مغرب کے دہرے معیار : سنکیانگ کے غم گُسارکشمیر کے تماشائی کیوں؟

وزیراعظم عمران خان نے چینی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر پر خاموشی اور سنکیانگ پر بولنا مغرب کا دہرا معیار ہے۔ کشمیر سے متعلق مغرب میں زیادہ بات نہیں کی جاتی، اس معاملے پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ نوے لاکھ کشمیری بدترین حالات میں کھلی جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عمران خان نے سنکیانگ اور کشمیر سے متعلق دہرے رویوں کی بات کرکے حقیقت میں مغرب کے چہرے سے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کے دعوے کا ایک اور نقاب نوچا ہے۔ سنکیانگ اور کشمیر دونوں مقامات پر مسلمانوں کی اکثریت حالات کی چکی میں پس رہی ہے، اور دونوں جگہوں پر ریاست غیر مسلم ہے۔ سنکیانگ میں چین کی عمل داری ہے تو کشمیر میں بھارت کا قبضہ ہے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے بلاتخصیصِ رنگ ونسل اور ملک ومذہب علَم بردار اور داعی ہیں۔ اس دعوے کی کسوٹی پر سنکیانگ اور کشمیر پر مغرب کے رویوں کو پرکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کشمیر سے مغرب کو چنداں دلچسپی نہیں۔ کشمیر کو سنکیانگ سے الگ کرنے والی بہت سی چیزیں ہیں۔ کشمیر عالمی طور پر ایک مسلمہ معاملہ ہے، اور مغرب کی بالادستی کے حامل عالمی ادارے نے اس پر حل طلب کی مہر ثبت کررکھی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ کئی برس تک یہ مسئلہ عالمی فورم پر زیر بحث رہ چکا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کی جائے تو کشمیر اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ ملٹرائزڈ زون ہے۔ گویا کہ دنیا میں اس وقت رقبے اور آبادی کے تناسب سے جہاں فوج کا تناسب بہت زیادہ ہے وہ کشمیر ہے، اور یہ فوج کشمیر میں محض سیکورٹی کے نام پر چھائونیوں میں نہیں بیٹھی، بلکہ نئی دہلی کے قوانین سے لیس ہوکر نہتی آبادی سے لڑ رہی ہے۔ اٹھارہ بیس سال کے لڑکوں کو انکائونٹر کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ عام ہے۔ دس ہزار سے زیادہ عورتیں ’’ہاف وڈوز‘‘ کے نام سے سراپا سوال ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کے خاوند گرفتار کرنے کے بعد لاپتا کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح لاتعداد مائیں اپنے بچوں کا پتا پوچھ اور راستہ دیکھ رہی ہیں، اور یہ سلسلہ چار عشروں پر محیط ہے۔ دنیا کے آزاد ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق سے متعلق عالمی اداروں کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اب تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں نسل کُشی کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ خود مغربی ادارے کشمیر میں نسل کُشی کی علامات اور آثار دیکھ رہے ہیں۔ ہندو توا مائنڈ سیٹ جس رخ پر جا رہا ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ آبادی کا تناسب اور کشمیر کی اسلامی شناخت تبدیل کرنے اور زمینیں ہتھیانے کے جنون میں یہ ذہنیت کوئی غیر انسانی وار بھی کرسکتی ہے۔ اس سب کے باوجود مغرب میں کشمیر پر کوئی بات کی جاتی ہے نہ کوئی منظم صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے، بلکہ مغربی شخصیات اور قانون سازاداروں کے وابستگان جو کبھی کبھار کشمیر کی صورتِ حال پر آواز اُٹھایا کرتے تھے، رفتہ رفتہ خاموش کیے جا چکے ہیں۔ ایک دور میں برطانوی پارلیمنٹ میں لارڈ ایوربری اور کئی دوسرے نام کشمیریوں کے عالمی وکیل اور ترجمان ہوتے تھے۔ وہ بہت کھل کر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کی مذمت کرتے تھے۔ امریکی قانون ساز اداروںمیں بھی ایسے کئی انصاف پسند نام تھے جو مذہب اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر کشمیر میں ہونے والے مظالم پر احتجاج کرتے تھے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں واشنگٹن پوسٹ، سی این این، ٹائم میگزین، نیوز ویک جیسے امریکی، اور گارجین، ڈیلی ٹائمز، بی بی سی جیسے برطانوی اداروں نے کشمیر کے حالات پر مبنی تہلکہ خیز رپورٹیں لکھیں جن پر بھارت کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ انہی مغربی اداروں سے اثر قبول کرکے بھارت میں آزاد ضمیر لوگ بھی کشمیر کے حالات پر کڑھتے رہے۔ 1990ء کے ابتدائی مہینوں میں ہی جب کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا آغاز ہی ہوا تھا، بھارتی خواتین کی تنظیم نے’’ ویمن انیشئیٹو آن کشمیر‘‘ کے نام سے وادی کا دورہ کرکے ایک اہم رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بھارتی فوج کی طرف سے خواتین پر مظالم کا ذکر بہت تفصیل سے کیا گیا تھا۔ مگرجب سے مغربی حکومتوں نے انسانی حقوق کے نعرے کو سیاسی ہتھیار بنا لیا ہے اب ایسا کوئی کردار دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
پروفیسر ولیم ڈبلیوبیکر ایک امریکی محقق اور دانشور تھے۔ انہیں ٹی وی پر فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے کے بعد کسی نے استدعا کی کہ آپ فلسطین کے لیے تو بولتے ہیں، کبھی کشمیر کے حالات پر بھی توجہ دیں۔ ولیم بیکر نے اسی وقت کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھارتی ہائی کمیشن پہنچے اور ٹورسٹ ویزا حاصل کرکے وادی کشمیر جا پہنچے۔ دہلی ائرپورٹ سے بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کیا۔ ایک بار بھارتی فوجیوں نے انہیں ہائوس بوٹ سے اُٹھاکر پانچ گھنٹے تک تفتیش کی۔ جاں جوکھوں میں ڈال کر وہ مظالم کا شکار کشمیریوں سے ملتے رہے اور ’’کشمیر ہیپی ویلی، ویلی آف ڈیتھ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔
پروفیسر ولیم بیکر جیسے دانشوروں کا قلم کشمیر کے غم میں لفظوں کے آنسو بہاتا تھا، اب بیس پچیس سال بعد ایسے کردار ناپید ہوچکے ہیں، کیونکہ مغرب میں ایسے کرداروں کی بری طرح حوصلہ شکنی کی جاچکی ہے۔ اس کے برعکس سنکیانگ کے معاملے میں عالمی اداروں میں کوئی کیس موجود نہیں، مگر مغرب سنکیانگ کے مسلمانوں کے غم میں آنسو بہاکر ہلکان ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین مغرب کا ناپسندیدہ ہے، اور مغرب چین کے اُبھار سے خوف زدہ ہے۔ وہ ہر قیمت پر چین کو نقصان پہنچانا اور اسے بدنام کرنا چاہتا ہے۔ مغرب پاکستان کے سابق افغان جہادی گروپوں کو سنکیانگ میں ’’جہاد‘‘شروع کرنے کی پیشکش بھی کرچکا ہے۔ حرکت المجاہدین کے ایک مشہور کمانڈر مولانا فضل الرحمان خلیل متعدد بار اس پیشکش کا ذکر کرچکے ہیں۔ اس کے برعکس کشمیر کے حالات کا ذمے دار بھارت مغرب کی آنکھ کا تارا ہے، اور مغربی ممالک بھارت کو چین کا مدمقابل اور حریف سمجھ رہے ہیں، اس لیے وہ کشمیر میں انسانیت اور انسانی حقوق کو بھولے ہی نہیں بلکہ بھارت کے جنگی جرائم پر بھی آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ یہ ظلم کی حمایت اور معاونت کی ہی ایک شکل ہے۔