”حق دو کراچی“ تحریک دھرنا گاہ میں جلسہء عام

بلدیاتی کالے قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے۔ شرکاء کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو بلدیاتی اختیارات دیں، جو شہری ادارے، محکمے اور وسائل و اختیارات غصب کیے ہیں وہ واپس کریں۔ سڑکوں پر نکلنے اور دھرنا دے کر بیٹھنے کی وجہ سندھ پر مسلط حکمرانوں کے غیر جمہوری رویّے، آمرانہ فسطائی طرزِعمل، اور جاگیردارانہ، وڈیرہ شاہی سوچ اور ذہنیت ہے۔
یہ تحریک کراچی کے ہر شہری کی تحریک ہے، دھرنا شہرِ قائد کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ مضبوط اعصاب کے ساتھ طویل جدوجہد کرنے اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جماعت اسلامی کے دھرنے کا مقصد ساڑھے تین کروڑ عوام کا مقدمہ لڑنا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کا دھرنا دیہی و شہری سندھ سمیت پاکستان کے چوبیس کروڑ دلوں کی آواز بن گیا ہے۔ جماعت اسلامی امید کا پیغام لیے دھرنے میں موجود ہے۔ دھرنے میں مختلف سرگرمیاں ہورہی ہیں اور وفود روزانہ کی بنیاد پر اظہارِ یکجہتی بھی کررہے ہیں۔
دھرنے کے چوبیسویں روز جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے ساتھ دھرنا گاہ میں منتظمین کی جانب سے لگائی گئی فوڈکورٹ میں دھرنے کے شرکاء… جن میں مرد، خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان سب شامل تھے… نے گہری دلچسپی لی اور لگائے گئے اسٹالز سے کھانے پینے کی اشیاء مناسب قیمت میں خرید کر بھی کھائیں۔ فوڈ کورٹ میں فروٹ چاٹ، چھولے چاٹ، دہی بھلے، تکہ بریانی، بیف پلاؤ، بیف حلیم، زردہ، نمک پارے، شکرپارے، سموسے، برگر، بن کباب، رول، تکے، ڈرائی فروٹ، سوپ، چائے اور کافی سمیت دیگر اشیاء کے اسٹال رات گئے تک لگے رہے۔ علاوہ ازیں مارشل آرٹ اور کراٹے کے فن کا بھی مظاہرہ کیا گیا جس میں آگ سے گزرنے، اینٹیں توڑنے سمیت دیگر ایکشن شامل تھے۔
دھرنا گاہ میں جلسہ عام کے لیے ایک اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر ایک بہت بڑا اسٹیج بینر آویزاں کیا گیا تھا جس پر تحریر تھا ”بلدیاتی کالا قانون.. نامنظور“۔ جبکہ اسٹیج کے نچلے حصے میں تحریر تھا “We Demand Empower Local Government” اسی طرح دھرنا گاہ میں قومی پرچموں، جماعت اسلامی کے جھنڈوں اور ”حق دو کراچی کو“ تحریک کے مطالبات پر مبنی بینر جابجا موجود تھے۔ جلسہ عام میں خواتین کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی گئی تھی، اور قائدین کی تقاریر اور جلسے کی کارروائی دیکھنے کے لیے ایک بڑی اسکرین لگائی گئی تھی۔ شرکاء سہراب گوٹھ، واٹر پمپ، کریم آباد، گرومندر، لسبیلہ، گولیمار، بابر مارکیٹ، لانڈھی 6، کورنگی ڈھائی نمبر، کورنگی کراسنگ، بنارس چوک، میٹروول،باب خیبر، ولیکا چورنگی، حبیب بینک، ریگل چوک سمیت مختلف مقامات پر دھرنا دیتے ہوئے سندھ اسمبلی پہنچے۔ دھرنے کے اردگرد عوام کا جم غفیر تھا، ایسا لگتا تھا کہ لوگ امڈے چلے آرہے ہیں۔ سراج الحق کی دھرنا گاہ آمد کے موقع پر جلسہ عام کے شرکاء نے زبردست نعرے لگائے اور ان کا خیرمقدم کیا۔
عظیم الشان دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ سندھ حکومت کے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف مرد وخواتین، بچے، بوڑھے، جوان 24دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں لیکن سندھ کے سنگ دل حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، چیف جسٹس آف پاکستان اس سنگین مسئلے پر ازخود نوٹس لیں اور اہلِ کراچی کو انصاف دلوائیں، ان کے تمام مطالبات آئینی، قانونی وجائز ہیں، سندھ کے حکمران سن لیں اگر اہلِ کراچی کی آواز نہیں سنی گئی تو نقصان ان حکمرانوں کا ہی ہوگا۔ کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑنے پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، پوری ٹیم، کارکنوں اور اہلِ کراچی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، 27فروری سے پہلے بلاول بھٹو نے بات نہیں سنی تو اندرون سندھ گوٹھوں کے عوام آپ کے گھروں اور دفتروں کا رخ کریں گے، بلاول بھٹو! دھرنے والوں کے مطالبات مان لیں، اسی میں آپ کی بھلائی ہے، پیپلزپارٹی عوام کی آواز سن لے، ظالمانہ نظام نہیں چلے گا۔ کراچی کے معاملے پر پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی کے خلاف صرف ہوائی فائرنگ کرتی ہے، PDMفرینڈلی اپوزیشن کررہی ہے، ان کو کراچی کے کروڑوں عوام کے مسائل نظر نہیں آتے، پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کے مطالبات مان کر جمہوری ہونے کا ثبوت دے۔ میئر کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو وہ عوام کو کیا جواب دے گا اور مسائل کیسے حل کرے گا؟ سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت کے نام پر لوگوں کے کندھوں پر سواری کرنے والے کرپشن کے عالمی ریکارڈ بنارہے ہیں، جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے دیکھیں کہ جمہور کے مطالبات کیا ہیں، دیہی سندھ کے عوام پر جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام کیوں مسلط ہے؟ موجودہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے اسٹیل مل کے چار ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا، مجھے امید ہے کہ بے روزگار کرنے والوں کو قبر میں بھی سکون نہیں ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں کا وقت اب ختم ہوگیا، میں اب دونوں پارٹی سربراہان کو لندن کے کرکٹ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتا دیکھ رہا ہوں۔
نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو نے کہاکہ آج جلسہ عام نے ثابت کردیا ہے کہ 24دن سے جاری دھرنے کی جدوجہد مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور عوام اپنا حق لے کر رہیں گے، مراد علی شاہ نے کراچی کو تباہ کردیا، اور کراچی ہی کیا، لاڑکانہ کی حالت بھی ابتر ہے۔ وہ لاڑکانہ کو بہتر نہیں کرسکے، کراچی کو کیا بہتر کریں گے! ہماری جنگ دستور اور آئین پر عمل درآمد کی جدوجہد ہے، سندھ حکومت نے کالا قانون بناکر آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے بھی بے وفائی کی ہے، کیونکہ اُن کے دور میں 1972ء کے بلدیاتی نظام میں کراچی کو جو اختیارات دیے گئے تھے آج وہ سب سلب کرلیے گئے ہیں۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ جماعت اسلامی ظلم و ناانصافی کے خلاف میدانِ عمل میں موجود ہے، جماعت اسلامی ملک بھر میں 101 دھرنے دے گی، کراچی میں بلدیاتی کالے قانون کے خلاف دھرنا 24روز سے جاری ہے، پیپلزپارٹی کے خلاف اندرون سندھ کے عوام بھی سراپا احتجاج ہیں، یہ جنگ کراچی سے کشمور تک جاری ہے اور عوام کے حقوق اور مسائل کے حل تک جدوجہد جاری رہے گی، سندھ حکومت ہوش کے ناخن لے، عوام پر ظلم بند کرے اور کالا بلدیاتی قانون واپس لے۔
دھرنے کے میزبان امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ حکومت کو دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ہم شہر کے پانچ اہم داخلی مقامات بند کردیں گے اور سوائے ایمبولینس کے کسی کو راستہ نہیں دیں گے، میں تجویز دیتا ہوں کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری انٹرنیشنل پریس کانفرنس بلائیں اور تمام بڑے شہروں سے میڈیا کے نمائندوں اور وہاں کے میئرز کو بھی بلالیں اور ان کو بتائیں کہ ہم نے بہترین بلدیاتی نظام تشکیل دیا ہے، لیکن اس نظام میں میئر نہ کچرا اٹھانے کا اختیار رکھتا ہے، نہ پانی فراہم کرنے، نہ ٹیکس جمع کرنے، نہ تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، یہ پریس کانفرنس گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوجائے گی۔ سندھ کی اپوزیشن وفاق میں حکومت میں ہے، ہم پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سے سوال کرتے ہیں کہ ان دونوں نے جعلی مردم شماری کو پہلے کابینہ اور پھر ای سی سی سے منظور کروایا۔ جس مردم شماری کو منظور کروایا اُس میں آدھی آبادی غائب کردی گئی ہے، اب نئی مردم شماری بھی پرانے طریقِ کار کے تحت ہی کیوں کرائی جارہی ہے؟ ان دونوں پارٹیوں نے کیوں کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کیا؟ ہم اس جعلی مردم شماری کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 158کے مطابق جس صوبے سے گیس نکلے گی اسے ترجیحی بنیادوں پر گیس دی جائے گی۔ مگر آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور سندھ حکومت بھی مقدمہ ٹھیک طریقے سے نہیں لڑرہی۔ کراچی کی صنعتوں کو گیس نہیں ملتی لیکن کے الیکٹرک کو گیس دی جارہی ہے، اس پر پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے کچھ نہیں کیا۔ سندھ میں لوگ کتے کے کاٹے سے مرتے ہیں لیکن حکومت کچھ نہیں کرتی، سندھ سیکریٹریٹ رشوت اور کرپشن کا اڈہ بن چکا ہے، سندھ حکومت نے کراچی کا کچرا اٹھانے کا انتظام بھی اپنے پاس لے لیا اور آج صورت حال سب کے سامنے ہے۔ ہم ایک ہفتے کا الٹی میٹم دینے والوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ الٹی میٹم کے مطابق تو آج ان کو بلاول ہاؤس پر دھرنا دینا تھا، مگر حسبِ سابق فرینڈلی اپوزیشن بنے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ لسانیت کے خلاف جدوجہد کی ہے اور اپنی جانیں دی ہیں، جماعت اسلامی لسانی سیاست کو کسی صورت پنپنے نہیں دے گی، ہم ٹنڈو الہ یار کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ماضی میں حکمران جماعتوں نے 35 سال سے لاشوں اور ذاتی مفادات کی سیاست کی، جماعت اسلامی لسانی سیاست کرنے والوں کو بے نقاب کرے گی، کراچی میں لسانی فسادات کروانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل دھرنا ہم نے اس لیے دیا ہے کہ کراچی کو ظلم و جبر اور وڈیرہ شاہی نظام سے نجات دلائیں گے، کراچی کے جن اداروں پر قبضہ کیا گیا ہے ان کو واپس لیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کا میئر بااختیار ہو اور شہری حکومت کے پاس تمام شہری ادارے اور محکمے ہوں۔ امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ جماعت اسلامی چوبیس دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں، جماعت اسلامی کے دھرنے کا مقصد ساڑھے تین کروڑ عوام کا مقدمہ لڑنا ہے، جماعت اسلامی کراچی کا دھرنا دیہی و شہری سندھ سمیت پاکستان کے چوبیس کروڑ دلوں کی آواز بن گیا ہے، جماعت اسلامی امید کا پیغام لیے دھرنے میں موجود ہے، کراچی کی ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں نے حسن اسکوائر یونیورسٹی روڈ پر تاریخی مارچ و دھرنا دے کر تاریخ رقم کردی، ماضی میں حکمران پارٹیوں نے کراچی کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے دھرنے دیے، کراچی کے عوام حکمران جماعتوں سے مایوس ہوگئے ہیں، جماعت اسلامی کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے لیے امید کی کرن بن گئی ہے، امید کے چراغوں کو یقین کے سورج میں تبدیل کرنا ہے، کراچی کے عوام جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں، ہم کراچی کو چمکتا دمکتا اور روشن شہر بنائیں گے، جماعت اسلامی کے پاس امانت دار اور باصلاحیت قیادت موجود ہے۔
جماعت اسلامی ضلع باجوڑ کے امیر سردار خان نے کہا کہ میں باجوڑ کے بلندو بالا پہاڑوں کی طرف سے اہلِ کراچی کو خراجِ تحسین اور سلام پیش کرنے آیا ہوں، جماعت اسلامی کے دھرنے اور تاریخی جدوجہد نے پورے ملک کو اپنا حق لینے کا پیغام دیا ہے، آج اہلِ کراچی نے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ثابت کردیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے کالے بلدیاتی قانون کو تسلیم نہیں کریں گے، کراچی کے تمام شہری اداروں اور وسائل پر اہلِ کراچی کا ہی حق ہے، سندھ کے حکمرانوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ جمہوریت اور عددی اکثریت کے نام پر کراچی والوں کے حقوق غصب کریں، عوامی جدوجہد کامیاب ہوگی اور عوام اپنا حق لے کر رہیں گے۔
نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہاکہ آج عظیم الشان اور تاریخی جلسہ عام شہرِ قائد کے ساڑھے تین کروڑ عوام کا ترجمان ہے، اب کراچی اپنا حق لے کر رہے گا، آج کا جلسہ عام حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اہلِ کراچی اب ظلم کے نظام کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی وہ شہر ہے جس نے سعید غنی خاصخیلی کو کونسلر بنایا، رکن اسمبلی بنایا اور آپ وزیر بنے، آپ کے ساتھ نرم اور گرم وقت گزارا ہے لیکن آپ کا رنگ کچھ بدلا بدلا لگ رہا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہماری جنگ، آپ کی بھی جنگ ہے، آپ ذرا اندرون سندھ جاکر کسی گوٹھ سے الیکشن لڑیں اور جیت کر دکھائیں۔ آپ ہمارے ساتھ آئیں اور جدوجہد کریں۔
جلسہ عام کے دوران شرکاء وقتاً فوقتاً پُرجوش نعرے لگاتے رہے جن میں یہ نعرے شامل تھے ”اب کے برس ہم اہلِ کراچی، اپنا پورا حق لیں گے“، ”جینا ہوگا مرنا ہوگا،دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا، حافظ کے سنگ اب چلنا ہوگا دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا“، ”نامنظور نامنظور کالا قانون نامنظور، کراچی پر کالا قانون نامنظور، وڈیرہ شاہی نامنظور“، ”حق دو کراچی کو، حق دو کراچی کو“، ”پورا ٹیکس آدھی گنتی، نامنظور نامنظور“، مصلحت یا جدوجہد.. جدوجہد جدوجہد.. تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو، گلیوں اور بازاروں میں جدوجہد تیز ہو، چوکوں اور چوراہوں میں جدوجہد تیز ہو، کھیتوں اور کھلیانوں میں جدوجہد تیز ہو، تعلیمی اداروں میں جدوجہد تیز ہو“۔
جماعت اسلامی کی جدوجہد اور دھرنا جاری ہے، قوم کو چاہیے کہ اس کا دست و بازو بنے، تاکہ کراچی کو چمکتا دمکتا اور روشن شہر بنایا جاسکے۔