 8 ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے، تاہم ایک رکن کا عین ووٹنگ کے وقت ایوان سے باہر چلے جانا یقیناً مشتبہ معاملہ ہے۔ سب سے حیرت انگیز معاملہ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف سید یوسف رضا گیلانی کی غیرحاضری کا ہے، انہوں نے جو عذر پیش کیا اُسے خود اُن کی پارٹی کے رہنما قمر زماں کائرہ نے بھی قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ گیلانی کو سینیٹ میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک اور عرفان صدیقی نے سینیٹ میں اپوزیشن کی شکست کا اصل سبب یوسف رضا گیلانی کی اجلاس میں عدم موجودگی کو قرار دیا۔ وزیر خارجہ نے قائد حزبِ اختلاف کی سینیٹ سے غیرحاضری کو حکومت کی حمایت کے مترادف قرار دیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود شکست ہوئی۔ ضروری ہے کہ اپوزیشن کی قیادت اس پورے معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور اپنی صفوں میں اتفاقِ رائے پیدا کرے۔