یمن! تازہ کشیدگی بدامنی و بدنصیبی کی داستان

ارضِ فلسطین کی طرح جزیرہ نمائے عرب کا جنوبی حصہ بھی عرصے سے لہولہان ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جن فتنہ گروں نے ”برکتوں والی سرزمین“ کو جہنم زار بنایا، وہی اب ”وادیِ رحمت“ کو غارت کررہے ہیں۔ وادیِ رحمت سے ہماری مراد یمن ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کا یہ جنوبی حصہ زرخیزی کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا، جس کی بنا پر اس خطے کو یُمن کہا جاتا تھا جس کا اردو ترجمہ مبارک یا فیض رساں کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طلوعِ اسلام کے بعد جب ہدایت کی کرنیں یہاں پہنچیں تو اہلِ یمن کی اکثریت نے دینِ حق کو فوراً قبول کرلیا، اسی وجہ سے کچھ صحابہ یہاں رہنے والوں کو پیار سے ”اہلِ یمین“ (دائیں بازو والے) پکارتے تھے۔ یمن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ نقشے کے جنوبی حصے کو قدیم جغرافیہ دان شمال کے مقابلے میں دایاں کہا کرتے تھے، اس لیے عرب دنیا کے اس جنوبی حصے کا نام یمن پڑگیا۔
یمن ملکہ سبا کا علاقہ تھا۔ ملکہ کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دستِ حق پر قبولِ اسلام کا ذکر سورہ النمل میں موجود ہے، جبکہ سورہ سبا میں یمن کے حوالے سے سیل العرم (بند توڑ سیلاب) کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تباہ حال بند کا ملبہ آج تک لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنا ہوا ہے، اور اس کے قریب ہی 1980ء میں ایک جدید ترین مَأرب ڈیم تعمیر کیا گیا۔
تین کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشمل اس ملک میں مسلمانوں کا تناسب 99 فیصد ہے جن میں 93 فیصد عرب اور 6 فیصد افریقی نژاد ہیں۔ افریقیوں میں صومالی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یمن نوجوانوں کا ملک ہے، کہ 65 فیصد یمنی 25 سال سے کم عمر کے ہیں۔
پہلی جنگِ عظیم اور عثمانی خلافت کے خاتمے پر یمن کے جنوبی حصے پر متوکلی شہنشاہیت قائم ہوئی، جس کے بانی فرقہ زیدیہ کے روحانی و عسکری پیشوا امام یحییٰ محمد تھے۔ جبکہ شمالی یمن سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زیراثر رہا۔ گزشتہ صدی کے نصف میں صدر جمال ناصر نے عرب قومیت کا نعرہ لگایا اور جلد ہی جنوبی یمن کے نوجوان بھی اس تحریک سے متاثر ہوگئے۔ صدر ناصر کی نظریں بحر احمر پر تھیں۔ نہر سوئز کی شکل میں اس سمندر کے شمال پر ان کا مکمل کنٹرول تھا۔ صدر ناصر کا خیال تھا کہ اگر آبنائے باب المندب کو قابو کرلیا جائے تو بحر احمر مکمل طور پر ان کے زیراثر آجائے گا۔ دوسری طرف وہ شام میں اپنا رسوخ بڑھاکر بحر روم تک رسائی چاہتے تھے، چنانچہ شام و مصر کا الحاق کرکے عرب متحدہ جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی اور 1958ء میں جنوبی یمن کی متوکلی سلطنت بھی اس الحاق کا حصہ بن گئی۔
سعودی عرب کے لیے یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن تھی کہ جدہ اور ینبوع سمیت مملکت کی تمام بڑی بندرگاہیں اور آبی راستے غیر محفوظ ہوگئے۔ تاہم 1961ء میں شام نے مصر سے الحاق ختم کردیا اور جلد ہی یمن بھی اس اتحاد سے نکل گیا۔ یمن پر کنٹرول کے لیے خونریزی جاری رہی۔ 22مئی 1990ء کو جنوبی و شمالی یمن نے باہم الحاق کرکے یمن عرب ری پبلک کے نام سے ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم کرلی۔ علی عبداللہ صالح متحدہ ریاست کے پہلے صدر اور جنوبی یمن کے کمیونسٹ رہنما علی سالم البیض نائب صدر مقرر ہوئے۔ تاہم صرف چار سال بعد ہی علی سالم نائب صدارت سے استعفیٰ دے کر عدن واپس چلے گئے جہاں انھوں نے جنوبی علاقوں کے استحصال کا الزام لگاکر جنوبی یمن کو خودمختار ریاست بنانے کا مطالبہ کیا، اور ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ صدر علی عبداللہ نے طاقت کے بے دریغ استعمال سے بغاوت کی تحریک کچل دی۔
یمن میں شیعہ سنی کشیدگی کا آغاز اس صدی کے آغاز پر ہوچکا تھا جب 2004ء میں زیدی شیعہ فرقے کے سربراہ حسین بدرالدین الحوثی نے علی عبداللہ صالح پر کرپشن کا الزام لگاکر حکومت کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے عام لوگ بھی مشتعل تھے، چنانچہ زبردست مظاہرے ہوئے جسے صالح حکومت نے طاقت سے کچل دیا اور درجنوں افراد پولیس فائرنگ سے مارے گئے۔ اگلے کئی برسوں تک یمن بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں رہا لیکن اخوانی فکر کی حامل جمعیت الاصلاح کی کوششوں سے سنی شیعہ کشیدگی ایک حد میں رہی۔
امریکہ نے 2004ء میں الاصلاح کے قائد شیخ عبدالمجید زندانی کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ ان پر القاعدہ اور کردستان کی انصارالاسلام سے تعلقات کا الزام ہے۔ امریکی سی آئی اے کا خیال ہے کہ 1993ء میں ان کی قائم کردہ جامعہ ایمان انتہا پسندی کی تعلیم دیتی ہے اور افغانستان میں گرفتار ہونے والے بہت سے نوجوان مبینہ طور پر ایمان یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ صنعا کی یہ جامعہ یمن میں اعلیٰ تعلیم کا بہت ہی موقر ادارہ سمجھا جاتا تھا جسے حوثیوں نے 2014ء میں مقفل کردیا۔
جب دسمبر 2010ء میں تیونس سے عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا تو صرف چند ہی ہفتوں میں یہ ہر یمنی کے دل کی آواز بن گئی۔ شام اور لیبیا کی طرح یمن میں بھی فرقہ پرستوں نے شہری آزادیوں، حاکمیتِ عوام اور شورائیت کی اس مقدس تحریک کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، لیکن ابتدا میں مذہبی رواداری اور مسلکی یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ سامنے آیا۔ یمن کی نصف آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ باقی امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں، ایک مختصر سی تعداد احناف کی بھی ہے۔ صدر صالح کا تعلق شیعہ مکتبِ فکر سے ہے۔ لیکن حکومت مخالف تحریک کے دوران ان کا مسلک ایک بار بھی زیربحث نہیں آیا حالانکہ ان کے خلاف تحریک کے دونوں بڑے قائدین الاصلاح کے شیخ عبدالمجید زندانی اور سوشلسٹ یونین کے سربراہ شوقی الفیصل کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔
شیخ صاحب کو دہشت گرد قرار دینے کے دوسال بعد یعنی 2006ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے باوجود الاصلاح نے قومی اسمبلی کی 46 نشستیں جیت لیں۔ منتخب ہونے والوں میں خواتین رہنما توکل کرمان بھی شامل تھیں جنھیں 2011ء میں نوبیل امن انعام عطا ہوا۔ شعلہ بیان مقررہ توکل کرمان کو الاصلاح نے پارلیمانی سربراہ منتخب کرلیا، چنانچہ وہ قائد حزبِ اختلاف بن گئیں۔ گویا تیونس اور مصر کی طرح یمن میں بھی عرب اسپرنگ کی قیادت اخوان کے ہاتھ آگئی۔ توکل کرمان اور الاصلاح کے سربراہ عبدالمجید زندانی نے حکومت مخالف تحریک کو فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر رکھا، لیکن مغرب کو یہ منظور نہ تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی یمن میں اخوان المسلمون کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر تشویش تھی، چنانچہ دہشت گردی کے الزامات کا بار بار اعادہ کرکے توکل کرمان اور الاصلاح کو غیر مؤثر کردیا گیا۔
بدامنی اور بم دھماکوں کے باوجود الاصلاح کی کوششوں سے پسِ پردہ مذاکرات جاری رہے اور نائب صدر عبدالرب منصور الہادی قائم مقام صٖدر بنادیئے گئے۔ فروری 2012ء میں انتخابات منعقد ہوئے جس میں منصورالہادی دو سال کے لیے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے، لیکن سابق صدر علی صالح کے صاحبزادے جنرل احمد علی عبداللہ صالح کا فوج میں عمل دخل برقرار رہا۔ اس دوران القاعدہ کی سرکوبی کے نام پر امریکی فوج کی سرگرمیوں اور ڈرون حملوں میں شدت آگئی۔ کئی بار ان حملوں کا نشانہ زیدی شیعہ فرقے کے حوثی بھی بنے، چنانچہ گروپ کے قائد عبدالملک الحوثی دارالحکومت صنعا پر چڑھ دوڑے۔
صدر منصورالہادی اور ان کے اماراتی و سعودی سرپرستوں کو اُس وقت تک حوثیوں کی قوت کا اندازہ ہی نہ تھا، اور خلیجی حکمرانوں کی ساری قوت الاصلاح کو منظر سے ہٹانے پر مرکوز تھی۔ حوثیوں کے مطالبے پر صدر منصورالہادی کثیر البنیاد (Unity) حکومت بنانے پر راضی ہوگئے لیکن حوثیوں کا دبائو برقرار رہا، اور ان کے خوف سے منصور الہادی کابینہ کی اکثریت مستعفی ہوگئی، حتیٰ کہ ایوانِ صدر کا گھیرائو کرکے حوثیوں نے صدر صاحب کو عملاً ان کے گھر پر نظربند کردیا۔ محمد علی الحوثی کی قیادت میں ایک انقلابی کونسل قائم ہوئی جس نے عبدالملک الحوثی کو قائم مقام صدر مقرر کیا، لیکن الاصلاح سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں نے حوثی حکومت کو مسترد کردیا۔
صدر منصورالہادی اپنے وفادار سپاہیوں کی مدد سے حوثیوں کا گھیرا توڑ کر جنوبی یمن فرار ہوگئے اور دارالحکومت صنعا سے جنوبی یمن کے شہر عدن منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ سن کر حوثیوں نے جنوب کی طرف پیش قدمی شروع کردی اور یمنی صدر سعودی عرب فرار ہوگئے۔
حوثیوں کی اس فیصلہ کن پیش قدمی سے چند ہفتہ پہلے ہی شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS سعودی عرب کے نائب ولی عہد مقرر ہوئے تھے۔ دوسری جانب امارات میں بازصفت محمد بن زیدالنہیان المعروف MBZ کے سر پر علاقائی طاقت بننے کا خبط پہلے سے سوار تھا۔ ان کی نظریں خلیج عدن کی بندرگاہ اور بحر عرب کے یمنی جزیرے سقطریٰ پر تھیں۔ 38 سو مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل السقطریٰ کئی جزائر پر مشتمل ہے، جغرافیہ کی اصطلاح میں اسے مجمع الجزائر یا Archipelago کہا جاتا ہے۔ سقطریٰ انتہائی مصروف آبی شاہراہ پر واقع ہے۔ خلیج فارس اور بحر احمر سے آنے والے جہاز سقطریٰ کے ساحلوں کو تقریباً چھوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند کی راہ لیتے ہیں۔ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل سقطریٰ کے گورنر استاذ رمزی محروس السقطری اخوانی فکر سے متاثر تھے۔ فقیر منش استاذ محروس کے وفاقی حکومت کے ساتھ حوثیوں سے بھی اچھے مراسم تھے اور ان کی صوبائی کابینہ میں شیعوں کو بھی برابری حاصل تھی۔ اسی بنا پر یہ جزیرہ خانہ جنگی کی ہولناکیوں سےبڑی حد تک محفوظ تھا اور ایران نواز حوثیوں نے بھی سقطریٰ میں مداخلت سے گریز کیا۔
حوثیوں کی پیش قدمی پر جہاںMBS نے خطرے کی گھنٹی بجائی، وہیں MBZنے اسے سقطریٰ ہتھیانے کا نادر موقع جانا اور 26مارچ 2015ء کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ”فیصلہ کن آپریشن“ یا عملیہ عاصفہ الحزم کا آغاز کردیا۔ کویت، قطر، بحرین، اردن، مراکش، سوڈان اور مصر اس خلیجی اتحاد کا حصہ ہیں، بلکہ ابتدائی اعلامیے کے مطابق پاکستان بھی اتحادیوں میں شامل ہے۔ اس آپریشن نے یمنیوں کے لیے بربادی کا دروازہ کھول دیا۔ خلیجی طیاروں نے سارے یمن کو نشانے پر رکھ لیا جس میں شہری اور عسکری اہداف کے درمیان کوئی تفریق نہ تھی۔ آب پاشی و آب نوشی کے ذخائر کو چن چن کر تباہ کیا گیا، جس سے ایک طرف زراعت کا نظام تباہ ہوا، تو دوسری جانب سیوریج اور پینے کا پانی مل جانے کی بنا پر کئی علاقوں میں ہیضہ اور دوسرے وبائی امراض پھوٹ پڑے۔ خلیجی اتحاد کے مقابلے کے لیے ایران بھی کھل کر حوثیوں کی پشت پر آکھڑا ہوا۔
معاملہ صرف یمن تک محدود نہیں۔ حوثی ریاض سمیت سعودی عرب کے مختلف شہروں اور تیل کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ یمن کی سرحد کے قریب واقع سعودی شہر ابہا پر راکٹ باری عام ہے۔ آبنائے باب المندب سے گزرتے سعودی تیل ٹینکروں اور بحری جہازوں پر کئی بار حملے کیے گئے۔ بحراحمر بھی حوثیوں سے محفوظ نہیں، اور کئی بار ان کے ایرانی ساختہ میزائلوں اور ڈرون نے وہاں کھڑے جہازوں کو ”ہراساں“ کیا۔
اس ماہ کی 17 تاریخ کو حوثی ملیشیا نے ابوظہبی کے صنعتی علاقے مصفح الصنائیہ کو نشانہ بنایا۔ ان کے ڈرون حملوں میں ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) کی تیل ذخیرہ کرنے والی تنصیبات میں آگ بھڑک اٹھی۔ الجزیرہ کے مطابق پیٹرول سے بھرے 3 ٹینک تباہ ہوگئے۔ حملے میں تنصیبات پر کام کرنے والے دو ہندوستانی اور ایک پاکستانی کارکن بھی مارے گئے۔ مصفح کے علاوہ ابوظہبی کے نئے زیرتعمیر ائرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
حوثی سعودی عرب کو تو ایک عرصے سے ڈرون کے ذریعے نشانہ بناتے رہے ہیں اور ماضی میں اماراتی بندرگاہوں پر بھی مشکوک کارروائیاں کی گئی ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب امارات کی سرزمین پر براہِ راست حملہ کرنے کے بعد حوثیوں نے ذمے داری قبول کی ہے۔ حملے کے بعد حوثیوں کے عسکری ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ سریع نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کے منجنیقی (Ballistic) میزائلوں اور ڈرون نے امارات میں اہم اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔
انھوں نے بے گناہ مزدوروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہری اپنے تحفظ کی خاطر اہم تنصیبات سے دور رہیں۔ حوثیوں کے تیور سے اندازہ ہوتا ہے کہ امارات کے خلاف اس قسم کی کارروائیاں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف امارات نے حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس گھنائونی کارروائی کے ذمے داروں کو نشانِ عبرت بنادینے کا عزم ظاہر کیا اور جوابِ آں غزل کے طور پر خلیجی اتحاد کے بمباروں نے دارالحکومت صنعا کی مرکزی جیل کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ڈرون بنانے کی فیکٹری کو نشانہ بنایا ہے، لیکن ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ”ماورائے سرحد معالجین“ (فرانسیسی مخفف MSF) نے شہادت دی ہے کہ بمباری سے جیل اور متصل شہری آبادی متاثر ہوئی۔ حملے میں درجنوں زیر حراست غیر ملکی تارکین وطن مارے گئے۔
یہ بے مقصد جنگ کون جیتے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، لیکن اس وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ پورے یمن میں اب چند ایمبولینس باقی رہ گئی ہیں، اور بمباری و گولہ باری سے مجروح افراد گلیوں میں ایڑیاں رگڑتے نظر آتے ہیں۔ اگر تنومند رشتے دار زخمیوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اسپتال لے جانے میں کامیاب ہوجائیں تو اندر داخل ہونا ناممکن، کہ ہیضے کے مریض باہر تک لیٹے ہوئے ہیں۔ مرنے والوں کا کیا پوچھنا، کہ یہاں زندہ بچ جانے والوں کا یہ حال ہے کہ بھوک و بیماری سے بلبلاتے یہ بدنصیب بآوازِ بلند موت کی دعائیں کررہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ فریاد نہیں بلکہ مُردہ انسانیت کا نوحہ ہے۔ تاہم انسانوں کو ان مظلوموں کے نہ آنسو دکھائی دیتے ہیں اور نہ دل دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں، کہ دنیا کی آنکھوں پر مفاد کی پٹیاں اور کانوں میں بے حسی کی روئی ٹھنسی ہوئی ہے۔
………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔