موت العالِم موت العالَم پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد کی خدماتِ سیرت

برعظیم پاک و ہند کے معروف و ممتاز سیرت نگار، محقق اور مؤرخ استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد بھی 17 جنوری 2022ء کی شام اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی (علی گڑھ) کے سانحہ ارتحال کے بعد دنیائے سیرت کو پہنچنے والا یہ دوسرا بڑا نقصان ہے۔ سیرتِ طیبہﷺ کے میدان میں کام کرنے والی یہ دو ایسی عظیم شخصیات تھیں جن کا خلا جلد پُر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد 1941ء میں یو پی (بھارت) کے مشہور شہر و ضلع اٹاوہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اٹاوہ کے معروف تعلیمی ادارے ”اسلامیہ ہائی اسکول“ سے حاصل کی۔ جون 1948ء میں پاکستان آنے کے بعد پہلے ماڈل ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1956ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ اسکول کے توسط سے دیا۔ 1961ء میں بی۔ اے اسلامیہ کالج کراچی سے اور 1961ء میں ایم۔اے (اسلامی تاریخ) شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی سے فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن میں کیا۔ 1966ء میں ایم۔ اے (علوم ِ اسلامی) میں بھی فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔ 1976ء میں ”عہدِ نبویﷺ میں ریاست کا نشو و ارتقا“ کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کی سند حاصل کی، اور 1978ء میں ایل۔ایل۔بی (فرسٹ کلاس میں) کیا۔
تدریسی خدمات :
ڈاکٹر نثار احمد صاحب نے تدریس کا آغاز ماڈرن بک کالج کراچی سے کیا۔ دوسال (1960۔1961ء) بطور استاد اپنے فرائض انجام دیے۔ اکتوبر 1964ء میں بحیثیت اسسٹنٹ لیکچرار ملازمت کا آغاز شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی سے کیا۔ جامعہ کراچی میں تدریس کے دوران سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قائم کردہ ادارے معارفِ اسلامیہ میں بھی پانچ سال تحقیقی و تصنیفی خدمات انجام دیں۔ 2001ء میں بحیثیت پروفیسر و صدر شعبہ اسلامی تاریخ و رئیس کلیہ فنون و تجارت، جامعہ کراچی، ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ 2005ء سے تاحال بطور ماہر بورڈ آف اسٹڈیز، شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی خدمت انجام دے رہے تھے۔ آپ کی تدریسی خدمات 38 (1964ء۔2001ء)برسوں پر محیط ہیں۔
خدماتِ سیرت:
خاص سیرتِ طیبہ ﷺ کے موضوع پر آپ کے علمی و تحقیقی مضامین و مقالات پاک و ہند کے اہم ترین مجلات کی زینت بنتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں سیرتِ طیبہﷺ کے مختلف عنوانات پر ڈاکٹر صاحب کی پانچ وقیع اور منفرد کتابیں بھی شائع ہوئیں، جو آپ کی برسہا برس کی محنتِ شاقہ و تحقیق کا نتیجہ تھیں۔ سردست ان کتابوں کا تعارف انتہائی اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہے:
1۔ عہدِ نبویﷺ میں ریاست کا نشووارتقاء
ڈاکٹر نثار احمد کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا یہ مقالہ تاریخِ عالم میں ریاست کے اجتماعی ادارے کے آغاز اور عہدِ نبوی میں اسلامی ریاست کے نشو وارتقا پر ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعےپر مشتمل گراں قدر دستاویز ہے۔ 2008ء میں ادارہ نشریات لاہور سے اس کی اشاعت ہوئی۔ یہ مقالہ درجِ ذیل پانچ ابواب پر محیط ہے: ا۔ بعثتِ نبوی کے وقت دنیا کا سیاسی نظام، 2۔ تاسیسِ ریاست، 3۔ توسیع ِریاست، 4۔ استحکامِ ریاست، 5۔ انتظامِ ریاست۔
ڈاکٹر نثار احمد ریاست نبوی کو موضوعِ تحقیق کی حیثیت سے منتخب کرنے کی درجِ ذیل دو وجوہات بیان کرتے ہیں:
1۔ ریاستِ نبوی کے بارے میں کوئی قابل ذکر مفصل اور وقیع کام سامنے نہیں آیا۔ جہاں تک مسلمان مورخین کا تعلق ہے انھوں نے یا تو اس پہلو پر کوئی توجہ ہی نہیں دی، یا پھر زیادہ سے زیادہ واجبی ذکر سے کام لیا ہے۔ رہے مغربی علماء اور مستشرقین.. تو اوّل تو اپنے خاص تہذیبی پس منظر، نیز اسلام، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے بارے میں مخصوص زاویہ نظر کی بدولت اس موضوع پر ان کا مطالعہ بھی معروضی، فراخ دلانہ اور مکمل نہیں۔
2۔ جدید مسلمان مورخین میں سے علامہ شبلی، سید سلیمان ندوی، (سیرت النبیؐ)، حامد الانصاری غازی (اسلام کا نظام حکومت)، اور ڈاکٹر حمیداللہ (عہدِ نبوی ؐمیں نظام حکمرانی، رسولؐ اللہ کی سیاسی زندگی) وغیرہ نے ریاست ِنبوی کے بعض پہلوئوں پرقلم اٹھایا۔ ان فضلاء میں بطور خاص ڈاکٹر حمیداللہ نے چند مسائل پر بلاشبہ محققانہ اور سیر حاصل بحث کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام حضرات کی کاوشیں انتہائی وقیع اور قابل قدر ہونے کے باوجود ریاستِ نبوی کے تمام پہلوئوں پر محیط نہیں۔ اس لیے یہ ضرورت سمجھی گئی کہ ریاستِ نبوی کی تاسیس، اس کے نشوو ارتقا اور دیگر پہلوئوں پر سیر حاصل بحث کی جائے اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں امتیازات اور مقام و مرتبے کا تعین کیا جائے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر نثار احمد نے ایک جانب ان تمام کتابوں سے استفادہ کیا جو انھیں دستیاب ہوسکیں، اور دوسری جانب یہ کوشش رہی کہ اس مطالعے کو اسلامی تاریخ کے اہم اور قدیم ترین مآخذ کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ ریاست کی قدر و قیمت متعین کرنے میں جدید مصنفین اور اُن کی تصانیف کو بھی سامنے رکھا، لیکن اپنی بحث کا تمام تر دارو مدار قرآن اور احادیث ِنبوی پر رکھا ہے۔
اس مقالے کی نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر اس میں مختلف نقشہ جات، بہت محنت سے تیار کرائے۔ اس اہم تحقیقی مقالے کا ایک جامع اشاریہ بھی فراہم کیا۔ مقالے کے آخر میں کتابیات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل محقق نے اپنے موضوع سے انصاف کرنے کے لیے کس قدر ہمہ گیر اور معیاری مصادر و مراجع سے استفادہ کیا ہے۔
2۔ نقشِ سیرت
”نقشِ سیرت“ کے عنوان سے سیرت کے مختلف موضوعات پر علمی، تحقیقی مضامین کا یہ مجموعہ 1968ء میں ادارہ نقشِ تحریر (کراچی) سے شائع ہوا۔2021ء میں اس کی اشاعتِ ثانی مع اضافوں کے ادارہ قرطاس (کراچی) سے عمل میں آئی۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام غزوات کو ایک ہی جگہ مکمل بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ دیگر کتب میں عموماً تمام غزوات کا ذکر نہیں ملتا، اور جو کچھ ذکر ملتا بھی ہے اس میں اختلافی روایات اور طول طویل مباحث نے التباس پیدا کردیا ہے جس سے ہر قاری کے لیے واضح طور پر واقعات کا جاننااور دشوار ہوجاتا ہے۔
فاضل مرتب نے ”نقشِ سیرت“ میں صرف آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے تذکرے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ حضور ﷺ کی سیرت کے وہ نقوش اجاگر کیے جائیں جن سے پتا چلتا ہےکہ آپ ﷺ کی سیرت انسانی زندگی کے لیے کیا رہنمائی پیش کرتی ہے، نیز معلوم ہوکہ آپﷺ نے جس پس منظر میں پیغمبرانہ کام انجام دیے ہیں اور سیاسی،معاشی معاشرتی اور عسکری دائروں میں زندگی کی جو اصلاح کی ہے اس کی اصل قدرو قیمت کیا ہے، اور یہ واضح ہو کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کیا ہیں اور آپ ﷺ نے انسانیت کو کیا پیغام عطا کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فاضل مرتب نے اپنی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرتے ہوئے سیرت کے موضوع پر ایک جامع اور عمدہ کتاب ترتیب و تالیف کی، جس کی اہمیت و افادیت اور مقبولیت نصف صدی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے۔
3۔ خطبہ حجة الوداع
ڈاکٹر نثار احمد کی کتاب ”خطبہ حجۃ الوداع“ محسنِ انسانیتﷺ کے اسی خطبے کے مکمل متن، ترجمے، توضیحات اور دوسرے متعلقات (مآخذ، موقع و محل، نوعیت، منظر و پس منظر، اثرات وغیرہ) کے مفصل مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ گزشتہ چودہ سو برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ خطبہ جلیلہ کو عالمی انسانی منشور کی حیثیت سے (باقاعدہ دفعات کے تعین اور دیباچہ و اختتامیہ کے ساتھ) مجموعی طور پر کتب احادیث آثار و سنن، رجال و سند، شمائل و الفضائل، تاریخ و سیر اور ادب و کلام سب کو بیک وقت پیش نظر رکھتے ہوئے اسناد و حواشی سے آراستہ کرکے پیش کیا جائے۔ اگرچہ اس حیثیت سے خطبہ حجۃ الوداع کا تعارف مشہور مسلمان محقق و عالم ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم و مغفور 1950ء میں اور دوسرے علماء و فضلاء وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے۔ لیکن یہ کام ابھی باقی تھا۔ یہ سعادت ڈاکٹر نثار احمد کے حصے میں آئی کہ انھوں نے مسلسل پینتیس سال کی ریاضت کے نتیجے میں اس خطبے کا مستند اور مکمل ترین متن تیار کیا اور عالمی انسانی منشور کی حیثیت سے اس کا تقابل میگنا کارٹا، منشورِ اعظم، انگلستان (1215ء)، فرانس کے اعلانِ حقوقِ انسانی و باشندگان (1789ء)، نوشتہ حقوق امریکہ (1791ء) اور اقوامِ متحدہ کے منشور حقوق ِ انسانی (1948ء) کے ساتھ کرکے خطبہ حجۃ الوداع کی اولیت اور سبقت کو واضح کیا۔
4۔ دعوتِ نبویﷺ اور مخالفتِ قریش
”دعوتِ نبویﷺ اور مخالفتِ قریش“ دراصل ڈاکٹر نثار احمد کے اُن مقالات کا مجموعہ ہے جو ششماہی مجلہ ”السیرۃ عالمی“ (کراچی) کے متفرق شماروں میں وقتاً فوقتاً پانچ سال تک شائع ہوتے رہے اور اہلِ علم کی توجہ فرمائی کا باعث بنتے رہے۔ البتہ کتابی صورت میں اشاعت سے قبل ان تمام مقالات پر نظرثانی کرکے ایک مکمل آخری باب ششم کا تازہ اضافہ کیا گیا۔
مذکورہ کتاب میں فاضل مولف نے سیرتِ طیبہ کے ایک اہم موضوع یعنی دعوتِ نبویﷺ اور مخالفتِ قریش کا مفصل مطالعہ پیش کیا ہے۔ نیز دعوتِ نبوی ﷺ کے ارتقاءاور علمی، فکری و تاریخی، مختلف زاویوں سے مخالفت ِقریش کی نوعیت، اسباب، احوال اور تاریخ کاسیر حاصل جائزہ لیا ہے، اور اس موضوع پر اب تک پائی جانے والی تشنگی کو دور کرنے کی ایک کامیاب سعی کی ہے۔کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ فاضل مولف نے سائنٹفک انداز میں دونقشوں کے ذریعے دعوتِ نبویﷺ کے ارتقاءاور عداوتِ قریش کوواضح کیا ہے۔
اپنے موضوع پر کفایت کرنے والی اس کتاب کو کئی امتیازات حاصل ہیں۔ مثلاً: عداوتِ قریش کے باب میں مخالفین کی بڑی حد تک ایک جامع فہرست، دعوتِ نبویﷺ اور مخالفتِ قریش کی ارتقائی صورت حال کا جو مفصل مطالعہ پیش کیا گیا اسے معروف حسابی طریقوں کے مطابق دو خاکوں (Graphs) کی صورت میں پیش کرنا، رسول اللہﷺ اور قریش کے مابین (8سالہ) تعلقات کی فروغ سازی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مواقع کی بیک وقت نشان دہی کرنے والا ایک جدول۔
5۔ النقوش المنورۃ فی سیرۃ المطھرۃ
سیرت و تعلیماتِ نبویﷺ پر 180 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کی یہ ایک مختصر لیکن جامع اور منفرد کتاب ہے، جسے2021ء میں ورلڈ ویو پبلشرز (لاہور) نے شائع کیا۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فاضل مصنف نے سیرتِ طیبہﷺ کے اہم واقعات کو اپنے منفرد اسلوب میں تاریخی ترتیب کے ساتھ نہایت اختصار لیکن جامعیت سے بیان کیا ہے۔ جب کہ دوسرے حصے میں تعلیماتِ نبویﷺ کا ایک انتخاب پیش کیا ہے جسے صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری مستند کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ احادیث کے انتخاب کے سلسلے میں نہ صرف یہ کہ عنوانات کا تعین اور تجزیہ کیا گیا ہے بلکہ ہر عنوان کے تحت ایک سے زائد احادیث نقل کرکے اس موضوع کے مختلف پہلو بھی سامنے لائے گئے ہیں اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ حضورﷺ کی سیرت کے وہ نقوش اجاگر کیے جائیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آپﷺ کی سیرت انسانی زندگی کے لیے کیا رہنمائی پیش کرتی ہے، اور یہ واضح ہو کہ آپﷺ کی تعلیمات کیا ہیں اور آپﷺ نے انسانیت کو کیا پیغام عطا کیا ہے۔
مختصراً یہ کہ استادِ محترم ڈاکٹر نثار احمد (مرحوم) نے سیرتِ طیبہ کے جن عناوین کو موضوعِ تحقیق بنایا، وہ اگرچہ مدتوں سے قبولِ عام کا درجہ رکھتے تھے اور کم از کم اردو سیرت نگاری میں
گزشتہ صدی سے نقل در نقل کی صورت میں برابر جلوہ گر ہورہے تھے، لیکن انھیں نئی معلومات کی روشنی میں ازسرِنو نہیں جانچا گیا تھا، نہ مآخذ ِتاریخ ِاسلامی کے تناظر میں تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر پرکھا گیاتھا، اور نہ ان میں پنہاں تضادات و تسامحات کو دور کیا گیا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ان پرمفصل مطالعہ پیش کیا اور اب تک پائی جانے والی تشنگی کو دور کرنے کی ایک کامیاب سعی کی۔اس پرمستزاد مطالعات کے نتائج کو معروف حسابی طریقوں کے مطابق خاکوں (Graphs)کی صورت میں پیش کیا، جسے جدید ذہن کے لیے مطالعے کے نئے زاویے اور تفہیمِ سیرت کی نئی جہت متعارف کرانے کی ایک عمدہ کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ استادِ محترم ڈاکٹر نثار احمد مرحوم و مغفور کی خدماتِ سیرت کو اپنی بارگاہِ عالی میں قبول و مقبول فرمائے اور روزِ محشر نبیِ رحمت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔