نشاۃ الثانیہ کا ایک تصور یہ ہے کہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور مختلف علوم و فنون میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان شعبوں پر ترقی یافتہ اقوام کی طرح دسترس حاصل کریں اور خود کو ان اقوام کی صف میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ تصور مذہبی حلقوں سے باہر پایا جاتا ہے اور لوگوں میں اس کی مقبولیت زیادہ ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہماری رائے میں نشاۃ الثانیہ کی یہ تعبیر جزوی فائدے اور کلی نقصان پر منتج ہو سکتی ہے۔
یہ بات نشاۃ الثانیہ کی ترکیب سے ظاہر ہے کہ مسلمان امت تاریخ کے کسی مرحلے پر کمال یافتہ تھی اور اب حالتِ زوال سے نکل کر اسے وہی کمال دوبارہ مطلوب ہے، یہاں تک پوری بات ٹھیک ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر پہلے ہی قدم پر یہ طے کرنا ہو گا کہ اس امت کو جو کمال حاصل تھا اس کے واقعی اسباب کیا تھے؟ ان اسباب کی بالکل کلینکل انداز میں تشخیص ہونی چاہیے۔
ایک اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ عروج و زوال کے تاریخی عوامل کیا ہمیں بعض مظاہرِ عروج کی باز آفرینی کا موقع دیں گے؟ مذہبی ذہن قوانینِ تاریخ سے مناسبت نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ناگزیر اور بدیہی رکاوٹوں کی طرف سے آنکھ بند کرلیتا ہے۔ اس روش کا ازالہ کیے بغیر نشاۃ الثانیہ محض ایک خواہش کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔
زندگی کے نئے اسالیب خصوصاً انسان کی جدید تہذیبی اور نفسیاتی ساخت کسی عقیدے یا نظریے کی لفظی اور قانونی تعمیم کو قبول نہیں کرسکتی۔ قبول نہ کرسکنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مستقل عقیدے یا نظریے کی طرف ذہنی میلان ہو بھی جائے تو بھی زندگی کے موجودہ اسالیب و اطوار اس عقیدے کو ذہن سے نکال کر اپنے اندر سرایت کرجانے کا راستہ نہیں دیں گے۔ اس صورت حال میں نشاۃ الثانیہ کے کسی بھی تصور کو عملی صورت دینے کی کوشش کرتے وقت اس عالمگیر مجبوری کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، یعنی اس فکر کے حاملین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مزاحمت یا عدم قبولیت کا پیشگی ازالہ کرنے کی کوئی واضح صورت نکالیں، ورنہ دیگر تصورات کی طرح یہ تصور بھی اپنے اطلاق کے امکان کو مستقلاً گنوا بیٹھے گا۔
مسلمانوں میں نشاۃ الثانیہ کا حقیقی مقصود یہ ہے کہ آدمی اپنی بنیادوں کی طرف واپس لوٹ جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی و خوشحالی کا کوئی گزشتہ دور واپس آجائے۔ باَلفاظِ دیگر مسلمانوں میں نشاۃ الثانیہ کا ہر وہ تصور بے معنی ہے جس کا مقصود مسلم ماڈل کی نئی تشکیل کے سوا کوئی بات ہو، یعنی ہماری اصل ضرورت حضرت عمرؓ ہیں، نہ کہ ان کا دورِ حکومت۔
خود مغربی نشاۃ الثانیہ کی تحریک آدمی کی تبدیلی کی تحریک تھی جوبڑی حد تک کامیاب ہوگئی۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ انسان میں تبدیلی لائے بغیر حالات کو نہیں بدلا جا سکتا۔ ہمارا سادہ لوح دماغ اس وہم میں مبتلا ہے کہ حالات کو انتظامی، سیاسی یا معاشی طور پر بدل کے یعنی خلافتِ راشدہ جیسا نظامِ حکومت لاکر آدمی خود بخود بدل جائے گا، جب کہ بات اس کے برعکس ہے۔ آدمی بدلے گا تو حالات بدلیں گے۔ یہ بات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعی اسوۂ مبارکہ کو پیش نظر رکھ کر کہہ رہے ہیں، اور اس کے سوا انسانوں میں تجدید و احیاء وغیرہ کی جتنی کامیاب تحریکیں چلی ہیں، ان کے طریق کار سے بھی اس کے سوا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔
(احمد جاوید)
مجلس اقبال
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خِرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اس شعر میں علامہ نے مغربیت سے مرعوب افراد کو یہ مشورہ دیا ہے کہ مغرب کے زہریلے تہذیبی اثرات اور مغربی برتری کے جادو کا توڑ رومیؒ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہے۔ علامہ کے مطابق مغرب کی ذہنی غلامی کے نتیجے میں غور و فکر کی بہت سی صلاحیتیں مُردہ ہوجاتی ہیں اور انہیں جس حرارت اور سوز کی تپش سے زندہ کیا جاسکتا ہے وہ رومیؒ کے ارشادات یا رومیؒ کی محفل سے ملتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جس سے اقبال خود فیض یاب ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ تم بھی میری طرح اپنے آپ کو پیر روم کے ساتھ جوڑ لو کہ انوار و افکارِ رومی سے فیض حاصل کرکے اپنی عقل کو مغرب کی غلامی کی بیماری سے آزاد کرسکو۔