مہمانِ عزیز سے عرض کیا: ’’حضرت! ہاتھ کیوں روک لیا؟ دسترخوان پر سب کچھ تو جوں کا توں دھرا ہے‘‘۔
مہمان کا تعلق صوبہ پنجاب کے ایک دُور اُفتادہ گائوں سے تھا۔ مختصر جواب دیا: ’’پُرباش!‘‘
جواب سُن کر بڑی حیرت ہوئی۔ پوچھا: ’’کیا آپ کے گاؤں میں فارسی بولی جاتی ہے؟‘‘
فرمایا: ’’جی ہاں! اتنی فارسی تو ہمارا پورا گاؤں بول لیتا ہے۔ مگر اس فقرے کو ہم فارسی کا نہیں، پنجابی کا سمجھ کر بولتے ہیں‘‘۔
لیجیے صاحب! قومی زبان ہی میں نہیں، دیگر پاکستانی زبانوں میں بھی فارسی محاورے خوب استعمال ہورہے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ اس خطے کی سب ہی زبانیں ’ہم شیر‘ زبانیں ہیں۔ ’پُر‘ کا مطلب ہے بھرا ہوا یا بھرجانا۔ ’باش‘ ہونے یا رہنے کو کہتے ہیں۔ ’شاد باش‘ کا مطلب ہے خوش رہو۔ یہی کلمہ کثرتِ استعمال سے ’شاباش‘ ہوگیا ہے۔ ’مُشتری ہُشیار باش‘ کا اشتہار اب بھی عام ہے۔ اس کا مطلب ہے: ’خریدار ہُشیار رہے‘۔ یہ محاورہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے یا ایسا اشتہار اُس صورت میں دیا جاتا ہے جب خریدار کے دھوکا کھا جانے کا اندیشہ ہو۔ ’باش‘ ہی سے لفظ باشندہ بنا ہے۔ ’باشندہ‘ کسی جگہ کے رہنے والے کو کہتے ہیں۔ ’پُرباش‘ پنجاب میں ایسے موقع پر کہا جاتا ہے، جب پیٹ بھر گیا ہو۔ نیت چاہے بھری ہو یا نہ بھری ہو۔ لطیفہ مشہور ہے کہ پہلوان جی کو کھانے سے ہاتھ روکتے دیکھ کر میزبان نے پوچھا: ’’پُرباش؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں، ابھی نہیں۔ بس ذرا تھک گیا ہوں‘‘۔
’’لیفٹ، رائٹ – لیفٹ، رائٹ‘‘ کرتے ہوئے انگریزی پریڈ کرنے کے بجائے اہلِ پنجاب ’تنظیمِ عسکری میں ملائے ہوئے قدم‘ بہت عرصے تک ’چَپ، راست- چَپ، راست‘ کہتے اور قواعد کرتے رہے۔ ’چَپ‘ فارسی میں بائیں کو کہتے ہیں اور ’راست‘ دائیں کو۔ یہی نہیں، کئی اور بھی فارسی محاورے پنجابی زبان میں بڑی بے تکلفی سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اپنے عسکری شہر جہلم والے سید ضمیر ؔجعفری اپنی ایک نظم میں ایک محفلِ قوالی کا بہت دلچسپ نقشہ کھینچتے ہیں۔ اس قہقہہ بار نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے:
ایک دوہے کی ’دُوئی‘ سَو بار دُہرائی گئی
لَے کبھی چھوڑی، کبھی پکڑی، کبھی کھائی گئی
فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی
شیخ سعدیؔ کی غزل دُرگا میں دُرگائی گئی
سوہنی جس موج میں ڈوبی وہ جوئے شیر تھی
مََحمِلِ لیلیٰ کو اُلٹایا تو اندر ہیر تھی
شیریں فرہاد کا قصہ تو ایران کا ہے۔ مگر ’جُوئے شیر‘ لانا اُردو میں بھی کسی کٹھن، مشکل یا ناممکن کام کے لیے محاورتاً بولا جاتا ہے۔ ’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘۔ صبح صبح کوئی مہمانِ حسیں آجائے تو جی خوش ہوجاتا ہے۔ ابوظفر زین ؔ مرحوم کہا کرتے تھے: ’’مہمان ہر طرح سے خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ کسی کے آنے سے خوشی ہوتی ہے اور کسی کے جانے سے‘‘۔ آنے والے مہمان کا استقبال ہمارے ہاں مکمل فارسی فقرے سے کیا جاتا ہے: ’خوش آمدید‘۔ اکثر مقامات پر اور بیش تر تقریبات میں یہ جگمگاتا فقرہ تحریری استقبال کرتا نظر آتا ہے۔ ’آمدم‘ کا مطلب: میں آتا ہوں، ’آمدی‘ کا مطلب: تو آتا ہے، اور ’آمدید‘کا مطلب: آپ آتے ہیں۔ مفہوم یہ بنتا ہے: ’آپ کا آنا خوش گوار ہوا‘۔ ’آمدند‘ کا مطلب ہے: ’وہ سب آتے ہیں‘۔ سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ نے جب دریائے دجلہ میں اپنی فوج گھوڑوں سمیت ڈال دی اورفوجی ترتیب بگاڑے بغیر گھوڑے دوڑاتے ہوئے، تُند و تیز دریا کے پار اُترگئے تو ایرانی فوج ’’دیوان آمدند، دیوان آمدند‘‘ (دیو آگئے، دیو آگئے) کہتی ہوئی بھاگ کھڑی ہوئی۔ایران میں طویل عرصے تک مسلمانوں کو ’دیوان‘ کہا جاتا رہا ( دیو کی جمع:دیوان)۔ ایرانی مسلمانوں کا ایک خاندان اب بھی ’دیوان‘ کہلاتا ہے۔ اس خاندان کے افراد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔
اگر اتفاقاً کوئی دیو آپ کے سامنے اچانک آجائے تو اُس کو دیکھتے ہی آپ کی جو حالت ہوجائے گی، آپ سے جو حرکتیں سرزد ہوں گی، اور آپ کے منہ سے جیسے الفاظ برآمد ہوں گے اگر ویسی ہی کیفیت کسی پر مستقل طاری رہے تو ایسے شخص کو ’دیوانہ‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’دیوانہ را ہُوئے بس است‘۔ دیوانے کو بس ایک دفعہ ہُو کردینا کافی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ دیر تک ہُو ہُو کرتے رہیں۔ ایک دفعہ ہُو کردینے کے بعد آپ کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب جو بھی کرنا ہوگا، دیوانہ ہی کرے گا۔ ہاں، ہوسکتا ہے کہ آپ کو وہاں سے دوڑ لگانا پڑ جائے۔ یہ محاورہ (’دیوانہ را ہُوئے بس است‘) ایسے موقع پر بولتے ہیں جب کسی کو کسی کام پر اُکسانے کے لیے بس چھیڑ دینا کافی ہو۔ اپنے چچا غالبؔ تو خود لوگوں کو دعوت دیا کرتے تھے:
پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
پھر جو ہونا ہے، ہو۔اس کے لیے بھی ایک فارسی محاورہ اُردو میں رائج ہے: ’ہر چہ بادا باد‘۔مومنؔ کا مشہور شعر ہے:
بت کدہ جنت ہے چلیے بے ہراس
لب پہ مومن ہر چہ بادا باد کیا
’ہر چہ باداباد‘ ایسے موقع پر استعمال کرتے ہیں جب کسی خطرے کا خوف بھی ہو اور بے خوفی کا اظہار بھی مقصود ہو کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ خطرے کا خوف تو کہیں بھی اور کوئی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’نیم حکیم خطرۂ جان، نیم مُلّا خطرۂ ایمان‘۔ ہم نے کبھی حکیموں اور مُلّاؤں کے آگے کسی کو یہ محاورہ بکنے کی جرأت کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ کسی اور شعبے کا کوئی اناڑی شخص کوئی کام بگاڑ بیٹھے تو یہی محاورہ بول کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ اگر اس موقع پر کوئی اور شخص جس کو خود بھی کوئی کام آتا جاتا نہ ہو، کام بگاڑنے والے شخص کو نصیحتیں کرنے بیٹھ جائے تو یہ محاورہ کام آتا ہے: ’خود را فضیحت، دیگراں را نصیحت‘۔ ’فضیحت کرنا‘ اُردو میں تو کسی کو بُرا بھلا کہنے کے معنوں میں آتا ہے، مگر فارسی میں فضیحت کا مطلب بدنامی اور رُسوائی ہے۔ یہ محاورہ اُس وقت بولتے ہیںجب کوئی شخص جس کے اپنے کرتوت بھلے نہ ہوں، دوسروں کو بھلائی کی تلقین کررہا ہو۔ یہ وہی بات ہے جو سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 44میں آئی ہے:
’’تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟‘‘
دوسروں کو تلقین کرنے کا رواج سماجی ذرائع ابلاغ پر زیادہ ہے۔ یہاں جو بھی آتا ہے ناصح بن جاتا ہے: ’ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شُد‘۔ نمک کی کان میں جو چیز چلی جائے، کچھ دنوں میں اُس پر بھی نمک چڑھ جاتا ہے۔کوئی ایمان دار، دیانت دار اور شریف آدمی پولیس یا کسٹم یا ٹیکس وصول کرنے کے محکمے میںجاکر ’اُسی رنگ میں‘ رنگ جائے تو یہی محاورہ بولا جاتا ہے۔ ویسے اگر کوئی شخص ان محکموں میں رہ کر بھی ایمان دار، دیانت دار اور شریف رہنا چاہے تو وہ اپنے جیسے لوگ تلاش کرکے ان سے میل جول بڑھا لیتا ہے، کیوں کہ ’کُند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر، باز با باز‘۔ پرندے ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔ کبوتر کبوتروں کے ساتھ اُڑتا ہے اور باز، بازوں کے ساتھ۔ فارسی میں ’باز‘ کا ایک مطلب’کھلا ہوا‘ اور ایک مطلب ’دوبارہ‘ بھی ہے۔ اب کہ جب ہم آپ سے رخصت ہوا چاہتے ہیں، آپ ہمیں دُعا دے سکتے ہیں کہ ’بسلامت رَوی و باز آئی‘۔ سلامتی کے ساتھ جاؤ اور دوبارہ آؤ۔ کیوں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم دوبارہ آجانے سے باز نہیں آئیں گے۔