امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم ہیلپنگ ہینڈ کے پاکستان کے صدر محمد سلیم منصوری کا خصوصی انٹرویو
محمد سلیم منصوری، پاکستان کے سماجی اور خدمت کے شعبے میں ایک باوقار اور ممتاز نام ہے۔ انہیں انسان دوستی اور چیریٹی مینجمنٹ کے شعبے میں سول سوسائٹی کی پیشہ ورانہ قابلیت کی حامل تجربہ کار شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ورسٹائل پرسنیلٹی کی حامل شخصیت کے طور پر علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔ انہیں ایمرجنسی، ریلیف اور ترقیاتی پروجیکٹس کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نگرانی کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ محمد سلیم منصوری نے ابتدائی تعلیم سانگھڑ، سندھ سے حاصل کی۔ اقتصادیات میں بیچلر ڈگری مکمل کرنے کے بعد 1990ء میں یونیورسٹی آف پنجاب، لاہور سے ایجوکیشن کے شعبے میں ماسٹر کیا۔ 1992ء میں ملک کی اسی معروف جامعہ سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں اپنی ماسٹر کی دوسری ڈگری بھی پوری کی۔ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے کیا۔ بعد ازاں مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں درس و تدریس اور مینجمنٹ کے شعبوں سے منسلک رہے۔ محمد سلیم منصوری گزشتہ 18برس سے سماجی شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے 2009ء میں ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ پاکستان میں ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ کوآرڈی نیشن کے طور پر اپنی سماجی خدمات کا آغاز کیا۔ بطور ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ کوآرڈی نیشن اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیلپنگ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز مانسہرہ میں تنظیم کے نظام اور طریقہ کار کو بہتر بنانے میں اپنی خداداد صلاحیتیں صرف کیں۔ عالمی فلاحی تنظیم ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ کے ملک گیر پروجیکٹس کی سرپرستی، ایک وقت میں متعدد امور کو سنبھالنا، اور 2018ء سے بطور کنٹری ڈائریکٹر ہیلپنگ ہینڈ پاکستان کے 82 اضلاع میں پھیلے وسیع کام کو عمدہ انداز میں سرانجام دینا ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلا تمیز رنگ و نسل تعلیم، صحت، یوتھ ڈویلپمنٹ، بلاسود قرض، یتیم اور معذور بچوں کی کفالت سمیت بارہ مختلف پروگراموں کے ذریعے ملک گیر سطح پر اب تک لاکھوں افراد کو امداد فراہم کی جا چکی ہے۔ محمد سلیم منصوری پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود اور انہیں پسماندگی سے نکالنے کے لیے عالمی سطح پر فلاح و بہبود کے شعبے سے منسلک کئی سماجی و فلاحی اداروں کا بھی حصہ ہیں۔ اسی تناظر میں ہم نے ان کا خصوصی انٹرویو کیا ہے جو نذرِ قارئین ہے۔
سوال: پاکستان میں ہیلپنگ ہینڈ کی فلاحی سرگرمیوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: امریکہ میں مقیم دردِ دل رکھنے والے پاکستانی وطنِ عزیز میں غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ انھی پُرعزم پاکستانیوں کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں غربت ختم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ امریکہ میں مقیم انھی پاکستانیوں کی ایک عالمی فلاحی تنظیم ہے جو اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے 74 اضلاع میں ضرورت مند اور بے سہارا افراد کی خدمت کررہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ فلاح و بہبودکا یہ سفر دنیا کے 18 دیگر ممالک میں مستقل طور پر جاری ہے، جبکہ زلزلے اور اس جیسی دیگر قدرتی آفات کے بعد 54 ممالک میں ایمرجنسی ریلیف کا کام کیا جارہا ہے۔ 2020ء میں ہیلپنگ ہینڈ نے اپنی خدمات کی عمدہ انداز میں فراہمی کے پندرہ سال مکمل کرلیے ہیں۔ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں غیرسرکاری سطح پر فلاحی و سماجی تنظیمیں خدمتِ خلق کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ طویل عرصے سے جن پروگراموں پر کام کررہی ہے ان میں یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام، معذور افراد کی جامع بحالی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ایمرجنسی ریلیف، ان کائنڈ ڈونیشن، تعلیمی معاونت، معذور بچوں کی جامع بحالی، اسکلز ڈویلپمنٹ، ہیلتھ کیئر پروگرام کے علاوہ بلا سود قرضوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ کے تحت ’’وزیراعظم پاکستان کی بلا سود قرض اسکیم‘‘ کو آزادکشمیر، بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے چار اضلاع میں عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے بلاسود قرض کی فراہمی کے پروگرام سے ہر ماہ ہزاروں افراد مستفید ہورہے ہیں۔ 2020ء میں ہیلپنگ ہینڈ کے تحت 82 اضلاع میں 700 پراجیکٹ مکمل کیے گئے جس سے 27 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔
سوال: پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت اور ان کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے آپ نے کیا کاوشیںکی ہیں؟
جواب: والدین کی شفقت سے محروم بچے صاف دل، حساس طبیعت اورگہرے احساسات کے ساتھ زمین پر پائی جانے والی سب سے معصوم روحیں ہیں۔ اسلام میں ایسے یتیم بچے کی کفالت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے جو اپنے گھر، معاشرے اور خاندانی ماحول میں ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے سخت محنت کررہا ہو۔ محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں بیالیس لاکھ کے قریب ایسے یتیم پائے جاتے ہیں جن کے سر سے والد یا دونوں والدین کا سایہ اٹھ چکا ہے۔ پاکستان میں دردِ دل رکھنے والے ہزاروں افراد اس وقت یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اُن افراد کی ہے جو ان یتیم بچوں کی انفرادی حیثیت میں مدد کرتے ہیں۔ ان میں صاحب ِخیر افراد کی کثیر تعداد شامل ہے، لیکن سب سے بڑا طبقہ یتیم بچوں کے والدین کے خاندان کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کئی سماجی ادارے بھی یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ کا منفرد پروگرام یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام ہے۔ یتیم بچوں کی زندگیوں میں قابلِ ذکر تبدیلی کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور اعلیٰ تعلیم تک معاونت اس پروگرام میں شامل ہے۔ اس پروگرام کے تحت قدرتی آفات سے متاثر سندھ کے دس اضلاع، پنجاب کے بارہ، بلوچستان کے چھے، خیبر پختون خوا کے آٹھ، آزاد کشمیرکے پانچ، اورگلگت بلتستان کے ایک ضلع کا انتخاب کیاگیا ہے۔ منتخب علاقوں میں یتیم بچوں کی زندگی میں بہتری لانا اور انہیں عام بچوں کے برابر مواقع فراہم کرنا اس پروگرام کا بنیادی مقصد ہے۔ والدین کے سائے سے محروم بچوں کی معاونت کا ماڈل پاکستان بھر میں اپنی انفرادیت کے حوالے سے مقبول ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد بچوں کی نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی نشوونما کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ڈالی گئی ہے، جس کے تحت بچوں کو تعلیم، صحت، خوراک کی سہولیات، شخصیت کی تعمیر اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا تصور ان کے گھر، ماحول اور خاندان میں رہتے ہوئے دیا جائے۔ اس پروگرام کے زیرانتظام پاکستان بھر میں 43 اضلاع کے 9,000 بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہیلپنگ ہینڈ سرانجام دے رہی ہے۔ آرفن سپورٹ پروگرام کے زیرانتظام تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے، جس کے ذریعے وہ صاف ستھرا یونیفارم خریدنے، فیس کی ادائی اور دیگر بنیادی تعلیمی ضروریات کو بروقت پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ نئے سال کے تحفے کے طور پر ’’اسکول بیگ‘‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ سال کے بہترین طالب علم کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ خوراک کی مد میں ہیلپنگ ہینڈ رجسٹرڈ بچوں کے خاندانوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔ شائننگ اسٹارز سمر کیمپس، بچوں کے رسائل، بین الاقوامی ایام، لیڈرشپ کیمپس، شجر کاری، صحت و صفائی اور دیگر مہمات، تقریری و تحریری مقابلے اور اسپورٹس فیسٹیول جیسی تعمیری اور مثبت سرگرمیوں کے ذریعے ان بچوں کی شخصیت کی تعمیر کی جاتی ہے۔ بچوں کی حساسیت سے آگاہی کی خاطر ان ہی بچوں کے اساتذہ کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ان اساتذہ کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی سرپرستی، ان کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس انداز میں بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ آرفن سپورٹ پروگرام ان بچوں کو میٹرک تک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں معاونت کے لیے ہیلپنگ ہینڈ کا ایجوکیشن سپورٹ پروگرام ان طلبہ و طالبات کو اسکالرشپ فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ضرورت مند اور حق دار طلبہ وطالبات کو میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم تک تعلیمی وظائف دئیے جاتے ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ کے تعاون سے ہر سال کئی طلبہ میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس، مینجمنٹ اور سوشل سائنسز کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے اپنے گھرانوں کا سہارا بن رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر درد ِدل رکھنے والے مخیر افراد اور ہیلپنگ ہینڈ جیسے ادارے نہ ہوتے تو یقیناً ان باہمت، محنتی اور باصلاحیت طلبہ و طالبات کے خواب ادھورے رہ جاتے، کوئی انجینئر نہ بن پاتا، اور ڈاکٹر بننے کے خواب میٹرک کے امتحانات تک بھی نہ پہنچ پاتے۔ ایدھی، ہیلپنگ ہینڈ، الخدمت فائونڈیشن، ریڈ فائونڈیشن، سویٹ ہوم، انجمن فیض الاسلام، آرفن ان نیڈ، اسلامک ریلیف، ہیومن اپیل، مسلم ہینڈاور فلاح و بہبود کے کام کرنے والے دوسرے افراد ہوں یا ادارے… یقیناً ہمارے لیے رول ماڈل بھی ہیں اور پاکستان کا فخر بھی۔ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں خوشحال اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان قابل، محنتی اور باہمت بچوں کا دست و بازو بننے کی ضرورت ہے۔ آپ ان فلاحی اداروں کے ذریعے بھی یہ فلاحی کام سرانجام دے سکتے ہیں اور انفرادی طور پر بھی اپنے گردونواح میں مستحق افراد کی معاونت کرکے اس کارِ خیر میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ دل میں بچپن سے ہی اعلیٰ تعلیم کی جوت جگا ئے ان ہونہاراور قابل نوجوانوں کی راہ میں بچھے مالی مشکلات کے کانٹوں کو ہٹانا مال دار اور صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر فرض بھی ہے، کیونکہ یہ مال و دولت ان کے پاس اللہ کی امانت ہے۔اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے کئی نوجوانوں کا مقدر بدل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ قیامت کے دن قربِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضمانت بھی ہے۔
سوال: ہیلپنگ ہینڈ نے پاکستان میں معذور افراد کی بحالی کے لیے خاصا کام کیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیے؟
جواب: ہیلپنگ ہینڈ نے 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد معذور افراد کی بحالی کے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے معذور افراد کی جامع بحالی کے اسپتالوں کی بنیاد رکھی گئی جو اَب بھی معذور افراد کی بحالی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ کا معذور افرادکی جامع بحالی کا پروگرام ضرورت مند اور معاشرے کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے مریضوں کی بحالی کے لیے خدمات فراہم کررہا ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ کے اس شعبے کے تحت مانسہرہ، شہید بے نظیر آباد، کوئٹہ، دیر اور چکوال میں جامع بحالی کے مراکز دکھی انسانیت کی خدمت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں قائم یہ مراکز جہاں معذور افراد کو خدمات فراہم کرتے ہیں، وہیں بارہ سو معذور بچوں کی جامع بحالی کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے علاقے مانسہرہ میں ایک عالمی معیارکا جسمانی بحالی کا کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مریضوں کو انتہائی کم قیمت پر فزیوتھراپی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پیشہ ورانہ علاج کے ساتھ معاون آلات اورمصنوعی اعضاء بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس سینٹر نے حالیہ عرصے میں معذور افرادکی بحالی میں حیرت انگیزنتائج حاصل کیے ہیں۔ پروگرام کے تحت ہیلپنگ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز بھی قائم کیاگیاہے جس کا مقصد تعلیم یافتہ اور اہل افرادکومعاشرے کا حصہ بنانا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ طلبہ وطالبات کو جسمانی بحالی کے تمام مراحل کے بارے میں عملی تربیت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ جغرافیائی حدود اور ثقافتی فریم ورک میں رہتے ہوئے عام طور پر ملک بھر میں، جبکہ خصوصی طور پر قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں ہر قسم کے پیدائشی وحادثاتی اور ذہنی وجسمانی طور پر معذور افرادکو علاج، بحالی اور تعلیم وتربیت کی فراہمی اس شعبے کا بنیادی مقصد ہے۔ ہرقسم کی پیدائشی وحادثاتی، ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا افراد کی سماجی، جسمانی، پیشہ ورانہ بحالی کے لیے سستی لیکن عالمی معیار کی سہولیات فراہم کرنا، میڈیکل کے اس جدید دور میں بری طرح نظرانداز کیے گئے معذور افراد کے لیے تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرنا، اور معذور افراد کے علاج و بحالی، یا اُن کے خاندان کی مددکرنے کے نئے طریقے اختیارکرنا اور غربت کے خاتمے کے لیے منتخب افراد کی امداد کرنا جامع بحالی کے پروگرام کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ مذکورہ مقاصد کی تکمیل کے لیے مانسہرہ میں جامع بحالی کے عالی شان مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس میں باصلاحیت اور اہل تعلیم یافتہ عملے کے ذریعے طبی و تدریسی سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں۔ سینٹر میں فزیو تھراپی، پیشہ ورانہ تھراپی اور مصنوعی اعضاء کی فراہمی کی جارہی ہے، جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز میں پیرا میڈیکل ڈپلومہ کورسز اورڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرام کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ ایک خواب تھا جو شرمندۂ تعبیر ہوا۔ ہیلپنگ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے الحاق شدہ ایک کالج ہے، جو پانچ سالہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرام اور دو سالہ ڈپلومہ کورسز (فزیو تھراپی، ریڈیالوجی، ہیلتھ ٹیکنالوجی، لیب ٹیکنالوجی، ڈینٹل ٹیکنالوجی)کا انعقاد کررہا ہے جو صوبائی حکومت اور نیوٹیک سے رجسٹرڈ ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز مانسہرہ اور اردگرد کے لوگوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ یہاں ہڈی، جوڑ اور پٹھوں سے منسلک تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس ادارے کی تمام سہولیات ہر خاص و عام کے لیے مفت تھیں۔ اب بھی نادار اور غریب افراد کے لیے تمام سہولیات ان کی مالی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے فراہم کی جاتی ہیں۔ جو بھی شخص اس ادارے میں داخل ہوجاتا ہے خواہ اس کے پاس علاج کے لیے رقم ہے یا نہیں، وہ اہم ہوجاتا ہے، اور ہیلپنگ ہینڈ کا عملہ رنگ، نسل، قبیلے، قومیت، مذہب کے فرق سے بالاتر ہوکر ہر وقت ہر طرح کی مدد کے لیے تیار رہتا ہے۔ مانسہرہ میں فروری 2006ء میں قائم ہونے والا ایک چھوٹاسا ری ہیب سینٹر آج شاہراہ قراقرم پر ایک عالی شان کمپلیکس کی صورت میں کھڑا اپنی تابناک کرنوں سے علاقے بھر کو منور کررہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کمپلیکس تعلیم و تدریس اور فزیکل ری ہیبلی ٹیشن کے شعبے پر مشتمل ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد تین سال تک زلزلہ متاثرین کی جسمانی بحالی کا کام جاری رہا، سال 2009ء میں ادارے نے علاقے میں میڈیکل کے شعبے سے منسلک ہنرمند افراد کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے پانچ بنیادی شعبہ جات میڈیکل، فزیوتھراپی، ڈینٹل، لیب پیتھالوجی اور ریڈیالوجی ٹیکنالوجیز میں دو سالہ ڈپلومہ پروگرام کا آغاز کیا، جس میں میٹرک سائنس میں 50 فی صد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات داخلہ لے سکتے ہیں۔ اس شعبے کی خاص خوبی یہ ہے کہ ڈپلومہ حاصل کرنے والے بیشتر افراد محکمہ صحت میں نوکری حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نجی کلینکس میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ بہترین روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ فزیکل ری ہیبلی ٹیشن کے شعبے کے تحت ہڈی، جوڑ اور پٹھوں سے منسلک تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے چار ذیلی شعبہ جات ہیں۔ فزیکل تھراپی کے تحت ادویہ کے استعمال کے بغیر فقط ایکسر سائز کی مدد سے فالج، لقوہ، پولیو، گٹھیا، جوڑوں کے درد، عرق النساء، ٹیڑھے پاؤں، آپریشن کے بعد پٹھوں کی اکڑاہٹ اور پٹھوں کی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔ آکوپیشنل تھراپی کے شعبے کے تحت پیدائشی طور پر یا پیدائش کے پہلے پانچ سالوں میں کسی بیماری کی وجہ سے کچھ بچوں میں نقائص رہ جاتے ہیں جیسے جسمانی کمزوری، دماغی کمزوری، گردن کا کنٹرول نہ ہونا، کھڑے ہونے اور چلنے میں دشواری، پٹھوں کا کھچاؤ یا پٹھوں کا ڈھیلا پن، چھوٹے یا بڑے سر والے بچے اور جسم کے کسی حصے کا کمزور ہوجانا جیسے امراض کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی ان کمزوریوں پر قابو پاکر بغیر کسی سہارے کے اپنے روزمرہ کے کام کاج کرسکیں۔ اب تک اس ادارے سے 32 ہزار سے زائد معذور افراد مستفید ہوچکے ہیں۔ آرتھوٹکس کے شعبے کے تحت ایسے افراد جن کے بظاہر تمام اعضاء پورے ہوں لیکن کسی نقص کی وجہ سے کمزور ہوں یا ٹیڑھے ہوں، تو وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے تمام افراد کو مصنوعی سہاروں کی مدد سے اس قابل کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ان کمزوریوں پر قابو پاکر بغیر کسی سہارے کے زندگی کی دوڑ میں دوسروں کا مقابلہ کرسکیں۔ ایسے افراد کو جن کے اعضاء یا کوئی عضو پیدائشی طور پر نہ ہو یا کسی حادثے کی صورت میں کٹ گیا ہو، پراس تھیٹکس کے شعبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی سے بنائے گئے مصنوعی اعضاء (جو انگلی کی ایک پور سے لے کر مکمل ٹانگ اور بازو تک ہوتے ہیں) لگائے جاتے ہیں۔ لینگویج پیتھالوجی کاشعبہ بولنے میں دشواری رکھنے والے افراد کے لیے بنایا گیا ہے۔