حافظہ کیا ہے؟اس سوال کا جواب اگر ماہرینِ نفسیات سے پوچھیں تو وہ کچھ اس طرح دیں گے: ’’کسی چیز کو سیکھنے کی اہلیت، اس کو یاد رکھنے کی صلاحیت، اور پھر موقع و محل کے مطابق اس کو استعمال کرنے کی قدرت کا نام ’’حافظہ‘‘ ہے‘‘۔
سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو انسان جو کچھ دیکھتا ہے، سنتا اور محسوس کرتا ہے اُس کا اثر و نقش اس کے دماغ میں ثبت ہوجاتا ہے۔ اس نقش کو دوبارہ اپنے کاموں کے لیے استعمال کرنے والی قوت کا نام ہی ’’حافظہ‘‘ ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس کی بدولت انسان کو دیگر تمام حیوانات پر شرف حاصل ہے۔ اس قوت کی مدد سے انسان اپنی غلطیوں کے نتائج اور اپنے گزشتہ اعمال کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے اور آئندہ کی اصلاح اور ترقی کے لیے لائحہ عمل بناتا ہے۔
انسانی زندگی میں جو کچھ ایجادات ہم دیکھتے ہیں اس کا انحصار اسی قوتِ حافظہ پر ہے۔ اس قوتِ حافظہ کے بغیر انسان کسی کام کا نہ ہوتا۔ پڑھنا لکھنا، علم کے مختلف میدانوں میں ترقی کرنا اسی حافظے کی صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوا۔
حافظے کی کمی بیشی قوموں کے عروج و زوال کا باعث ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو قوتِ حافظہ کی وافر دولت سے نوازا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ محدثین کرام ایک ایک مجلس میں بیسیوں نہیں سیکڑوں احادیث یاد کرلیا کرتے تھے۔ اُن کے حافظے کا عالم یہ تھا کہ محض ایک مرتبہ سن کر یاد کرلیا کرتے تھے۔ دوبارہ ان کو استاد سے دریافت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ وہ نہ صرف حدیث بلکہ تفسیر، فقہ، نحو، لغت اور شاعری کی کتب بھی ازبر کرلیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہؒ بن عباسؓ نے ایک مرتبہ 80 اشعار سنے اور ایک ہی مجلس میں سن کر انہیں فوراً سنادیا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے حکام کو خطوط لکھے کہ جس شخص نے قرآن یاد کرلیا ہو اور حدیث روایت کرتا ہو، اور علم فقہ میں مہارت حاصل کرلی ہو اُس کا وظیفہ سالانہ چار ہزار دینار کردو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آٹھ سال کے بچے حافظِ قرآن ہوگئے، اور گیارہ سال کے بچے علمِ حدیث اور دیگر علوم کے ماہر ہوگئے۔
خلیفہ ہارون نے ایک دفعہ اپنے بیٹوں مامون اور امین سے فرمائش کی کہ اُس زمانے کے مشہور محدث عبداللہ بن ادریسؒ کے پاس جاکر حدیث کا علم حاصل کرو۔ اُس زمانے میں بادشاہوں اور شہزادوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سننے اور یاد کرنے کا شوق ہوتا تھا، وہ بذاتِ خود محدثین کی محفل میں حاضر ہوکر توجہ اور شوق سے احادیث سنا کرتے تھے۔
ہارون کے دونوں شہزادے عبداللہ بن ادریسؒ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے ان کو 100 احادیث سنادیں۔ ماموں نے استاد سے اجازت طلب کی کہ میں یہ آپ کو سنادوں؟
استاد کی اجازت سے مامون نے وہ کُل سو احادیث جو سنی تھیں، زبانی سنادیں۔ یہ بادشاہوں اور شہزادوں کا شوق تھا۔ اُس دور میں حافظے کی قوت کمال کی ہوتی تھی۔ پھر اس کی حفاظت کا دھیان بھی ہوتا تھا۔
امام ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں: میں جو چیز ایک دفعہ سنتا، یاد ہوجاتی، لہٰذا جب بغداد کے بازاروں سے گزرتا تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا کہ جو عورتیں اور چھوکریاں اپنے گھروں اور بالا خانوں میں خرافات قسم کے اشعار اور غزلیں گاتی ہیں کہیں وہ مجھے یاد نہ ہوجائیں۔
حافظے کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز قوتِ ارادی ہے۔ اسی قوتِ ارادی کے بل پر ایک باقاعدہ اور باترتیب زندگی گزاری جاسکتی ہے، جو حافظے کی اصلاح اور ترقی میں نہایت اہم ہے۔ حافظے کے لیے ایک اور اہم چیز توجہ ہے۔ آج کے دور میں نوجوانوں ہی نہیں، بزرگوں کے لیے بھی توجہ مرکوز رکھنا ایک مشکل کام ہوگیا ہے، کیونکہ توجہ بٹانے کے لیے ایک سو ایک مشاغل دن رات محض ایک کلک کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ 75 فیصد حافظہ صرف توجہ کا دوسرا نام ہے۔
حافظے میں اضافہ کوئی جادوئی طریقے سے نہیں ہوتا، اس کے لیے ایک طویل مدت تک مشق کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور سے تین باتیں عادت کی طرح اپنانی چاہئیں: (1) متواتر مطالعہ، (2) سوچ سمجھ کر پڑھنا، اور (3) پورے اعتماد سے سیکھنا۔
اچھے حافظے کے لیے کچھ عادتوں سے چھٹکارا بھی ضروری ہے۔ یعنی فضول بحث نہ کی جائے، کوئی لغو بات سننے سے اجتناب کیا جائے، مہمل کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے، کسی غیر ضروری بات کو یاد رکھنا اور دہرانا بھی نہیں چاہیے۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی پچھلی باتیں اور واقعات جن سے دکھ ہوتا ہے، دہراتے رہتے ہیں یا دل ہی دل میں یاد کرتے ہیں۔ یہ جان بوجھ کر صدمے کو یاد رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ شعوری طور پر اس سے اجتناب کریں، بے کار بیٹھنے کے بجائے مخلص دوستوں کے ساتھ محفل میں بیٹھیں۔ بزرگوں، بہن بھائیوں اور بچوں کے ساتھ کچھ وقت پیار، محبت اور خوشیوں کی باتیں کریں۔ بے کاری سے دور بھاگیں۔ یاد رکھیں بے کاری اور بیماری کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔
آخر میں وہ چند عادتیں اور وجوہات جن کو اپنانے کے باعث ہمارے اجداد ہم سے بہتر صحت رکھتے تھے۔ پہلی بات: ہمارے بزرگ آج کے لحاظ سے کم خوراک لیتے تھے اور آج کے الیکٹرونک دور سے دس گنا زیادہ محنت اور مشقت کرتے تھے۔ لہٰذا انہیں وزن کی کمی کے لیے کسی غذائی پروگرام کو اپنانے اور جم جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
انہیں ایک غذائی کھانا کھانے کی عادت تھی جو غروبِ آفتاب سے قبل کھاکر جلد سونے پر توجہ دیتے تھے۔ لہٰذا رات کو انہیں بھوک کا احساس نہیں ہوتا تھا اور گہری اور پُرسکون نیند حاصل ہوتی۔ اسی طرح کھانوں میں بغیر پکی خوراک یعنی پھل، سبزیاں اور ڈرائی فروٹ پر زیادہ توجہ ہوتی۔ صبح کے ناشتے کے بعد درمیان میں لگنے والی بھوک کا علاج ان ہی سے کرتے۔ چہل قدمی اور جسمانی سرگرمیوں کو لازمی خیال کرتے۔
جب کہ آج زیادہ کام کمپیوٹر کے پاس بیٹھ کر انجام دیا جاتا ہے… یہاں تک کہ خریداری بھی۔
جسمانی تکالیف کا علاج دوائوں اور ڈاکٹروں میں ڈھونڈنے کے بجائے پہلے قدرتی طور پر کرنے کی کوششیں کرتے۔ آج کسی بھی درد، بیماری اور تھکن سے نجات کے لیے مٹھی بھر گولیاں کھالینا آسان سمجھا جاتا ہے۔
سب سے اہم اور ضروری بات گناہ اور معصیت سے اجتناب ہے۔ یہ حافظے اور یادداشت کو کمزور کرنے والی اور ذہن کو غافل کرنے والی چیز ہے۔ امام شافعیؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار شہر کے بازار میں کسی اجنبی عورت کی پنڈلی پر نظر پڑی، فوراً انہیں اپنے حافظے کی کمزوری کا احساس ہونے لگا۔ چنانچہ پریشان ہوکر بھاگتے ہوئے اپنے استاد وکیعؒ کے پاس گئے اور اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی۔ استاد نے گناہ ترک کرنے کی وصیت کی اور فرمایا کہ حافظہ اللہ کا فضل ہے، اور اللہ کا فضل گناہ گاروں کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں کی کتابیں ایک دفعہ سن کر جوں کا توں سنادینا کبھی کسی غیر مسلم کے بارے میں نہیں سنا گیا۔