بانیِ پاکستان، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، جس کا ایک حصہ آج بھی دشمن کے قبضے میں ہے۔ یہ بابائے قوم کی بصیرت تھی کہ انہوں نے جسم کی حفاظت کی خاطر اس کی شہ رگ کو ہر صورت دشمن کے قبضے سے چھڑا کر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو یقینی اور محفوظ بنانے کے لیے کشمیر بزور شمشیر کی حکمتِ عملی اختیار کرنے میں دیر نہیں لگائی، حالانکہ پاکستان اُس وقت ابھی خود نومولود ریاست تھا اور بے شمار مادی و افرادی مسائل سے دوچار تھا، وسائل نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں تھی، تاہم یہ جذبۂ جہاد کی برکت تھی کہ مجاہدین کشمیر کا اچھا خاصا حصہ دشمن سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے، مگر پھر بوجوہ جہاد روک دیا گیا اور ہم استعمار کے آلۂ کار اقوام متحدہ نامی ادارے میں کیے گئے وعدوں کے فریب میں آگئے۔ پوری دنیا کے سامنے ایک نہیں کئی بار ہم سے یہ وعدے کیے گئے کہ کشمیر کے باشندوں کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ استصوابِ رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں یا بھارت سے… مگر ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘ کے مصداق کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینے کی اقوام متحدہ اور اُس کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پون صدی مکمل ہونے کو ہے، وادیِ کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہنوز پنجۂ ہنود میں جکڑی ہوئی ہے اور اس سے مسلسل لہو ٹپک رہا ہے، بھارت کی آٹھ لاکھ کے قریب مسلح افواج نے بندوق کی نالی کے زور پر غیر قانونی طور پر ظلم اور جبر کے ذریعے وادیِ کشمیر پر اپنا تسلط جما رکھا ہے، اور خطۂ کشمیر طویل عرصے سے ایک بڑی اور کھلی جیل کا روپ دھارے ہوئے ہے۔
ڈھائی برس قبل 5 اگست 2019ء کو بھارت میں بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کردیا اور آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا، کشمیری عوام کے احتجاج کے پیش نظر پوری وادی فوج کے محاصرے میں دے دی گئی، تمام کشمیری قیادت کو نظربند کردیا گیا۔ اس وقت بھی وہاں عوام کی زندگی اجیرن ہے، وہ تمام انسانی حقوق اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور طویل عرصے سے فوجی محاصرے کی حالت میں ہیں۔ جرأت و استقامت اور عزیمت کے کوہِ گراں کشمیری قائد سید علی گیلانی اور اُن کے جانشین اشرف صحرائی اسی دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے، داعیِ اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں مگر کشمیری آج بھی فوجی سنگینوں کے سائے تلے عقوبت خانے میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف عالمی اداروں کی جانب سے اکثر کشمیر کی اس ناگفتہ بہ صورتِ حال، بھارتی مسلح افواج کے کشمیری باشندوں پر ظلم و ستم اور غیر انسانی سلوک سے متعلق تحقیقاتی رپورٹیں منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن کا ایک جانب اگر بھارتی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ نہایت ڈھٹائی سے اپنا ظالمانہ طرزعمل جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے بھی زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں۔ وہ بھارتی مظالم کی زبانی مذمت تو کرتے ہیں مگر اس ظلم و ستم کی روک تھام اور خاتمے کے لیے کوئی عملی قدم بھارت کے خلاف اٹھانے اور اقتصادی و سفارتی پابندیاں عائد کرنے پر تیار نہیں، حالانکہ ان سے کہیں کم تر سطح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر بہانہ تراشیوں کے ذریعے پاکستان، ترکی اور ایران جیسے مسلم ممالک کے خلاف مختلف النوع پابندیاں عائد کرنے میں یہ ادارے بالکل تاخیر نہیں کرتے… تاہم افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں، حتیٰ کہ خود پاکستان کے حکمران اور مقتدر قوتیں بھی کشمیری مسلمانوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لیے کسی مؤثر عملی اقدام سے گریزاں ہیں۔ پاکستانی عوام البتہ اپنی شہ رگ میں آباد کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کے اظہار میں کبھی پیچھے نہیں رہے، خصوصاً پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی‘‘ منانے کا جو سلسلہ 1990ء میں اُس وقت کے مجاہد صفت امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع کیا گیا تھا، وہ گزشتہ بتیس برس سے جاری ہے جو یقیناً غنیمت اور قابلِ قدر روایت ہے کہ اہلِ پاکستان اس طرح اپنے کشمیری بھائیوں کو دامے، درمے اور سخنے اپنی ہر طرح کی مدد و حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ دوسری جانب سارے معاملے کا یہ پہلو نہایت حوصلہ افزا ہے کہ ہر طرح کے ظلم و ستم اور جبر کے ہتھکنڈوں، اور عالمی برادری کے حوصلہ شکن رویوں کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے جذبۂ حریت اور تحریکِ مزاحمت کو ختم کیا جا سکا ہے نہ سرد… وہ اپنے رب کی تائید کے سہارے اپنی جدوجہدِ آزادی مسلسل اور مستقل مزاجی سے اس عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ع
کیا غم ہے جو ساری خدائی بھی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
(حامد ریاض ڈوگر)