کراچی سے سوتیلی مائوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے

کراچی کی آمدن سے حکمران اسلام آباد میں عیاشی کررہے ہیں، دھرنے کے اثرات پورے ملک میں پڑیں گے،جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کا انٹریو

مولانا عبدالاکبر چترالی جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی ہیں، آپ کا تعلق چترال سے ہے، خاصے متحرک ہیں، اسمبلی میں ہر اہم ایشو پر آواز اٹھاتے ہیں، خوب بولتے ہیں، اپنا مقدمہ ڈنکے کی چوٹ پر پیش کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ دنوں کراچی سندھ حکومت کے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کراچی کے تاریخی دھرنے میںشرکت کے لیے تشریف لائے تو فرائیڈے اسپیشل نے ان سے ایک خصوصی نشست میں تبادلہ خیال کیا جس کے مندرجات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
……………
فرائیڈے اسپیشل: آپ جہاں سے منتخب ہوئے، اُس علاقے کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
مولانا عبدالاکبر چترالی : پہلی بات یہ ہے کہ چترال ملک کا ایک دور افتادہ علاقہ ہے، جو قومی اسمبلی کا حلقہ1 ہے۔ اس کی مجموعی آبادی چھ سے سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ چترال 2 اضلاع میں تقسیم اور 14ہزار 850 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ ہمارے بنیادی مسائل سڑکوں، پانی اور بجلی سے متعلق ہیں۔ آب پاشی اور آب نوشی کے حوالے سے بھی مسائل درپیش ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکومت چترال کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے جو دعوے کرتی ہے اُن میں کتنی صداقت ہے؟
مولانا عبدالاکبر چترالی : کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ لواری ٹنل اور دیگر سڑکوں کی تعمیر کا جو کام جاری تھا وہ بھی گزشتہ ایک سال سے تعطل کا شکار ہے۔ جبکہ ہمارے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ موت و حیات کی حیثیت رکھتا ہے، خصوصاً لواری ٹنل اور اس سے ملحقہ سڑک۔ لواری ٹنل میں روشنی کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ چترال کی جانب ابروج روڈ کا 8 کلومیٹر سے زائد راستے کا ٹھیکہ عثمانیہ کمپنی کو دیا گیا تھا، مگر ایک سال سے تعمیراتی کام مکمل بند ہے۔ بارہا اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آواز اٹھا چکا ہوں۔ پلاننگ ڈویژن میں اس کا نظرثانی شدہ تخمینہ 20 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس پر پلاننگ کمیٹی کی جانب سے کچھ اعتراضات ہیں۔ بہرحال وہاں اس وقت کام مکمل بند ہے۔ اسی طرح سی پیک کے حوالے سے بھی پچھلی حکومتوں میں چترال، شندور روڈ چترال، گنی مستو شندور روڈ جو کہ پی ایس ڈی پی میں شامل ہے، پر کام شروع ہوا تھا، مگر اس رفتار سے کام نہیں ہورہا جس رفتار سے ہونا چاہیے۔ تیسرا اہم چترال گرم چشمہ روڈ ہے، یہ بھی پی ایس ڈی پی میں شامل ہے اور اِس سال کے بجٹ میں اس کے لیے ایک ارب روپے مختص بھی کیے گئے ہیں جو کہ مکمل آٹھ ارب روپے کا منصوبہ ہے، مگر اس منصوبے پر بھی کام کا آغاز نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ چترال اوین بمبودرید روڈ ہے، یہ بھی تقریباً چھ ارب سے زائد کا منصوبہ ہے جس میں دو ارب روپے ٖخیبر پختون خوا حکومت کو ادا کرنے ہیں، جبکہ چار ارب ساٹھ کروڑ روپے مرکزی حکومت کو… مگر اس منصوبے پر بھی عملاً کوئی کام شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح بجلی کے حوالے سے بھی ہمیں کئی قسم کے مسائل درپیش ہیں، مگر میری کوششوں سے الحمدللہ اس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ میری ولیج یوسی بروس کے لیے اِس دفعہ کوئی سترہ کروڑ روپے کی منظوری ہوئی ہے، اور وہاں کام جاری ہے، مگر باقی علاقوں میں کوئی قابلِ قدر کام شروع نہیں ہوسکا۔
فرائیڈے اسپیشل: پورے پاکستان میں اس وقت جماعت اسلامی کی جو عددی پوزیشن ہے اس میں آپ کی کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟
مولانا عبدالاکبر چترالی : ایک بات تو یہ ہے کہ چترال کے عوام دین سے محبت رکھتے ہیں، دین دار لوگوں اور دینی جماعتوں سے ان کا تعلق رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ الحمدللہ لواری ٹنل کی تعمیر میں جماعت اسلامی اور میرا ایک کردار ہے، اور اس کردار کی بنیاد پر لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا، ہمیں ووٹ دیئے اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ چترال میں یہ پہلا موقع نہیں، اس سے قبل جب پورے چترال میں ایک صوبائی سیٹ ہوا کرتی تھی اُس وقت بھی مولانا غلام محمد صاحب چترال کے ایم پی اے بنے۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ چیئرمین اُس وقت خورشید علی صاحب منتخب ہوئے۔ 2002ء میں جب میں ایم این اے بنا اور صوبے میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی یعنی متحدہ مجلس عمل کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اُس وقت ڈسٹرکٹ ناظم حاجی مغفرت شاہ صاحب منتخب ہوئے، اس کے بعد پچھلے ادوار میں بھی بلدیاتی الیکشن میں وہی ڈسٹرکٹ ناظم مقرر ہوئے۔ اسی طرح 1993ء سے 1996ء تک میرے چچا جان مولانا عبدالرحیم چترالیؒ منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے رہے۔ الحمدللہ اس طرح جماعت اسلامی مختلف اوقات میں چترال سے کامیاب ہوتی رہی ہے اور چترال کے عوام جماعت اسلامی سے دیرینہ محبت رکھتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پچھلے پندرہ بیس سال میں انٹرنیٹ، موبائل اور ڈیجیٹلائزیشن کے بعد معاشرہ اخلاقی تنزلی کا شکار ہوا ہے جس کے اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا میں دیکھے جارہے ہیں، تو کیا چترال میں بھی لوگ متاثر ہوئے ہیں؟
مولانا عبدالاکبر چترالی: بالکل متاثر ہوئے ہیں۔ میں بالخصوص جمعہ کے اجتماعات کے علاوہ جنازے کے بعد مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اس جانب خصوصی توجہ دلاتا ہوں اور نوجوانوں کو اس وبال سے بچنے کی خصوصی تلقین کرتا ہوں۔ اس وقت صرف موبائل یا انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ ہم خود بھی اس کے ذمے دار ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو جب وہ ابھی چھٹی جماعت میں بھی داخل نہیں ہوئے ہوتے، اسمارٹ موبائل لے کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ بچہ انٹرنیٹ بھی استعمال کرتاہے۔ ہم کسی طرح کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھتے، اس کا ڈیٹا چیک نہیں کرتے کہ وہ دن بھر کیا دیکھ رہا ہے، انٹرنیٹ کس طرح استعمال کررہا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی سمیت دیگر جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کا باعث والدین کی لاپروائی اور انٹرنیٹ کا بے جا استعمال ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کراچی آئے، دھرنے میں شریک ہوئے، آپ نے خطاب بھی کیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں حکومت مجبور ہوگی؟ گفتگو کرنے پر آمادہ ہوگی؟ آپ کا سیاسی تجزیہ کیا ہے؟
مولانا عبدالاکبر چترالی: میں نے وہاں بھی بات کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنی حالت خود بدلنے کے لیے آمادہ نہ ہو اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بہ زور طاقت، غیبی طاقت سے حالت نہیں بدلتے۔ وہ لوگوں کا بھی امتحان لیتے ہیں۔ اب کراچی کے لوگ بیدار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے جو تحریک شروع کی ہے وہ صرف کراچی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے اثرات پورے پاکستان پر پڑیں گے۔ یہ بیداری ہے، بیداری کی مہم ہے جو بلوچستان اور کراچی کی جماعت نے شروع کی ہے، اور بیداری کی یہ تحریک اِن شاء اللہ پنجاب اور کے پی کے میں بھی پہنچے گی، اس کے نتیجے میں جماعت کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی اور قوم میں بھی بیداری پیدا ہوگی۔ جہاں تک دھرنے کا سوال ہے، اس میں بھی اگر لوگ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے تو امید ہے کہ اِن شااللہ العزیز جن مقاصد کے لیے دھرنا دیا جارہا ہے، جن مقاصد کے لیے ہم نے جدوجہد کا آغازکیا ہے اس میں کامیابی نصیب ہوگی۔ جس طرح آپ نے بلوچستان میں دیکھا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے تحریک چلائی، آخر حکومت نے اُن سے تحریری معاہدہ کیا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں حکومت کس حد تک اپنے معاہدے کی پاس دار رہی! یہاں بھی اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا گیا تو سندھ حکومت بھی مجبور ہوگی۔ سندھ حکومت روز بروز ایکسپوز ہوتی جارہی ہے کہ یہ بات تو جمہوریت کی کرتے ہیں، بات تو سیاست کی کرتے ہیں، بات عوام کی کرتے ہیں لیکن یہ درحقیقت اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو مفلوج اور اپاہج کرکے اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:تحریک انصاف جس نعرے کے ساتھ آئی اور کہا کہ مدینہ کی ریاست بنائیں گے، اور عوام بھی یہی سمجھے، اور جماعت اسلامی کے امیر نے بھی یہی کہا کہ اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں تو ہم تعاون کو تیار ہیں۔ آپ بحیثیت رکن قومی اسمبلی کیا سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ تھا یا حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہے؟
مولانا عبدالاکبر چترالی: میرے خیال میں حکومت اپنے دعووں پر عمل کرنے، تبدیلی لانے، پاکستان کو ایک اسلامی یا مدینہ کی ریاست بنانے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر سنجیدہ ہوتی تو کوئی عملی اقدام ضرور کیا جاتا۔ دن بہ دن اس حکومت کی کارکردگی برعکس ثابت ہورہی ہے۔ ساڑھے تین سال میں سوائے قرضہ لینے، مہنگائی کا طوفان برپا کرنے اور غربت میں اضافے کے کوئی کام نہیں کیا۔ میرا نہیں خیال کہ یہ اپنے منشور پر جو قوم کے سامنے پیش کیا تھا، سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں، بلکہ انہوں نے یوٹرن لے لیا ہے۔ بقول عمران خان ’’یوٹرن لے کر ہی آدمی لیڈر بنتا ہے‘‘، تو اب وہ لیڈر بن گئے ہیں اور وزیراعظم پاکستان ہیں۔ اگر یہ مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں اس ریاست کے قیام کا، اور سنجیدہ ہیں تو ایک بل جو مدینہ کی ریاست کے قیام کے حوالے سے تھا میں نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا، وہ ایک ہی بل ہے اور وہ ہے سود کے خاتمے کا بل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 2019ء میں پیش ہونے والے اس بل کو پاس کرتے اور کہتے کہ دیکھیں جس طرح مدینہ کی اسلامی ریاست کی ابتدا شراب نوشی پر پابندی اور سودی نظام کے خاتمے سے ہوئی تھی اسی طرح ہم نے بھی سودی کاروبار پر پابندی لگادی۔ لیکن شراب تو دور کی بات ہے، شراب کی مزید فیکٹریاں لگائی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں ایک فیکٹری کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہاں بھی بازاروں میں شراب کی کھلے عام فروخت اور شراب نوشی جاری ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اپنے اس دعوے میں کسی بھی طرح سنجیدہ نہیں ہے، اور یہ نعرہ صرف اور صرف لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے لگایا گیا تھا۔ عوام کا نام بھی غلط استعمال کیا جارہا ہے، یہ درحقیقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام ہیں اور اب قوم کو بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی زنجیروں میں جکڑنے جارہے ہیں، اور ہم اپنے آپ کو اس وقت معاشی طور پر، مالیاتی طور پر آزاد مملکت کے باسی نہیں کہہ سکتے، بلکہ ہم اِس وقت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغرب کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے کردار چاہیے، کارکردگی چاہیے، جرأت چاہیے، ہمت چاہیے، جو کہ شاید موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس بحران سے کس طرح چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟
مولانا عبدالاکبر چترالی : اس بحران سے نکلنے کا آسان راستہ ہے لیکن اگر قوم سمجھ جائے، اگر قوم کے اندر بیداری پیدا ہو، اگر قوم موجودہ حکمرانوں اور برسراقتدار رہنے والی پارٹیوں کو ٹھیک طرح سے پرکھنے کا ہنر سیکھ لے، اور اب تک جن کو اقتدار نہیں ملا ان کے درمیان ٹھیک طرح سے موازنہ کرے۔ مثلاً پاکستان میں جماعت اسلامی ہے۔ میں قومی اسمبلی میں بھی جس ممبر سے ملتا ہوں وہ جماعت اسلامی کا معترف نظر آتا ہے، جماعت اسلامی کی جمہوریت پسندی اور غیر موروثیت کا قائل نظر آتا ہے۔کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے لوگ بااخلاق ہیں، کسی پر اب تک کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہیں لگا، لیکن اس کے باوجود یہ لوگ جماعت اسلامی میں شمولیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عوام بھی یہی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس میں کرپشن صفرہے، بداخلاق اور بدکردار لوگ نہیں ہیں، آف شور کمپنیوں کے مالکان کا اس جماعت سے کوئی تعلق نہیں، پنڈورا باکس میں اس جماعت کے کسی فرد کا نام شامل نہیں ہے… لیکن اس کے باوجود بھی عوام ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ جماعت اسلامی کا درست طریقے سے موازنہ کریں اور ایک بار جماعت اسلامی کو بھی موقع دے کر دیکھیں ۔ نظام کو اگر تبدیل کرنا ہے، اگر اس ملک کو واقعی ایک فلاحی اور اسلامی ریاست بنانا ہے، اگر یہاں سے کرپٹ لیڈرشپ کو ختم کرنا ہے، اگر یہاں لوگوں کو انصاف دلانا ہے، اگر اس ملک کو ترقی دینی ہے تو جماعت اسلامی کو آگے لانا ہوگا، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بطور ایم این اے آپ پورے ملک کا دورہ کرتے ہیں، ہر شہر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کراچی کس طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کیا تجزیہ ہے آپ کا کہ اس درجے کا شہر کس حال میں ہونا چاہیے؟ میگا سٹی، معاشی حب کیوں اس قدر تباہی کا شکار ہے؟
مولانا عبدالاکبر چترالی: بالکل، کراچی کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ کراچی پورے ملک کے لیے معاشی طور پر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ معیشت کو سنبھالنے میں کراچی کا بنیادی کردار ہے۔ یہ معاشی حب ہے۔ آپ 67فیصد کہتے ہیں، میںکہتا ہوں کراچی 70فیصد آمدن پاکستان کو دیتا ہے، اس کے باوجود کراچی کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر، ٹریفک کے نظام، سڑکوں کی حالت، نکاسی آب اور آب نوشی کے نظام کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے۔ کراچی ہی کی آمدن سے ہمارے حکمران اسلام آباد میں عیاشی کررہے ہیں۔ کراچی کی آمدن سے ہمارا حکمران طبقہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتا ہے لیکن عملاً مرکز میں بھی اور صوبے میں بھی عوام کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں اور عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، اور کراچی سے حاصل شدہ ملک کی آمدن کا 70 فیصد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔