وزیراعظم کے منہ میں گھی شکر، جن کا یہ ارشاد ہے کہ ہم ملک کو ایشین ٹائیگر یا لاہور کو پیرس نہیں بنانے جارہے، ہمارا نظریہ اسلامی فلاحی ریاست ہے۔ اتوار کے روز برقی ذرائع ابلاغ پر ’’آپ کا وزیراعظم، آپ کے ساتھ‘‘ میں براہِ راست عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے جناب عمران خان نے کہا کہ ’’میں نے حال ہی میں اخبارات میں ایک مضمون لکھا تو اس پر کہا گیا کہ میں دین کے پیچھے چھپ رہا ہوں۔ مجھے اللہ نے سب کچھ دیا ہے، مجھے سیاست میں آنے کی ضرورت نہیں تھی، میرے سیاست میں آنے کا مقصد یہی تھا کہ مدینہ کی ریاست کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانی ہے۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں دودھ کی نہریں بہا دوں گا، یا ملک کو ایشیائی ٹائیگر بنا دوں گا۔‘‘
اس طویل نشست میں وزیراعظم نے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوجائوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ملک لوٹنے والوں سے مفاہمت اور سمجھوتا غداری ہوگی، میں لٹیروں کے خلاف ہی تو سیاست میں آیا تھا، ورنہ مجھے کیا ضرورت تھی ان گھٹیا لوگوں کی گالیاں سننے کی! میں خبردار کرتا ہوں کہ اگر اقتدار سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوجائوں گا، ابھی تو میں چپ کرکے دفتر میں بیٹھ کر تماشے دیکھ رہا ہوں، میں سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، آپ سب نے ملک کے ساتھ جو کیا ہے، اُس سے عوام میں لاوا پک رہا ہے، لوگوں نے آپ کو پہچان لیا ہے، انہیں صرف آپ کی طرف دکھانا ہے، پھر آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘ جناب عمران خان نے مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے مہنگائی کے باعث راتوں کو نیند نہیں آتی‘‘۔
جناب عمران خان کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ہیں، مگر انہیں یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اب محض ایک سیاست دان یا کسی احتجاجی جلسے میں پُرجوش خطاب کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والے مقرر نہیں بلکہ ملک کے اہم ترین منصب وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہیں، اور ان کی ذمہ داری محض ’’چپ کرکے دفتر میں بیٹھ کر تماشے دیکھنا‘‘ نہیں، بلکہ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنا ہے۔ آپ کے بقول آپ کے سیاست میں آنے کا مقصد تو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا اور آپ بقول خود ابھی تک چپ کرکے دفتر میں بیٹھ کر تماشے دیکھ رہے ہیں، آپ کو تاریخ کے مطالعے کا بہت دعویٰ ہے، کیا ریاست مدینہ بنانے والوں نے یوں گھر میں بیٹھ کر تماشے دیکھے تھے؟ یا لوگوں کی مشکلات ومسائل کے حل کے لیے اپنا دن رات ایک کردیا تھا، اور ان کا اپنا رہن سہن ایک عام مزدور کی سطح کا تھا۔ کیا آپ اور آپ کی کابینہ کے ساتھی بھی عوام کی طرح زندگی بسر کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں یا اس پر تیار ہیں؟ آپ کا فرمانا ہے کہ آپ لٹیروں کے خلاف سیاست میں آئے تھے، اور ملک لوٹنے والوں سے مفاہمت اور سمجھوتا آپ کے خیال میں غداری ہے۔ تو جناب وزیراعظم اپنی گزشتہ ساڑھے تین برس کی کارکردگی کا جائزہ لیجیے، بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آپ کے دورِ اقتدار میں بدعنوانی اور قومی دولت کی لوٹ مار میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے سبب شہریوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں بھی ناقابلِ برداشت اضافہ ہوا ہے، سرکاری محکموں میں رشوت کا بازار گرم ہے اور اس کی شرح بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ پھر جن لوگوں کو آپ کرپشن کے مجرم اور بادشاہ قرار دیتے رہے ہیں، اُن میں سے کسی ایک کو بھی آپ کی حکومت سزا دلوا سکی ہو تو اُس کا نام براہ کرم قوم کو بتا دیجیے۔ اس کو بھی چھوڑیئے، ذرا اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں، اپنی کابینہ اور ملکی مجلس شوریٰ میں اپنے ساتھیوں کا جائزہ لیں… ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے دامن پر بدعنوانی، مفاد پرستی اور قومی دولت کی لوٹ مار کا کوئی داغ نہ ہو؟ جناب وزیراعظم! اگر فرصت ملے تو ذرا غور کیجیے کہ آپ کے اسلامی فلاحی ریاست کے دعوے اور زمینی حقائق میں کس قدر تفاوت پایا جاتا ہے۔ جناب محترم! یاد رکھیے، اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے: ’’وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو، جو کرتے نہیں…‘‘ عمران خان صاحب! باتیں تو آپ کی طرح بہت کی جا سکتی ہیں، تاہم مختصر گزارش یہی ہے کہ:
یا اسلام پہ چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو
(حامد ریاض ڈوگر)