کشمیر پریس کلب پر فوجی ایکشن

15 جنوری کو ریاست جموں وکشمیر کے اعصابی مرکز شہرِخاص سری نگر کے پریس کلب میں اچانک بندوق برداروں کے جتھے دروازے توڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور پریس کلب کے اسٹاف کو ڈرا دھمکاکر ریکارڈ اور نقد رقم قبضے میں لی اور اعلان کیا کہ پریس کلب کی نئی باڈی قائم ہوگئی ہے۔ نئی باڈی کے ساتھ پولیس اور نیم فوجی دستے تھے، اور وہ کلب کی اصل انتظامیہ اور ارکان کو باہر دھکیل رہے تھے۔ اس کے بعد سے سری نگر پریس کلب کی عمارت کو سیل کرکے اس کی صحافیوں کو الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی۔ اُس وقت سے سری نگر کے صحافی سراپا احتجاج ہیں، اور وہ ایک تفریحی اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے مقام اور اجتماعیت سے محروم کردئیے گئے ہیں۔
صاحبانِ فکر ونظر نے اسے سرکاری بغاوت قرار دیا۔ اس بغاوت کے سرکاری ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ یہ فوجی آپریشن طرز کی کارروائی تھی، جس کے لیے ماضی کی کچھ باتوں کو بہانہ بنایا گیا، اس میں دوسال سے کلب کے انتخابات کا انعقاد نہ ہونا، اور نئے قانون کے تحت رجسٹریشن نہ ہونا جیسے عذرلنگ شامل تھے۔ دوسال سے انتخابات کے التوا کی وجہ کورونا کی پابندیاں اور بھارتی حکومت کی طرف سے لاک ڈائون تھا، جبکہ اب حالات بہتر ہوتے ہی کلب کی موجودہ انتظامیہ نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ رجسٹریشن کے معاملات بھی حل ہونے کو تھے، اور کلب کی انتظامیہ نے چند دن قبل ہی رجسٹریشن کا معاملہ حل ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ اس سب کے باوجود بھارتی حکومت اور ایجنسیوں نے آپریشن کے انداز میں کشمیر پریس کلب پر نہایت بھونڈے انداز میں قبضہ کیا، اور سلیم پنڈت نامی ایک پراسرار صحافتی کردار نے اس بغاوت میں اہم کردار ادا کیا۔
سلیم پنڈت ٹائمز آف انڈیا کا نمائندہ اور بھارتی ایجنسیوں کا مقرب ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد اس شخص کو بھارتی حکومت نے حفاظتی گارڈ فراہم کیے۔ اسی شخص نے اپنی اسٹوری میں سری نگر کے ایک انگریزی اخبار پر لشکر طیبہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے اور اس کے ہمدردوں کو اخبار کے دفتر میں نوکریاں دینے کا الزام عائد کیا۔ یہ دوباتیں اس صحافی نما شخص کو ففتھ کالمسٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
سری نگر پریس کلب کے تین سو ارکان نے اس فوجی آپریشن کو مسترد کیا ہے اور اسے آزادیِ صحافت کا قتل قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے مدتوں تک سری نگر میں پریس کلب قائم ہی نہیں ہونے دیا۔ اس کی وجہ کشمیری صحافت میں اجتماعیت کے جذبات و احساسات اور اس سے اُبھرنے والی طاقت کو روکنا تھا۔2018ء میں سری نگر میں پہلی بار محبوبہ مفتی کی حکومت نے پریس کلب کے قیام کے لیے عملی اقدامات کیے اور صحافیوں کو ایک بلڈنگ فراہم کی۔
سری نگر کی صحافت جرأ ت اور بہادری کا استعارہ رہی ہے۔ بدترین ریاستی جبر کے ماحول میں اس صحافت نے شعبان وکیل، مشتاق علی اور شجاعت بخاری جیسے کردار پیدا کیے، جنہوں نے قلم کی قیمت اپنی جان کی صورت میں ادا کی۔ یوسف جمیل جیسے کردار آج بھی کشمیر میں موجود ہیں، جن کا وجود اس راہ میں زخموں سے چُور ہوتا رہا ہے اور جنہوں نے بموں کی کرچیاں اپنے بدن پر سہی ہیں۔ کشمیر کی صحافت نے حق بات کبھی ڈنکے کی چوٹ پر کی، اور جب یہ ممکن نہ رہا تو اشاروں، کنایوں اور استعاروں میں جابر طاقت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بشیر احمد بشیر کے کارٹون گھٹن اور جبر کے ماحول میں حریتِ فکر اور حریتِ عمل کی پوری داستان ہوا کرتے تھے۔ سری نگر میں مدتوں سے روزنامہ اور ہفت روزہ اخبارات کا ایک ریلا موجود رہا ہے جن کے ساتھ سیکڑوں صحافیوں کا روزگار وابستہ رہا ہے۔
اس چمکتی دمکتی صحافت کے باوجود بھارت نے دانستہ یہاں پریس کلب قائم نہیں ہونے دیا۔ اب جبکہ پریس کلب قائم ہوا تو اس میں روایتی کٹھ پتلی تماشا شروع کردیا۔ بھارت کی نفسیات یہ ہے کہ کشمیر میں ہر شعبے میں پتلی تماشا کیا جائے۔ اصلی اور جینوئن لوگوں سے بھارت ہمیشہ خوف زدہ رہا ہے۔ اس خوف کا آغاز 1953ء میں اُس وقت ہوا جب بھارت نے کشمیریوں کے مقبول لیڈر شیخ محمد عبداللہ کی عوامی مقبولیت اور اپنے مطالبۂ رائے شماری پر اصرار کی روش سے تنگ آکر اُن کا متبادل تلاشنا اور تراشنا شروع کیا، اور بھارتیوں کو اس میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ شیخ عبداللہ کے دستِ راست بخشی غلام محمد کو اُن کی جگہ کشمیر کا وزیراعظم بنایا گیا جنہوں نے بھارت کی مطلب براری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اس کے بعد سے پتلی تماشا کرنا بھارت کا مشغلہ بن گیا۔اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بھارت کو کشمیر پریس کلب میں بھی آزاد ضمیر صحافی قبول نہیں، اور ان کی جگہ صحافت میں ’’بخشی غلام محمد‘‘ جیسے ٹیسٹ ٹیوب کردار بندوق کی نال پر تراشے جانے لگے ہیں، اور انہیں عوام کے حلق میں زبردستی انڈیلا جا رہا ہے۔مصنوعی کردار کاغذ کے سپاہی ہیں جو نہ اپنے کسی کام کے ہیں اور نہ کسی مشکل وقت میں بھارت کے کام آسکتے ہیں، کیونکہ ایسے کردار وں کی معاشرے میں قبولیت نہیں ہوتی۔ ایک طرف جینو سائیڈ واچ کے بانی نے کشمیر میں نسل کُشی کی پیش گوئی کی ہے، تو دوسری طرف بھارت نے سری نگر پریس کلب میں آزاد آوازوں کو دباکر اپنی بازگشت کو اصلی آواز بناکر پیش کرنا شروع کیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک حالات کی آمد کا اشارہ ہے۔