غوغائے رقیباں

پچھلے ہفتے کی بات ہے، ایک عزیز دوست نے مشورہ دیا:
’’حضور! اُردو میں استعمال ہونے والے فارسی محاوروں کی طرف بھی توجہ دیجیے‘‘۔
عرض کیا: ’’حضرت! یہاں تو اُردو محاوروں ہی کی مت ماری جارہی ہے، آپ کو فارسی کی پڑی ہے‘‘۔
مگر اتفاق سے اُسی دن اُردو صحافت کے ایک مردِ صالح کی تحریر میں ایک فارسی محاورہ یوں لکھا نظر آگیا:
’’صحبتِ طالع تُرا طالع کُند، صحبتِ صالح تُرا صالح کُند‘‘۔
جب اُردو ہی سے ناواقفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، تو اب فارسی کوکیا روئیں؟ ’طالع‘ تو اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور ’طالع آزما‘ کی ترکیب ہماری سیاست میں اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ پھر بھی طالع کا مطلب نہ سمجھے وہ مردِ صالح۔
’طالع‘ اصلاً طلوع ہونے والے کو کہتے ہیں۔ مجازاً ’طالع‘ کا مطلب قسمت، نصیب یا مقدّر ہے۔ فیضؔ کا بہت مشہور شعر ہے:
گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا؟
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں!
محاورے میں لفظ طالع نہیں ’طالح‘ ہے۔ ’طالح‘ کا مطلب ہے: بَد، بُرا، بَدکار۔ یہ صالح کی ضد ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ کا یہ شعر جو محاورہ بن گیا ہے، یوں ہے:
صحبتِ صالح تُرا صالح کُند
صحبتِ طالح تُرا طالح کُند
’تم اگر نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھو گے تو نیک بن جاؤ گے، اور بدکاروں کے ساتھ رہوگے تو خود بھی بدکاری میں پڑ جاؤ گے‘۔ یہ محاورہ عموماً ایسے موقع پر بولا جاتا ہے، جب کسی سے میل جول رکھنے سے منع کرنا مقصود ہو، اور منع کرنے کی وجہ اُس کی بُری شہرت ہو۔
اُردو میں دو ہزار سے زائد فارسی محاورے اس بے تکلفی سے استعمال کیے جارہے ہیں، جیسے فارسی ہمارے ہی گھر کی لونڈی ہو۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک تھی بھی۔ نہ صرف سرکاری بلکہ تعلیمی زبان بھی فارسی تھی۔ ہندوستان میں کیا ہندو، کیا مسلمان… تمام تعلیم یافتہ افراد فارسی فراوانی اور روانی سے استعمال کرتے تھے۔ فارسی اشعار، فارسی ضرب الامثال اور فارسی محاورے زباں زدِ خاص و عام تھے۔ اُردو بھی ان سے مالامال ہوئی۔ مگر ان زر و جواہر کی صحیح قدر تو جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ اُردو میں بھی کہا جاتا ہے کہ ’قدرِ جوہر شاہ داند یا بِداند جوہری‘۔ جوہر قیمتی نگینے یا موتی کو کہتے ہیں۔ بادشاہ انھیں استعمال کرتے ہیں اور جوہری انھیں پرکھتا اور بیچتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ موتی یا نگینے کی وقعت اور قدر و قیمت یا تو بادشاہ جانتے ہیں یا جوہری۔ یہ محاورہ ایسے موقع پر بولتے ہیں جب کوئی ناواقف و نادان شخص کسی قیمتی شے کی ناقدری کرے، یا ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی شے کی سب ناقدری کررہے ہوں، مگر اس کی قدر و قیمت کو پرکھنے اور جاننے والا اسے لے اُڑے۔ اگر کوئی احمق خود ہی اپنی کسی قیمتی شے کو اونے پونے بیچ ڈالے اور بعد میں اس کی قدر و قیمت معلوم ہو، تو کچھ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ’خود کردہ را علاجے نیست‘۔ اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔ بعض نوسر باز تعریفوں کے پُل باندھ کرکوئی گھٹیا چیز اونچے داموں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تجربہ کار لوگ اُس کی باتوں میں نہیں آتے۔ کہتے ہیں: ’عطر آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘۔ عطر تو وہ ہوتا ہے کہ اپنی خوشبو سے خود پہچانا جاتا ہے، نہ کہ عطار (عطر بیچنے والے) کو زمین آسمان کے قلابے ملا کر ثابت کرنا پڑے کہ یہ عطر ہے۔ بعض لوگ اس محاورے میں عطر کی جگہ مُشک بھی استعمال کرتے ہیں۔ خیر، پسند اپنی اپنی۔ دلائل سے جعل سازی کرنے والے آنکھوں دیکھی حقیقت کے لیے بھی دلیل مانگتے پھرتے ہیں۔ مثلاً: ’ثابت کرو کہ اس وقت دن ہے‘۔ ایسے لوگوں سے کہا جاتا ہے ’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘۔ سورج نکلنے کی سب سے بڑی دلیل خود سورج ہے۔ ویسے فارسی میں آفتاب دھوپ کو اور ماہتاب چاندنی کو کہتے ہیں۔ ان دونوں سے مجازاً مہر وماہ مُراد لے لیے گئے ہیں۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ سورج نکلنے کی سب سے بڑی دلیل دھوپ ہے، اور چاند نکلنے کی دلیل چاندنی ہے۔ اگر کسی سے کہیے کہ ’تارے ڈوب گئے ہیں‘ پھر بھی وہ پوچھے کہ سحر ہوئی یا نہیں؟ تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’عاقلاں را اِشارہ کافیست‘۔ عقل رکھنے والوں کے سمجھنے کو اشارہ ہی کافی ہے۔ تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کچھ لوگ ’عاقلاں‘ کی جگہ ’عقل مند‘ کہہ کر عقل مند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کوئی شخص عقل مند ہے یا نہیں؟ اس کا پتا کیسے چلے؟ فارسی محاورہ کہتا ہے کہ اُس سے بات کرکے دیکھ لیجیے۔ ’تا مردے سخن نہ گفتہ باشد، عیب و ہُنرش نہفتہ باشد‘ (یہ بھی شیخ سعدیؔ کے ایک شعر کے دو مصرعے ہیں) جب تک کوئی شخص بولے گا نہیں، تب تک اُس کے عیب وہنر چھپے ہی رہیں گے۔ بقولِ ضمیرؔ جعفری:
وہ تو خاموش تھے جہالت سے
ہم اُنھیں فلسفی سمجھتے رہے
اگر ہم جیسے کسی خاموش جاہل سے کوئی شخص فلسفیانہ سوال کر بیٹھے تو ’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘ والی کیفیت ہوجائے گی، یعنی رُکنے کی جگہ ملے گی نہ وہاں سے چل دینے کو پاؤں میسر ہوں گے۔ بے بسی کی کیفیت ہوگی۔ اسی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے غالبؔ کا یہ مصرع بھی اکثر استعمال ہوتا ہے: ’گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل‘۔ یعنی بولوں تو مشکل، اور اگر نہ بولوں تو مشکل۔ تاہم ایسی محفل سے بھاگنا ہی پڑے تو یہ کہہ کر بھاگا جا سکتا ہے کہ ’جائے خدا تنگ نیست، پائے گدا لنگ نیست‘۔ یعنی خدا کی دھرتی تنگ نہیں اور فقیر کا پاؤں لنگڑا نہیں۔ تم یہاں نہیں ٹکنے دیتے تو یہ کام (مثلاً جاہلانہ خموشی سے بیٹھے رہنے کا کام) کہیں اور جاکر کرلوں گا۔ ’جائے خدا‘ کی جگہ بعض لوگ ’ملکِ خدا‘ استعمال کرتے ہیں، اور پائے گدا کی جگہ ’پائے مَرا(میرا پاؤں)، مگر محاورے میں ’جائے خدا‘ اور ’پائے گدا‘ ہی ہے۔
گدا پر یاد آیا کہ ہم بھی تو بین الاقوامی گدا ہیں۔گدائی کی خُو ہم میں صدیوں کی غلامی سے پیدا ہوئی ہے۔ غلامی کی خو، خوئے بد ہے (خُو کا مطلب ہے سرشت، عادت، مزاج)۔ کہا جاتا ہے کہ ’خُوئے بد را بہانۂ بسیار‘۔ بُری خصلت کو ہزار بہانے مل جاتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی ہی تو ہے کہ کچھ لوگ اردو نثر سے عربی و فارسی تراکیب اور عربی و فارسی محاوروں کو بے دخل کرکے صرف انگریزی تراکیب اور انگریزی اصطلاحات رائج کرنے کے ناصح بنے ہوئے ہیں۔ ان میں اُردو سے رزق کمانے والے بھی ہیں۔ یعنی مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ پر اُردو صحافت ہی کو ذریعۂ روزگار بنائے ہوئے ہیں۔ مگر وطنِ عزیز سے بدیسی زبان کا تسلط ختم کرنے کے خواہاں صحافیوں کو نفاذِاُردو کے خلاف شور مچانے والوں کے غوغا کی بالکل پروا نہ کرنا چاہیے۔ قومی زبان کی بالادستی کی کوشش جاری رکھنا چاہیے، یاد رکھیے: ’آوازِ سگاں کم نہ کُند رزقِ گدا را‘۔ کتوں کا بھونکنا فقیر کا رزق کم نہیں کردیتا۔ لہٰذا بھونکتوں کو بھگانے میں وقت ضائع کرنا چاہیے نہ انھیں ڈھیلا مارنے میں مصروف ہوکر اپنا رستہ کھوٹا کرنا چاہیے۔ یہ محاورہ دراصل عرفیؔ کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے۔ پہلا مصرع یوں ہے: ’عُرفیؔ تو میندیش زِ غوغائے رقیباں‘۔ یہاں’میندیش‘ کو ’’مَ یَندیش‘‘ پڑھیں گے۔ یعنی:’ اے عُرفیؔ! تُو رقیبوں کے شور غوغا سے کسی اندیشے یا خوف میں مبتلا مت ہو‘۔
اب آپ بھی اس اندیشے یا خوف میں مبتلا مت ہوں کہ ابھی تو بہت سے فارسی محاورے باقی رہتے ہیں۔گوکہ ہماری فارسی تمام نہیں ہوئی مگر کالم کا ورق تمام ہوگیا ہے۔