سب سے مہنگے ”سیب “ کی کہانی

ہم نصیب کے حوالے سے خصوصی حیثیت کے حامل ہیں کہ بہت سی چیزوں کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ ہر شعبہ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا ہے۔ انسان نے جس نوعیت کی پیش رفت کا سوچا بھی نہ تھا وہ آج حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
ہائی ٹیک کا معاملہ یہ ہے کہ پوری دنیا کو سمیٹ کر ہماری ہتھیلیوں پر دَھر دیا گیا ہے۔ جن سہولتوں کا خواب بادشاہوں، بلکہ شہنشاہوں تک نے نہ دیکھا ہوگا وہ عام آدمی کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ محض آٹھ دس ہزار روپے کے اسمارٹ فون کے ذریعے بیسیوں کام یوں لیے جاسکتے ہیں کہ آنکھوں دیکھے معاملے پر بھی یقین نہیں آتا۔
ہم دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑے کاروباری اداروں کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ ایپل دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس ادارے کی مجموعی مالیت کم و بیش 200 ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار سے زیادہ ہے۔ فی زمانہ بڑے کاروباری اداروں نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ بڑے پیمانے پر کی جانے والی تحقیق کے ذریعے اشیاء و خدمات کا معیار بلند کرتے رہنا ممکن ہوچکا ہے۔ ہائی ٹیک کمپنیوں نے اپنے شعبے میں بڑے سے بڑا مارکیٹ شیئر یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ الٹا سیدھا بھی کیا ہے، تاہم پھر بھی یہ کیا کم ہے کہ اُن کی باہمی مسابقت سے عام آدمی کے لیے بھی شاندار انداز سے جینا ممکن ہوگیا ہے!
ایپل کی کہانی میں بہت سوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ اسٹیو جابز کا قائم کیا ہوا یہ ادارہ کل بھی ایک مثال تھا اور آج بھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ ایپل کی کہانی ہمیں بنیادی طور پر یہ بتاتی ہے کہ انسان اگر کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اور یہ کہ جدت و ندرت کا بازار گرم رکھنے سے کاروبار کی دنیا میں مثال بن جانے والی کارکردگی کا مظاہرہ کبھی ناممکن نہیں ہوتا۔)
………
تاریخ میں تین سیب بہت مشہور ہوئے ہیں۔ پہلے سیب کی نسبت، مسیحیوں کی روایات کے مطابق، آدم علیہ السلام سے ہے کہ اُنہیں جس درخت کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا تھا وہ سیب کا تھا، اور یہ کہ وہ ثمرِ ممنوع سیب ہی تھا جسے کھانے پر اُنہیں دنیا میں بھیجا گیا۔ دوسرا سیب جو بہت مشہور ہوا وہ عظیم ہیئت دان و ریاضی دان آئزک نیوٹن سے نسبت رکھتا ہے، جس کے ٹوٹ کر گرنے اور سر پر آ لگنے سے اُسے کششِ ثقل کے بارے میں سوچنے کی تحریک ملی۔ اور تیسرا سیب بیسویں اور اکیسویں صدی کا مشترکہ اثاثہ ہے، یعنی امریکہ کی ہائی ٹیک کمپنی جو 1977ء میں اسٹیو جابز نے ایک گیراج میں قائم کی تھی۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں افراد کے لیے وہ لوگو حیثیت کی نمایاں علامت ہے جو ایک ایسے سیب کا ہے جسے ’’چَک‘‘ مارا گیا ہے۔ یہ کھایا ہوا سیب اپنے شعبے کی اَن گنت کمپنیوں کو کھا چکا ہے۔ ایپل کی مجموعی مالی حیثیت (مارکیٹ ویلیو) 3 ہزار ارب ڈالر کا نشان پار کرگئی ہے۔ بھارت جیسی بڑی معیشت کا مجموعی حجم 2620 ارب ڈالر ہے۔ ایپل کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ اس ایک کمپنی نے کئی حوالوں سے خود کو مثالی ادارہ ثابت کیا ہے۔
ایپل کا لوگو 1977ء میں روب جینوف نے تیار کیا تھا۔ اسٹیو جابز ایک بار سیب کے باغ سے گزر رہا تھا تب اُسے اپنی کمپنی کے لیے سیب کا لوگو بنانے کا خیال آیا۔ بیٹلز نے جب 1986ء میں اپنے ریکارڈنگ لیبل کی ابتدا کی، تب اُسے ایپل ریکارڈز کا نام دیا۔ اُس کے لوگو میں ایک چمکتا ہوا سیب پیش کیا گیا۔
آج امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ایپل کا بولا بالا ہے۔ اُس کے شیئر کی قیمت 182.88 ڈالر سے بھی زیادہ ہوکر ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔ کورونا کی وباء کے دوران صرف ایپل نہیں بلکہ تمام ہی ہائی ٹیک کمپنیوں کی چاندی ہوگئی۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے نفاذ نے آن لائن کاروبار چمکا دیا۔ تعلیم بھی چونکہ آن لائن ہوچکی ہے اس لیے اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی فروخت میں فقید المثال اضافہ ہوا ہے۔ یہ کچھ ہائی ٹیک اداروں کے حق میں جاتا ہے۔ 2020ء میں کورونا کی وباء کے زمانۂ عروج کے موقع پر ایپل کی مجموعی مالیت 2 ہزار ارب ڈالر کی سطح سے بھی بلند ہوگئی۔ 2 ہزار ارب ڈالر کی سطح سے 3 ہزار ارب ڈالر کی سطح تک پہنچنے میں ایپل کو صرف 16 ماہ لگے۔ آئی فون کے علاوہ ایپل اب ایپل میوزک، ایپل ٹی وی پلس اور ایپل اسٹور کے ذریعے بھی غیر معمولی کمائی یقینی بنائے ہوئے ہے۔ ایپل اسٹور کی آمدنی میں 70 فیصد حصہ وڈیو گیمز کا ہے۔
5 سال کے دوران ایپل نے کامیابی کی منازل اِتنی تیزی سے طے کی ہیں کہ عام آدمی اور ماہرین… سبھی حیران رہ گئے ہیں۔ اس مدت میں ایپل کے شیئر کی قیمت میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز انڈیکس کی مجموعی مالیت میں ایپل کا حصہ 7 فیصد تک ہے۔ کسی بھی اور ہائی ٹیک کمپنی کو اتنی بھرپور کامیابی نہیں مل سکی۔ کورونا کی وباء کے دوران اور بالخصوص لاک ڈاؤن کے زمانے میں ایپل کی مصنوعات آلو پیاز کی طرح فروخت ہوئیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تنہائی اور بے زاری سے نجات یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں لوگوں نے ایپل کی مصنوعات کا سہارا لیا۔
آئی ٹی کے شعبے میں ہائی ٹیک پر نظر رکھنے والے ماہرین اور مبصرین کہتے ہیں کہ ایپل بھرپور کامیابی کی جس بلندی پر پہنچ چکی ہے اُس سے زیادہ بلند ہونا اب اُس کے لیے بہت مشکل ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ جدت کا بازار گرم رکھنا انتہائی دشوار ثابت ہورہا ہے۔ آئی فون میں کوئی نئی بات پیدا کرنا اب کمپنی کے تحقیق و ترقی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے لیے سوہانِ روح ہوچکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 3 ہزار ارب ڈالر سے 4 ہزار ارب ڈالر کی مجموعی مالیت یا مارکیٹ ویلیو تک پہنچنا ایپل کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ ایپل کی آمدن میں نصف سے زیادہ حصہ آئی فون کا ہے۔ اب اگر ایپل کو آگے بڑھنا ہے تو آئی فون کو ایک طرف ہٹاکر اپنی دیگر مصنوعات اور خدمات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ایپل کا نظم و نسق سنبھالنے والوں کو اِس کا بخوبی اندازہ ہے، اس لیے اب سیلف ڈرائیونگ کار اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں خوب کام ہورہا ہے۔
یورپ کی متعدد اسٹاک مارکیٹس میں رجسٹرڈ تمام کمپنیوں کے اجتماعی سرمائے سے بھی زیادہ سرمایہ ایپل کا ہے۔ امریکہ کی مجموعی خام قومی پیداوار 20.09 ہزار ارب ڈالر ہے۔ چینی معیشت کا حجم 14.7 ہزار ارب ڈالر، جاپانی معیشت کا حجم 5.1 ہزار ارب ڈالر، اور جرمن معیشت کا حجم 3.8 ہزار ارب ڈالر ہے۔ صرف اِن چار ممالک کی معیشت کا حجم ایپل کی مجموعی مالیت سے بڑھ کر ہے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی اور کینیڈا کا معیشتی حجم بھی ایپل کی مجموعی مالیت سے کم ہے۔ مائیکرو سوفٹ، الفابیٹ، امیزون، ٹیسلا اور میٹا بھی ایپل سے بہت پیچھے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ایپل کے لیے کبھی کوئی مشکل کھڑی ہی نہیں ہوئی۔ ہائی ٹیک کی مارکیٹ کا ایک بڑا شیئر اپنے نام کرنے پر اُس کے بدخواہوں کی تعداد بھی کم نہیں، اور اُس سے حقیقی شکایات رکھنے والے بھی بہت ہیں۔ بھارت کے مسابقتی کمیشن نے ایپل کے خلاف تحقیقات شروع کی ہے۔ ایپل پر ایک بڑا الزام یہ ہے کہ وہ مارکیٹ میں اپنا بڑا حصہ بنائے رکھنے اور تمام حریفوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مسابقت سے متعلق تمام قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی کررہی ہے۔ ایسا ہی ایک کیس یورپی یونین میں بھی چل رہا ہے۔ 2020ء سے ایپل کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے۔ گوگل پر بھی ایسا ہی الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں جو ایپس بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہیں ویسی ہی کوئی ایپ اگر مارکیٹ میں آئے تو ایپ اسٹور میں اُس کی قیمت مقرر کردیتی ہیں تاکہ صارفین اُس نئی ایپ کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اِن دونوں اداروں ہی کی تیار کردہ ایپس استعمال کرنے کی تحریک پاتے رہیں۔ یورپی یونین کے ارکان کے علاوہ بھارت اور چند دوسرے ممالک میں بھی متعدد ہائی ٹیک کمپنیوں نے ایپل کے مجموعی رویّے کے حوالے سے شکایات درج کرائی ہیں۔ سوئیڈن کی کمپنی اسپورٹ نے بھی ایپل کے خلاف ایسا ہی کیس درج کرا رکھا ہے۔
ایپل محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک دنیا ہے۔ یہ انوکھی کاروباری دنیا مختلف حوالوں سے ایک بڑی اور نمایاں مثال کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت ایپل میں ایک لاکھ 40 ہزار ملازمین کام کررہے ہیں۔ 2018ء میں ایپل نے ہر روز 8 لاکھ، 49 ہزار 450 آئی فون بیچے تھے۔ 2021ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایپل نے ہر منٹ 6 لاکھ، 91 ہزار 235 ڈالر کمائے۔
ایپل آئی فون کے ہر اشتہار میں 9 بج کر 41 منٹ کا وقت دکھایا جاتا ہے۔ 2007ء میں ٹھیک اِس وقت اسٹیو جابز نے پہلے آئی فون کی نقاب کشائی کی تھی۔ دنیا بھر میں سب سے پہلے پرسنل کمپیوٹر اسٹیو جابز ہی نے بنایا تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جسے یہ خیال آیا کہ کمپیوٹر گھر میں رکھا جاسکتا ہے یا ہونا چاہیے۔ آئی فون کے ذریعے اسٹیو جابز نے دنیا کو پیغام دیا کہ ٹیکنالوجی کو بھی انتہائی خوبصورت روپ کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ آئی فون کے ساتھ ٹیکنالوجی کو ذوقِ جمال کی تسکین کرنے والی چیز کی شکل میں پیش کیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ اسٹیو جابز نے کمپنی کو محض ذاتی اثاثے کی حد تک نہیں رہنے دیا۔ اُس کا قائم کیا ہوا ادارہ آج بھی پنپ رہا ہے، منزلیں مارتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اسٹیو جابز اب دُنیا میں نہیں مگر اُس کا قائم کیا ہوا ادارہ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار رہتے ہوئے اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین کارکردگی کا نمونہ بن کر سب کے سامنے ہے۔