سرسید احمد خان اوران کے نامور

کتاب
:
سرسید احمد خان اوران کے نامور
رفقا کی اردو نثر کا فنی اور فکری جائزہ
مصنف
:
ڈاکٹر سید عبداللہ
صفحات
:
350 قیمت: 650 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈائریکٹر جنرل ادارۂ فروغِ قومی زبان، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ، ایچ ۔ 4/8۔اسلام آباد، پاکستان
فون
:
051-9269760-61-62
فیکس
:
051-9269759
ای میل
:
matboaatnlpdisd@gmail.com

ڈاکٹر سید عبداللہ نابغۂ روزگار شخصیت تھے، بہترین استاد اور مومن پاکستانی… اسی کے ساتھ متوازن اور شفیق دل و دماغ کے حامل تھے۔ اردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے ان کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو بابائے اردو ثانی کہنا بجا ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب نے اردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے اتنی پُرخلوص کوششیں کی ہیں کہ بعض اصحاب انہیں بجاطور پر ’’بابائے اردو ثانی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
سید عبداللہ مرحوم کی اردو خدمات کا ایک زاویہ درس و تدریس اور اہم موضوعات پر ایسی کتابوں کی تصنیف بھی تھا جن سے ایم اے کے طلبہ استفادہ کرسکیں۔ اسی سلسلے میں ان کی زیرنظر کتاب کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہ پہلی بار 1960ء میں شائع ہوئی تھی، اور اس کا ایک ایڈیشن اسی ادارے سے 1986ء میں شائع ہوا تھا۔
طلبہ خاصے عرصے سے اس کتاب کو طلب کررہے تھے، کیونکہ یہ ان کی نصابی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ان کے ذہنی افق کو بھی وسیع کرتی ہے۔ اس میں مصنف نے نہ صرف سرسید احمد خان اور اُن کے رفقا (نذیر احمد، شبلی اور حالی وغیرہ) کے ادبی اور فنی محاسن کا جائزہ لیا ہے بلکہ ان کے فکری، ذہنی اور دینی رجحانات پر بھی عالمانہ انداز میں بحث کی ہے۔ ثانوی طور پر اردو کی بعض اصناف مثلاً مضمون نگاری، سوانح نگاری، تاریخ نویسی، ادبی تنقید، نیز علم الکلام پر بھی اہم مطالعے پیش کیے ہیں۔ کتاب میں شامل ضمائم بھی اہم ہیں۔
ادارے کے لیے باعثِ مسرت ہے کہ اس اہم اور مفید کتاب کو ازسرِنو مشینی حروف کاری (کمپوزنگ) کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔ اس طرح یہ کتاب معنوی خوبیوں کے ساتھ صوری خوبیوں سے بھی آراستہ ہوگئی ہے۔
امید ہے ادارے کی اس کوشش کو سراہا جائے گا‘‘۔
دوسرے ایڈیشن پر ڈاکٹر وحید قریشی نے یہ نوٹ لکھا:
’’مقتدرہ قومی زبان نے اعلیٰ سطح پر طلبہ کی درسی ضروریات پوری کرنے کے لیے کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ’’سرسید احمد خان اور ان کے رفقا کی نثر کا فکری اور فنی جائزہ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اردو کے نامور محقق ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اردو ادب میں سرسید کے کردار، ان کی مختلف تصانیف اور اسلوب کا جائزہ پیش کیا ہے بلکہ سرسید کے ہم خیال علما کے نظریات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
زیر نظر کتاب میں مولانا حالی، شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد کی ادبی کاوشوں پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس میں نہ صرف سرسید اور اُن کے رفقا کی نثر کے فکری سرمائے پر بحث ہوئی ہے بلکہ نثر سے متعلقہ فنون کو تنقید کی کسوٹی پر بھی جانچا گیا ہے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سرسید کے زمانے میں نثر کی متعلقہ اصناف نے کہاں تک ترقی کی۔
امید ہے کہ یہ کتاب ادب کے طالب علموں کے لیے کارآمد ثابت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں:
’’میرا عاجزانہ خیال یہ ہے کہ سرسید احمد خان کے متعلق جتنا بھی کام ہوا ہے اس کے باوجود اس کتابچے میں بھی ایک دو باتیں عام دلچسپی کی پائی جائیں گی۔ ایک تو یہ کہ اس میں سرسید اور رفقائے سرسید کی نثر کے فکری سرمائے کو بھی معرضِ بحث میں لایا گیا ہے، اور دوسری یہ کہ نثر سے متعلقہ فنون پر تنقید کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سرسید کے زمانے میں نثر کی متعلقہ اصناف نے کہاں تک ترقی کی۔ اس کا یہ مطلب نہیںکہ دوسرے مصنفوں کے یہاں یہ مواد موجود نہیں۔ مقصدِ گفتگو صرف یہ ہے کہ ان دونوں امور کے متعلق مواد کہیں موجود نہیں، مثلاً جن صاحبوں نے افکار کو لیا ہے انہوں نے اصناف کا تنقیدی مطالعہ نہیں کیا، اور جن کے یہاں اسلوب و فن کا تجزیہ ہے وہاں افکار کی بحث نہیں۔ اس نقطہ نظر سے مجھے اطمینان ہے کہ یہ مختصر سی کتاب عام طور سے مفید ثابت ہوگی۔ خصوصاً میرے شاگردوں کے لیے، جن کی ضرورتوں کو پورا کرنا میری زندگی کا خاص مقصد رہا ہے۔ میں نے کتاب کے آخر میں کچھ ضمیمے بھی شامل کیے ہیں، اس سے میرے مدنظر یہ ہے کہ زیربحث مصنّفین کے متعلق کچھ اور مواد بھی قارئین کے لیے مہیا ہوجائے‘‘۔
کتاب سات ابواب اور پانچ ضمیموں پر مشتمل ہے، وہ ہم درج کرتے ہیں:
پہلا باب: سرسید احمد خان
سرسید اور ادو ادب، سرسید کے تصنیفی رجحانات کا ارتقا، تصنیفی زندگی کا پہلا دور، تصانیف کا دوسرا دور، تصانیف کا تیسرا دور، سرسید کے نمایاں افکار و تصورات، اس دور کے اہم علمی نظریات، خطباتِ احمدیہ، تبیین الکلام، تفسیر القرآن، سرسید کی
تاریخ سے دلچسپی، آثارالصنادید، ناتمام تصنیفی کوششیں، مضمون نگاری، سرسید کا اسلوب، سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ (علی گڑھ تحریک!)
دوسرا باب: سرسید کے ہم خیال علما کے دینی نظریات
نواب محسن الملک، مولوی چراغ علی، نذیر احمد، شبلی نعمانی، علم الکلام، الکلام۔
تیسرا باب: سوانح نگاری
سوانح نگار، حالیؔ، حیاتِ جاوید، حیاتِ سعدی، حالیؔ اور سعدیؔ کی مماثلت، حیاتِ سعدیؔ کا مقصد، سوانح عمری ذریعۂ موعظت، انگریزی ادب کا اثر، مآخذ، کلیات سے سوانح کا استقصا، ضابطۂ اخلاق، حالیؔ کی تاویلیں، جدید اثرات، محققانہ ہے، تنقیدِ شاعری، یادگارِ غالبؔ، حالیؔ کا اسلوبِ بیان، طرزِ حالیؔ کی خصوصیات
چوتھا باب: محمد شبلی نعمانی
سوانح نگار شبلی، شبلی کا تصورِ سوانح نگاری، سچائی اور صداقت، بشری خط و خال، فطرتِ انسانی کی جھلک، ہیرو کے محاسن و معائب، سوانح عمری کا مقصد، سیرۃ النعمان (1891ء)، الغزالی (1902ء)، سوانح مولانا روم، سیرۃ النبیؐ، شبلی کی سوانح نگاری کی خصوصیات
پانچواں باب: تاریخی سوانح عمریاں اور تاریخ
شبلی نعمانی، المامون، الفاروق، شبلی بہ حیثیت مؤرخ، شبلی کا نظریۂ تاریخ، شبلی کا اسلوبِ بیان، طنز و تعریض، مولوی ذکا اللہ، بعض اور مؤرخ
چھٹا باب: ادبی تقنید اور دوسری انواعِ نثر
(الف) ادبی تنقید، حالیؔ، شبلیؔ، (ب) صحافت، (ج) مکتوب نگاری
ساتواں باب: نذیر احمد کے قصے
مراۃ العروس، کردار، بنات النعش، توبتہ النصوح، ابن الوقت، مجموعی رائے
ضمیمے: ضمیمہ(ا) نذیر احمد کی انفرادیت، ضمیمہ (ب) سرسید کا اثر ادبیاتِ اردو پر، ضمیمہ (ج) حالی کا تصورِ اسلوب، ضمیمہ (د) شبلی کے تصنیفی کام کی مجموعی قدر و قیمت، ضمیمہ (س) محسن الملک
کتاب معلومات افزا اور شائستہ و شستہ زبان میں تحریر کی گئی ہے، مجلّد ہے۔