وزیراعظم بے بس یا بااعتماد؟

اس ہفتے سیاسی موسم اس قدر گرم دکھائی دیا کہ فیصلہ کرنا مشکل معلوم ہورہا تھا کہ کس موضوع پر گفتگو کی جائے، تاہم وزیراعظم کا یہ جملہ’’حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘ ساری مشکل ہی آسان کرگیا۔ اس جملے کا تجزیہ کرنے اور اسے پرکھنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ جس وزیراعظم کے دامن پرعوامی بھلائی اور احتساب میں ناکامی، دشنام طرازی، پارلیمنٹ کو بے وقعت کردینے، سیاست کو ذاتی دشمنیوں تک لے آنے، کشمیر کے معاملے میں خاموشی کے داغ ہوں، وہ کیا خطرناک ہوگا؟ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹیلی فون پر عوام کے سوالوں کے جواب اگر غیر سیاسی، اجتماعی مسائل، لوگوں کو درپیش مشکلات سننے اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کی فوری کارروائی کے احکامات تک ہی محدود رہتے تو شاید زیادہ مناسب ہوتا۔ بیشتر جمہوری معاشروں میں کئی ممالک کے سربراہانِ مملکت عوامی مشکلات کا براہِ راست جائزہ لینے کے لیے ایسی مشق کرتے رہتے ہیں، مگر ایسے پروگراموں میں سیاسی معاملات پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی گفتگو اپوزیشن پر تنقید اور الزامات کے ضمن میں الفاظ کے چنائو کے حوالے سے مناسب نہیں، اور نہ یہ ان کے منصب کے شایانِ شان ہے۔ انہیں احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے مہنگائی، بے روزگاری اور منی بجٹ کے کڑے اثرات عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’اگر میں حکومت سے نکل گیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘، اس میں اُن کا مخاطب کون تھا؟ معلوم ہوتا ہے وہ لانے والوں سے خوش تھے، اب نہ بچانے والوں پر برس رہے ہیں۔ وزیراعظم کا غصہ، ناراضی اور تیورکا اشارہ کس جانب ہے اس کی وضاحت وہ خود فرمادیں توآسانی رہے گی، ورنہ توپوں کا رخ ایک جانب ہی دکھائی دے گا۔ ان کا مخاطب کوئی بھی ہو، وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے خلاف اپنا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں، اسے جمہوریت کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، ایسا کریں گے تو یہ آئین اور خدا سے غداری ہوگی۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان نے خود کہا ہے کہ انہیں اپوزیشن پارلیمنٹ میں تقریر نہیں کرنے دیتی اور دوسری طرف وہ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا تو درکنار، ملنا تک گوارا نہیں کرتے۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس کے ادارے اور عہدے آئین کے تابع ہوتے ہیں۔ جس ایوان نے وزیراعظم عمران خان کو قائدِ ایوان کا منصب عطا کیا ہے اُسی ایوان نے شہبازشریف کو قائدِ حزبِ اختلاف کی ذمے داری سونپی ہے، دونوں مناصب کا احترام ہونا چاہیے۔ قائدِ حزبِ اختلاف سے قائدِ حزبِ اقتدار کی ملاقات غداری کیسے ہوسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کئی آئینی کام صرف اس وجہ سے رکے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے ملاقات پر آمادہ نہیں۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں، وہ کنٹینر پر نہیں کھڑے، بلکہ ملک کے مقتدر ایوانِِ وزیراعظم میں مقیم ہیں۔ ان کے ہاتھ میں حالات کی نبض ہے۔ وہ ملک کے سیاسی درجۂ حرارت کو اپنے فیصلوں سے نارمل رکھ سکتے ہیں۔ وہ اگر اپوزیشن اور اپوزیشن لیڈر کو عزت دیں گے تو انہیں یہ شکوہ نہیں رہے گا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن انہیں بولنے نہیں دیتی۔ ملکی تاریخ شاہد ہے کہ جب سیاسی کشیدگی بڑھتی ہے، جمہوری و آئینی ادارے کام نہیں کرپاتے تو نادیدہ خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ یہ خطرات اب بھی منڈلا رہے ہیں اور کہیں صدارتی نظام اور کہیں غیر آئینی تبدیلیوں کی افواہیں گرم رہتی ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کوئی ایسا منصب نہیں جو مادر پدر آزاد اختیارات کا حامل ہو، یہ ایک آئینی منصب ہے اور اس کی مضبوطی کا انحصار پارلیمنٹ کی مضبوطی پر ہے۔ آئین میں سب کچھ واضح ہے، اور اگر ہر منصب کو اُس کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے احترام و اہمیت دی جائے تو ایک آئیڈیل نظام تشکیل پا سکتا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرثانی کریں، تضحیک کے بجائے دلیل کی زبان استعمال کی جائے۔ کسی کو بھی سیاست دان کے بجائے مافیا کا نام دینا بہت آسان ہے، مگر ردعمل بہت ناخوشگوار ہوتا ہے۔ وزیراعظم کسی کو این آر او دیں نہ رعایت برتیں، مگر ایسی زبان اور القابات استعمال نہ کریں جو اُن کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ یہ گفتگو ایک وزیراعظم کی نہیں معلوم ہوتی۔ یہ کہنا کہ جس طرح کورونا سے نکلے ہیں، مہنگائی سے بھی نکلیں گے، ٹیکس محصولات کا ہدف 8ہزار ارب تک لے جایا جائے گا، ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا، مافیاز نے 1800 عدالتوں سے حکم امتناعی لے رکھے ہیں، وہ تنہا کچھ نہیں کرسکتا، تمام متعلقہ اداروں کو ساتھ دینا ہوگا… یہ سب باتیں اپنی جگہ… مگر جو مزدور، محنت کش، ملازمت پیشہ اب منی بجٹ کے نیچے دب گئے ہیں اُن کا آٹا، دالوں اور دوسری ضروری اشیا کا ماہانہ خرچ پانچ سو گنا بڑھ گیا ہے، اُنہیں تو مناسب اور تسلی بخش جواب ملنا چاہیے۔
وزیراعظم نے 93 منٹ کی گفتگو کے دوران صرف13 سوالوں کے جواب دیے، جس کے بعد انہیں مشورہ دیا جارہا ہے کہ تدبر اختیار کریں، منتخب ارکانِ پارلیمان کے احترام، رابطوں اور مشاورت سے گریز مناسب نہیں ہے۔ الزامات اور مقدمات کے حوالے سے قانون کا اپنا طریق کار ہے جسے بروئے کار آنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ چودھری شجاعت حسین نے بروقت مشورہ دیا کہ غیر منتخب مشیروں کے ایجنڈوں سے بچ کر رہیں، یہ غیر منتخب مشیر ہی ہیںجن کی وجہ سے اپوزیشن پورے قد کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے اور پی ڈی ایم جیسے اپوزیشن اتحاد میں بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ مشترکہ احتجاج، مارچ اور دھرنے کا فیصلہ بہت قریب ہے۔ ہوسکتا ہے اپوزیشن کے لانگ مارچ لاہور سے راولپنڈی کے درمیان کسی جگہ اکٹھے ہوجائیں۔ ایسا بھی ہے کہ حالات تیزی سے عدم اعتماد کی تحریک کی جانب بڑھ رہے ہیں، آئین بھی یہی کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کی اکثریت ہی فیصلہ کرتی ہے کہ قائد ایوان کون ہوگا۔
وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں بے بسی دکھائی کہ وہ پارلیمنٹ میں بات کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں وہاں بات نہیں کرنے دی جاتی۔ مگر وزیراعظم یہ نہیں بتارہے کہ وہ تو پارلیمنٹ سے باہر بھی اہم ترین ملکی ایشوز پر اپوزیشن کے ساتھ ان کیمرہ بات چیت کی کسی اہم ترین مجلس میں شریک نہیں ہوئے، وہاں تو کوئی ایسی صورت نہیں تھی کہ انہیں بات نہ کرنے دی جاتی۔ وزیراعظم نے ’’خطرناک بن جائوں گا‘‘ کا جملہ ایک ایسے وقت میں بولا ہے جب پارلیمنٹ اپنی نصف سے زیادہ مدت مکمل کرچکی ہے اور اب اس کی آخری ڈیڑھ سال کی مدت باقی ہے، مگر ان کے اعصاب جواب دیتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آئندہ دنوں میں ملک میں سیاسی گرما گرمی کا سورج سوا نیزے پر آیا چاہتا ہے۔ ساڑھے تین سال کی مدت کے بعد بھی ایک منظر نامہ سامنے ہے کہ غیرمنتخب مشیروں کے باعث حکومت کی قومی معاملات پر گرفت نہیں ہے، اور وزیراعظم کو عالمی معاہدوں کی بنیادی فکر اور سوچ کا بھی ادراک نہیں ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں انسانی بحران پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ایک ٹویٹ کیا جس میں اقوام متحدہ کے معاہدے آر ٹو پی کا حوالہ دیا، لیکن سفارتی حلقے اسے غلط قرار دے رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’آر ٹو پی کا ایک جزو یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیے سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی جائے‘‘۔ ٹویٹ کے مطابق ’’عالمی برادری کی جانب سے ہنگامی طور پر بھوک و فاقہ کشی کے کنارے پر کھڑے کروڑوں افغانوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد درکار ہے جو کہ متفقہ طور پر اختیار کیے گئے اقوام متحدہ کے فراہمیِ تحفظ کے اصول (R2P) کے تحت یہ ہنگامی مدد فراہم کرنے کی پابند بھی ہے‘‘۔ رسپونسی بلیٹی ٹو پروٹیکٹ جسے آر ٹو پی کہا جاتا ہے، کا اطلاق افغانستان پر نہیں ہوتا۔
آر ٹو پی کیا ہے؟ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ 2005ء کی ایک عالمی کانفرنس میں تمام ملکوں نے اتفاق کیا تھا کہ اگر کسی ملک میں جنگی جرائم، نسل کُشی، قتل عام اور انسانی المیہ جنم لے چکا ہو تو عالمی برادری اس ملک کے عوام کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے کے لیے اپنی فورسز بھیجے گی۔ اس نکتے کے تین بنیادی ستون ہیں کہ ہر ملک اپنے عوام کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کا ذمے دار ہے، ان کے جان مال کی حفاظت کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ ممالک ایک دوسرے کی ذمے داریوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں، جب کوئی ملک اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو باقی ملک اس کی مدد کو آتے ہیں۔ یوں افغانستان کی صورتِ حال پر آر ٹو پی کے کسی ستون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ افغانستان کا مسئلہ بھوک وافلاس ہے، اور اسے مالی طور پر معاونت کا مسئلہ ہے۔ امریکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست کو ناکام ریاست نہیں کہا جا سکتا، اور نہ کہنا چاہیے۔ یہ غلط تشریح کی گئی ہے۔ آج اگر پاکستان آر ٹو پی کی حمایت کرتا ہے تو مستقبل میں ملک کے اندر علیحدگی پسند گروپ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے لاعلمی میں اس اصطلاح کا استعمال کیا، ان کی ٹیم میں کوئی ایسا نہیں جسے آر ٹو پی کا علم ہو؟ یہ تو سیدھی سیدھی فوجی مداخلت کی دعوت ہے کہ آکر انسانی المیے کو کنٹرول کریں۔ افغانستان کی صورتِ حال مختلف ہے۔ پہلے جب افغانستان میں عالمی افواج آئیں وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت آئیں، لیکن اب افغانستان کی صورت حال مختلف ہے۔ اسے مالی معاونت چاہیے جس کے لیے آر ٹو پی کا استعمال نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مالی بحران کے حل اور امداد کے لیے اقوام متحدہ پہلے ہی دنیا سے مدد کی اپیل کرچکی ہے۔ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، وہاں مداخلت کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا رسپونسی بلیٹی ٹو پروٹیکٹ افغانستان پر لاگو نہیں ہوتا۔
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ اور قومی سلامتی پالیسی دو اہم ترین موضوع تھے، جن پر بحث ضروری تھی، مگر ایک خاص حکمت عملی کے تحت پارلیمنٹ میں ان موضوعات پر بحث نہیں ہونے دی گئی اور حکومت نے شوشا چھوڑا کہ مسلم لیگ(ن) کے چار افراد نوازشریف کے خلاف ’’کسی‘‘ سے ملے ہیں، اس کے بعد صدارتی نظام کی بحث چھیڑ دی گئی۔ ان دونوں کی اس قدر گرد اٹھی کہ منی بجٹ اور قومی سلامتی پالیسی پر قومی اسمبلی میں بحث ہی نہیں ہوسکی۔ قومی سلامتی پالیسی کا یہ پہلو پارلیمنٹ میں بحث چاہتا ہے کہ کیا واقعی اب پاکستان میں غیر ملکی شہریوں کو سرمایہ کاری کرنے کے عوض شہریت دیے جانے کی کوئی تجویز ہے؟ اور یہ بات کہاں تک درست ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم غیر ملکی باشندوں کو پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کا موقع دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو یہ غیر ملکی کون ہوں گے؟ اسلام آباد میں باخبر حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرپا رہے۔ وزیر اعظم کیا چاہتے ہیں اور کس کی تبدیلی چاہتے ہیں، اس تبدیلی کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں، یہ جاننے کے لیے تھوڑا سا انتظار کرنا چاہیے۔ اپریل تک ملک کا سارا سیاسی منظرنامہ کھل کر سامنے آجائے گا۔ حکومت کے پاس حالات بہتر کرنے کے لیے یہی دو تین ماہ ہیں، اس کے بعد ملک میں انتخابی مہم کا ماحول بن جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے جس ٹائمنگ کے ساتھ سڑکوں پر آنے اور بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے عقل رکھنے والوں کے لیے اس میں کچھ نشانیاں ہیں۔ شیخ رشید احمد نے چند روز قبل سرپر ہاتھ کی بات کی تھی، انہیں کہا گیا کہ وہ اس بات کی تردید کریں، مگر انہوں نے تردید نہیں کی۔فی الحال پیج ایک ہی ہے کل کا کوئی پتا نہیں ہے، کیونکہ اپریل میں اہم تبدیلیاں متوقع ہیں، اس کے بعد مستقبل کا منظر نامہ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ سیاسی اونٹ کو بیٹھنے کا موقع دینا ہے یا کروٹ لینے کا؟ عدم اعتماد کی تحریک آئے گی یا قبل از وقت انتخابات ہوں گے؟ ویسے تو یہ ایک روایتی جملہ ہے کہ ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے، عشروں سے یہ جملہ سننے کو مل رہا ہے، تاہم اگر آج ملک کے ارد گرد حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایک جانب بھارت اور دوسری جانب افغانستان سے حقیقی خطرات ہیں، اور ایران سے بھی کوئی ٹھنڈی ہوائیں نہیں آرہی ہیں، کابل میں اگرچہ طالبان حکومت میں ہیں، ان کی موجودگی پاکستان اپنے لیے اطمینان بخش سمجھتا ہے، مگر وہاں ایک عرصے سے پاکستان مخالف لابی جس طرح ماضی میں متحرک رہی ہے آج بھی وہ اسی طرح متحرک ہے۔ یہ لابی بھارت کے پے رول پر ہے اور اسے واشنگٹن کی مکمل سرپرستی بھی میسر ہے۔ ماضی میں ہر افغان حکومت ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر پاکستان سے الجھتی رہی ہے اور اسے بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کرتی، طورخم سے پار آج پاکستان کو ایک بار پھر یہی مسائل در پیش ہیں، اس معاملے میں کابل میں ایک لابی پوری طرح فعال ہورہی ہے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اپنے ناپاک ارادوں کے لیے سرگرم ہوچکی ہے۔ پاک افغان سرحد پر افغان فورسز کے حملے بلا مقصد نہیں سمجھے جاسکتے۔ افغان حکومت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اسے ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا، یہ علاقائی صورت ِحال پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر ہم اپنی سرحدوں کے باہر حالات کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں تاجکستان اور کرغیزستان میں مقامی بغاوت اور متحدہ عرب امارات پر حالیہ ڈرون حملے کوذہن میںرکھنا ہوگا۔ ہماری پارلیمنٹ میں یہ مسائل زیر بحث آنے چاہئیں، لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث منعقد ہی نہیں ہوپارہا۔ ہمارے سینئر سیاست دان یا تو ان مسائل کو نہیں سمجھتے، یا وہ صرف اقتدار کی خاطر اندرونی سیاسی سودوں کے موضوع پر بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ’’ڈیل‘‘ کی بات کرتے ہیں، کیونکہ وہ صرف اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اگلی حکومت کیسے حاصل کی جائے۔
اب صدارتی نظام پر نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ تحریک انصاف جو ریاست مدینہ کے نعرے پر آئی تھی، اب صدارتی نظام کی جانب مائل نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریاست مدینہ کے تصور اور ایوب خان کے صدارتی نظام کے سیاسی و نظریاتی فرق کو سمجھ ہی نہیں رہی۔ تاریخ کی گواہی ہے کہ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے نتیجے میں نہ صرف بالغ حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا تھا بلکہ پارلیمانی نظام کو بھی قبول کرلیا گیا تھا، اور اسی کے تسلسل میں 1973ء کے آئین کو پارلیمانی، وفاقی اور جمہوری خطوط پر اتفاقِ رائے سے نافذ کیا گیا تھا، جسے بار بار کی کوششوں کے باوجود ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جا سکا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور پاکستان کے اردگرد تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال پر ہمارا قومی ردعمل کیا ہوگا؟ کیا حکومت عوام کے علم کے لیے اپنا متوقع سرکاری ردعمل پارلیمنٹ میں لا سکتی ہے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک طویل عرصے کے بعد اجلاس میں شریک ہوئے، انہوں نے بھی خارجہ صورتِ حال پر ایوان کو اعتماد میں لینے کے بجائے تحریک انصاف کے ترجمان بن کر اپوزیشن کے لتے لیے، جب کہ انہیں ایوان کو آگاہ کرنا چاہیے تھا کہ ہمارے اردگرد مغرب اور بھارت نے کیسی سنگین ہائبرڈ/پراکسی جنگ مسلط کررکھی ہے، کابل کی کس کس ملک کے ساتھ خاموش مفاہمت ہے؟ یہ آگاہی ہماری پارلیمنٹ کو دینا حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومت پارلیمنٹ کو اس بات کی بھی آگاہی فراہم کرے کہ اب کابل حکومت تاجک، ازبک، ہزارہ اور پنجشیری گروپوں کے حملوں سے بچنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنا رہی ہے؟ اور بھارت کا کردار اب کیا رہ گیا ہے؟
پاکستان کی حکومت تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لے رہی، تاہم چین اپنے مفادات کی نگہبانی کررہا ہے۔ اُس نے افغانستان اور تاجکستان کے حالات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات پر ڈرون حملہ عظیم تر ڈیزائن کا حصہ ہے، مستقبل میں یوکرین پر ممکنہ حملہ روس اور امریکہ کو جنگ کے دہانے پر لا سکتا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین پر جلد سے جلد حملہ کرنا ہوگا۔ ان کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب تاجکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
بھارت سمیت پاکستان مخالف ممالک ہمارے ملک میں سیاسی پولرائزیشن اور کمزور قومی معیشت سے خوب واقف ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے قومی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ حقیقی نہیں بلکہ اعدادو شمار کا جادو ہے۔ اگر حکومت کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو چار سوال پیدا ہوتے ہیں: پاکستان میں مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟ ڈالر ریٹ کیوں کم نہیں ہورہا؟ پاکستانی روپیہ مستحکم کیوں نہیں ہورہا؟ روزگار اور اس کے ساتھ فی کس آمدن میں خاطرخواہ اضافہ کیوں نہیں ہورہا؟ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ حکومت کے معاشی اعداد و شمار حقیقی معنوں میں درست نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں تقسیم دولت اور ٹیکس نظام ابہام کا شکار ہے اور اعدادو شمار کے جادو سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے۔ اب پاکستان میں منی بجٹ کے بعد کیا ہوا کہ ہر پاکستانی چاہے اُس کی آمدنی ٹیکس کے قابل ہے یا نہیں، بالواسطہ ٹیکس دینے کا پابند بنادیا گیا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے کو نکال کر ٹیکس کے قابل طبقے کو گھیرے میں لایا جائے تاکہ جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک اضافہ ہو، جس کے لیے لازم ہے کہ پبلک فنانشل مینجمنٹ قانون تبدیل کیا جائے۔
قومی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج تنخواہوں اور اُجرتوں کے مجموعی اخراجات سے متعلق ہے۔ وفاق میں 19 فیصد ہے اور صوبائی سطح پر کم و بیش 50 فیصد ہے۔ گزشتہ سال اسی ماہ وفاقی حکومت نے تنظیم نو کا فیصلہ کیا تھا اور اداروں کی تعداد 441 سے کم کرکے 310 کرنے، گریڈ 1تا16 میں 71 ہزار اسامیاں ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ کم ملازمین بھرتی کرکے بچت بڑھائی جائے اور بجلی، کھاد، قدرتی گیس پر ٹارگٹڈ سبسڈی دے کر 100 ارب روپے کی بچت کی جائے۔ یہ منصوبہ ڈاکٹر عشرت حسین نے بنایا اور اپنے منصوبے کی حمایت کے لیے انہوں نے ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کی لیڈرشپ سے ملاقات بھی کی، جس کا فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ پارلیمانی جماعتوں کی لیڈرشپ اس ایشو پر خاموش ہے۔