قائداعظم پر معدوم ہوتے ہوئے ادب اور تحریکِ پاکستان اور مسلمانوں کی تحریکِ آزادی پر یہ ایک گوناگوں افادیتوں کی حامل تصنیف ہے
قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ایک عرصے کے بعد، بلکہ ایک طویل ترین وقفے کے بعد ایک ایسی کتاب بہرحال پیشِ نظر آئی ہے جسے خوش آمدید کہنے کے لیے دل مجبور ہورہا ہے۔ ورنہ برسہا برس سے بس کسی طرح ایک خانہ پُری سی کسی طرف سے ہوتی رہی ہے، اور یوں ہوتی رہی ہے جسے اپنے موضوع پر بمشکل شمار میں بھی لانا گوارا نہ رہتا تھا! ہر طرف سے مایوسی اور افسردگی کی ایک کیفیت سی نمایاں رہی ہے کہ کیا قائداعظم کے تعلق سے کسی کتاب کی اشاعت و آمد ہو، قائداعظم کے تعلق سے کسی تقریب کی اطلاع ہو، یا 14 اگست یا 25 دسمبر کی مناسبت سے تقریبات کا کسی طرح کا کہیں کوئی اہتمام ہو، کسی حوالے سے کوئی خوش کن اور امید افزا نوید ایسی کبھی نہ ملتی کہ انسان عقیدت و محبت میں کبھی کسی میں شرکت کے لیے خود کو آمادہ کرنا چاہے اور وقت نکالنے کی بابت سوچے۔ ان حوالوں سے جامعات، قومی و سیاسی ادارے اور ان میں منعقد ہونے والی تقریبات نے شاید کبھی قائداعظم کے ذکر سے بالعموم آباد نظر آنا چھوڑ ہی دیا تھا۔ ایسے میں یہی کیفیت بالعموم ”قائداعظم اکیڈمی“ کی بھی رہی ہے کہ اس سے کیا کیا اور کیوں کوئی توقع رکھی جائے! ہر جگہ، ہر طرف ایک خاموشی اور ویرانی کی سی ہی کیفیت نمایاں رہی ہے۔ اسی کیفیت میں ایک زمانہ بیت گیا کہ برسہابرس میں بھی کوئی معقول، معیاری، عالمانہ اور محققانہ و فکرانگیز کتاب سامنے آتی نظر نہیں آتی۔ آئے بھی کیسے؟ اب وہ افراد ملک و معاشرے میں نظر نہیں آتے، یا ہمارے متعلقہ ادارے بھی دراصل بانجھ ہی ہوچکے ہیں جو کبھی عمدہ مطالعات و تحقیقات میں منہمک رہتے اور بلند معیار مطالعات اور تحقیقات کی اپنی سی کوششیں کرکے قوم و ملک کے مزید مطالعات کے لیے معاون کتب و مآخذ اور ضروری مواد فراہم کرنے کی کوششیں کیا کرتے تھے اور کبھی خاصے کامیاب بھی رہتے تھے۔ لیکن یہ سب اب عہدِ ماضی کی فراموش ہوتی داستانیں ہیں کہ ایسے میں اگر کوئی مختلف و منفرد، مفید اور کارآمد کتاب یا ماخذ کوئی مصنف یا مرتب پیش کردے تو ہر جانب بے حد خوشی کا ردعمل دکھائی دیتا رہا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں خواجہ رضی حیدر کے مطالعات کے انتخابات پر مبنی تحریروں کو اُن کے ایک نیازمند یاسر حنیف نے نہایت اہتمام و سلیقے سے مرتب کرکے اہلِ علم اور قائداعظم کے عقیدت مندوں کے لیے استفادۂ عام کی خاطر پیش کیا ہے، اور اس تعلق سے ایک وقیع خدمت انجام دی ہے جو قائداعظم پر حالیہ متعدد تصانیف سے مختلف و مفید ہے۔
یوں دیکھیں تو قائداعظم پر سروجنی نائیڈو کی1918ء میں اوّلین تاثراتی تصنیف: Mohammad Ali Jinnah: An Ambassador of Unity یا پھر ہیکٹر بولیتھو (Hector Bolitho)کی سرسری و سادہ سی لیکن مخلصانہ کوشش کے بعد شریف المجاہد کی مبسوط و جامع اورسیر حاصل کوشش: Mohammad Ali Jinnah: Studies in Interpretation کے بعد یہ موضوع متنوع چھوٹی بڑی اور وقیع و ممتاز تصانیف کے ساتھ ساتھ دستاویزی اور حوالہ جاتی مجموعوں کی جمع و ترتیب کا دور بھی رہاہے، جو ظاہر ہے حوالہ جاتی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں اور عام قارئین کے لیے یہ کچھ خاص افادیت نہیں رکھتے۔ ان سے قطع نظر گاہے ایسی کتابیں منظرعام پر ضرور آتی رہی ہیں لیکن اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق! شاذ ہی کبھی کوئی فاضل مصنف یا محقق و دانش ور بھی اگر اس جانب توجہ دے تو اُس کے قلم سے بھی عمدہ سا کوئی کارنامہ وجود میں آجاتا ہے، لیکن ایسا کم ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن میں خود خواجہ رضی حیدر صاحب کی مساعی حالیہ عرصے میں مختلف و مثالی ہیں۔ یہ ان کے جذبے و شوق ہی کا ثمر ہے کہ انھیں ”قائداعظم اکیڈمی“ سے وابستگی اور اپنے طور پر خدمات انجام دینے کے مواقع ملتے رہے، جس کے تحت انھوں نے اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دینے کی کامیاب کوششیں کیں اور سرخ رو ہوتے رہے۔ چوں کہ ذہن و مزاج نرا تخلیقی اور تصنیفی ہے کہ ایک جانب شاعری سے بھی شغف رہا ہے اور تین شعری مجموعے تخلیق کیے، اور تخلیقی سطح پر دل نشیں ڈرامے بھی ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے اور مقبولیت حاصل کرتے رہے۔ قائداعظم اکیڈمی سے منسلک ہونے کے بعد قائداعظم کی حیات و فکر اور تحریک ان کی زندگی کا اہم جزو ہی بن گیا، اور انھوں نے قائداعظم کی زندگی کے تعلق سے اچھوتے موضوعات کو اپنا موضوع بنایا جن میں ”فاطمہ جناح“، ”رتی جناح“ اور ”دینا واڈیا“ تو ان سے اس حد تک قریب ہوئیں کہ ان کے حالات و احوال کا ذکر ان کے ساتھ یہاں پاکستان میں مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ معاصر سیاسی رہنما اور قائدین بھی ان کے موضوعاتِ دل چسپی میں شامل ہوتے رہے جن پر خواجہ صاحب نے قلم بھی اٹھایا اور کتابیں بھی تصنیف کیں۔ یوں دراصل قائداعظم کے معاصرین کا ایک مسلمہ حلقہ بھی وقتاً فوقتاً خواجہ صاحب کا موضوع بنتا رہا ہے۔ اپنی دل چسپی کے مبسوط موضوعات سے قطع نظر خواجہ صاحب نے وقتاً فوقتاً مختصر عنوانات کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے اور بعض تو نہایت اہم اور ناگزیر عنوانات کو اپنا موضوع بنایا ہے، کہ اگر وہ ان موضوعات پر قلم نہ اٹھاتے تو وہ اچھوتے رہ جاتے اور بہت سی معلومات تشنہ رہ جاتیں۔ اب یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ ان مضامین کو یاسر حنیف صاحب نے مرتب کرکے ایک دل نشیں و مفید مجموعے کی صورت دے دی ہے، جو اپنے موضوعات کے تعلق سے اپنی افادیت میں اپنی مثال آپ کہا جاسکتا ہے۔
اس کا انتساب ہی نہایت مخلصانہ اور حد درجہ پُرکشش ہے اور ہماری قومی و ملّی تاریخ کے عہدِ حال کے نمائندہ راسخ الفکر مصنفین و مؤرخین: ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، مطلوب الحسن سید، سید شریف الدین پیرزادہ، جمیل الدین احمد، شریف المجاہد، ڈاکٹر لطیف احمد شیروانی، ڈاکٹر وحید احمد جیسے اکابر تاریخ سے فاضل مصنف کی جذباتی و ذہنی وابستگی کا مظہر ہے۔ اس انتساب سے قطع نظر اس کے مشمولات بھی، بلکہ ان کی اکثریت، بے حد پُرکشش اور جاذب توجہ ہے۔ کئی مضامین جیسے: ”قائداعظم اور ماؤنٹ بیٹن پلان“، ”قائداعظم، ہیکٹر بولیتھو اور شریف المجاہد“، ”قائداعظم اور مسلم اخبارات“، ”قائداعظم کا خطاب“، ”قائداعظم کی دستاویزات“، ”قائداعظم کے خطوط“، ”قائداعظم کی جائے پیدائش: کراچی یا جھرک؟“، ”قائداعظم اور اردو بحیثیت قومی زبان“… یہ ایسے مضامین ہیں جن میں صرف عنوانات ہی سے متعلق معلومات نہیں بلکہ دیگر متنوع عنوانات پر بھی بکھری اور پھیلی ہوئی معلومات ان میں سمیٹ لی گئی ہیں، جن کے سبب یہ مجموعہ خاصا وقیع اور معلومات افزا ہوگیا ہے اور اپنے دیگر مشمولات کے سبب بھی اپنی ایک حوالہ جاتی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔
اگرچہ قائداعظم پر یہ بطور ایک معیاری تصنیف ایک عرصے کے بعد ہمارے سامنے آئی ہے، اور یہ کوئی مبسوط اور ضخیم تصنیف نہیں، مختلف و متنوع مختصر مضامین کا مجموعہ ہے، لیکن اس میں معلومات اور موضوعات اس قدر سمیٹ لیے گئے ہیں کہ متعدد عنوانات اور کتابوں کے موضوعات کا اس میں ایک طرح سے احاطہ سا نظر آتا ہے، اور اسی اعتبار سے اس کی افادیت بھی دوچند ہوگئی ہے۔ چناں چہ قائداعظم پر معدوم ہوتے ہوئے ادب اور تحریکِ پاکستان اور مسلمانوں کی تحریکِ آزادی پر یہ ایک گوناگوں افادیتوں کی حامل تصنیف ہے جسے ہر سطح پر اور ہر زمرے میں خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔ اس کی تصنیف اور اس کو بہ صورتِ ذیل مرتب و پیش کرنے پر اس کے فاضل مصنف خواجہ رضی حیدر اور اس کے مرتب یاسر حنیف مبارک باد و ستائش کے مستحق ہیں۔