معصومیت کے نور سے چمکتا ہوا چہرہ، ذہانت سے بھرپور آنکھیں، رنگ سانولا سلونا لیکن پُررونق… ہر دم ہر ایک کے کام آنے کے لیے تیار… ایثار و قربانی کے جذبے سے ہر لمحہ سرشار… یہ تھے ہمارے عبدالصمد تاجی صاحب، جو حلقۂ دانش و حکمت و صحافت میں تاجی صاحب کے مختصر حوالے سے اپنی ایک خصوصی پہچان رکھتے تھے۔ وہ بیک وقت صحافتی اور ادبی حلقوں میں معروف تھے۔ بیشتر ادبا، شعرا، نثرنگار اُن کی صحافیانہ اور ادبی صلاحیتوں سے واقف اور معترف تھے۔ ہر قسم کے پروگراموں کی رپورٹنگ، مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی کتب پر جان دار و شان دار تبصرے، اور کتاب و صاحبِ کتاب پر اپنے مخصوص اندازِ نگارش میں قدرے اچھوتے اور منفرد مختصر تاثراتی مضامین لکھنا اُن کا خاصہ تھا۔ متذکرہ خوبیاں ان میں بیدار و مضبوط کرنے کا سہرا اُن کے اسکول کے زمانے کے استاد اور اعلیٰ درجے کے لکھاری حضرت شاہ خلیل اللہ جنیدی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے بقول تاجی صاحب کے، انہیں اپنی اولاد سے بڑھ کر محبت، شفقت اور پیار سے نوازا، اور ان کی صحافیانہ اور ادیبانہ خوابیدہ صلاحیتوں کو جگایا، اور اُن پر انتہائی توجہ دے کر اُن کی نثر کو بالآخر جواہر پارہ بنادیا۔ یہ شاہ خلیل اللہ جنیدی صاحب ہی تھے جن کا ذکر و فکر تاجی صاحب کے لبوں پر مستقل جاری و ساری رہا۔ تاجی صاحب ان کا ذکر اس قدر والہانہ انداز میں کرتے کہ عقیدتیں، محبتیں، اور تعظیم و ادب ان کے تکلم کے ہر ہر حرف سے پھوٹتا محسوس ہوتا۔ اللہ پاک شاہ صاحب کی قبر پر اپنی کروڑہا رحمتیں نازل فرماتا رہے۔
(شاہ صاحب سعودی عرب میں واقع قبرستان جنت البقیع میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں میں آسودۂ خاک ہیں)
صحافتی رموز سے آشنا کرانے والے اُن کے صحافتی استاد محترم جلیس سلاسل ہیں۔ تاجی صاحب اُن کا ذکر بھی ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ کرتے اور دل سے انہیں استاد تسلیم کرتے رہے، اور مسلسل اُن کے تجربات و علم سے استفادہ کرتے رہے۔
تاجی صاحب قیام پاکستان کے بعد لائنز ایریا کراچی میں غالباً 1956ء میں پیدا ہوئے اور اسی علاقے کے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں علم حاصل کرتے رہے، اور میٹرک و ایف اے کے بعد یہ تعلیمی سلسلہ ناگزیر وجوہ کی بنا پر مکمل نہ ہوسکا۔ لیکن قدرت نے انہیں فطری ذہانت و قوی حافظے کے باوصف اپنی عنایاتِ فراواں سے نوازا، اور تاجی صاحب اپنی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور شعر و ادب سے قلبی میلان کو منفرد اور اچھوتا بنانے کی کاوشوں میں مسلسل مصروف رہے، اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی تحریروں کو نظرانداز کرنا مشکل و ناممکن ہوگیا اور ماننا پڑا کہ وہ ایک الگ لب و لہجے کے نثرنگار ہیں۔ انہیں ان کی صلاحیتوں نے عصری لکھاریوں کی صف میں نمایاں کرنا شروع کردیا اور اُن کی ان صلاحیتوں کو صفِ اوّل کے ادیبوں اور شاعروں نے سراہا اور پذیرائی سے نوازا… ان شعرا اور ادبا میں پروفیسر سحر انصاری، جاذب قریشی، ایس ایم معین قریشی اور دیگر بہت ساری شخصیات شامل ہیں۔ بہت تھوڑے وقت میں اپنے خوب صورت و اچھوتے اندازِ نگارش کی وجہ سے اُن سے اپنی کتب پر رائے لینے والوں اور تاثراتی مضامین لکھوانے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا، اور یہ اضافہ اُس وقت اور زیادہ ہوگیا جب ممتاز صحافی حضرت قبلہ یحییٰ بن زکریا صدیقی صاحب کی ادارت میں ہفتہ وار شائع ہونے والے میگزین ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں مستقلاً تاثراتی مضامین اور نئی شائع ہونے والی کتب پر ان کے منفرد تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، اپنے ان خوب صورت و عمدہ تبصروں کی بدولت وہ معروف و معتبر اہلِ قلم سے متعارف ہوئے، اور اہلِ قلم تو ان کی منفرد اور پُرتاثیر تحریروں کے جیسے اسیر ہی ہوکر رہ گئے، اور یہ سلسلہ پاکستان سے شروع ہوکر ہندوستان کے اہلِ قلم تک جاپہنچا۔ یوں تاجی صاحب نے اپنے اہلِ قلم ہونے کا کماحقہٗ حق ادا کیا۔ بقول تاجی صاحب انہوں نے سب سے پہلا تاثراتی مضمون ’’میلاد اکبر‘‘ کے مصنف حضرت خواجہ مولانا محمد اکبر خان وارثی کی تصنیفِ لطیف اور اس کی حد درجہ پذیرائی اور اکبر وارثی سے اُن کے محاسن و کمالات کے حوالے سے جو انہیں شخصی ارادت و عقیدت تھی، کے حوالے سے تحریر کیا، اور اس مضمون کے ڈانڈے عہدِ حاضر کی میرٹھ سے تعلق رکھنے والی ایک اور معروف شخصیت ڈاکٹر نور احمد میرٹھی سے ملادیئے، کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت بھی اپنے محاسن اور تحریری خوبیوں کے باوصف اُن کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ حضرت اکبر وارثی اور ڈاکٹر نور احمد میرٹھی میں دو قدریں مشترک تھیں، یعنی دونوں شخصیات کا ہندوستان کے معروف شہر میرٹھ اور نعت گوئی سے متعلق ہونا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر نور احمد میرٹھی نے غیر مسلم نعت گو شعرا کے حوالے سے خاصے اہم اور وقیع کام کیے، اور ان کے یہ تحقیقی کام خاصے مقبول بھی ہوئے، جب کہ حضرت خواجہ محمد اکبر خان وارثی ایک بلند پایہ نعت گو ہونے کے ساتھ نثری حوالے سے بھی ایک قابلِ قدر اور اہم آدمی تھے۔ بہرحال تاجی صاحب نے اپنے اس اوّلین مضمون کا عنوان ’’اکبر وارثی سے نور احمد میرٹھی تک‘‘ رکھا، اور اپنے اس دلنشین اور خوب صورت مضمون پر نور احمد میرٹھی اور دیگر اہلِ قلم سے خوب داد حاصل کی۔ محترم سید مختار صاحب تاجی صاحب کو ڈاکٹر نور احمد میرٹھی سے ملوانے کا وسیلہ بنے، جس کا اعتراف اور اظہارِ ممنونیت تاجی صاحب اپنی جلوتوں اور خلوتوں میں ہمیشہ کرتے رہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سید مختار علی صاحب کو اس حوالے سے وہ اپنا محسن سمجھتے رہے۔
تاجی صاحب ادبی، سماجی اور مذہبی تقاریب میں شرکت کرکے ان تقاریب کا احوال اپنے مخصوص اندازِ نگارش میں اتنی عمدگی سے بیان کرتے کہ ان تقاریب کا ایک ایک منظر واضح ہوکر دلوں میں ترازو ہوجاتا۔ تاجی صاحب نے اس حوالے سے بھی متعدد معتبر اہلِ قلم سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اس سلسلے میں سرخیلِ صحافت، ممتاز صحافی اور اردو زبان کے اوّلین و ہمہ رنگ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے بانی، مالک و مدیر الطاف حسن قریشی صاحب سے خصوصی داد حاصل کی، جو ایک طرف اگر تاجی صاحب کے لیے معراج کی حیثیت کی حامل ہے تو دوسری جانب جناب الطاف حسن قریشی کی قلبی و ذہنی وسعتوں کی عکاس۔ الطاف حسن قریشی نے ایک بار نہیں متعدد مرتبہ ان کی تحریروں کے لیے ان سے بذریعہ ٹیلی فون اپنی نیک خواہشات و پسندیدگی کا اظہار کیا، جسے تاجی صاحب بجاطور پر اپنے لیے بڑا اعزاز قرار دیتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے اسیرانِ تحریر میں معروف اہلِ قلم ڈاکٹر نور احمد میرٹھی، ایس ایم معین قریشی، جلیس سلاسل، منظر عارفی، ظفر محمد خاں، بیگم شاہین حبیب اور علامہ ڈاکٹر عبدالعزیز کے صاحبزادے جناب ذکا العزیز، شاعرِ حمد و نعت جناب طاہر سلطانی اور دیگر ڈھیروں اہلِ قلم کے ساتھ ساتھ راقم السطور بھی شامل ہے۔ عبدالصمد تاجی تصوف سے فطری میلان کے باوصف سلسلۂ عالیہ تاجیہ کے ممتاز صوفی بزرگ حضرت شوکت شاہ تاجی علیہ الرحمۃ سے تاجی سلسلے میں بیعت ہوئے، اور اپنی خصوصی محبت و ارادت کی بنا پر اپنے مرشد کے چہیتے مرید اور خلیفہ مجاز ہونے کا شرف حاصل کیا۔ وہ اپنے مرشد کے حکم پر اپنے سلسلے کے بانی بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری کے مزار شریف پر بھی حاضر ہوئے اور خاصے عرصے تک وہاں رہ کر پاکستان واپسی پر ’’تاجِ زماں‘‘ کے عنوان سے تاج الاولیاء کی مختصر سوانح حیات تحریر کی، اور اُسی زمانے میں ان کی یہ تحریر چار رنگوں کے سرورق کے ساتھ بصورت کتابچہ اشاعت پذیر ہوئی، جو آج بھی ان کی یادگار کے طور پر موجود ہے۔ یوں تو تاجی صاحب بڑی مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل تھے۔ یاروں کے یار، جگت باز اور اپنی تحریروں کی طرح بے بناوٹ گفتگو، سادگی اور اخلاص سے دلوں میں گھر کرلینے والے۔ جناب ذکاء العزیز سے ان کی خصوصی محبت و قربت بہت سامنے کی بات تھی۔ یہی کیفیت جناب ذکاء العزیز کی تاجی صاحب کے سلسلے میں ہے۔ الغرض تاجی صاحب کے محاسن و محبت کے جس قدر دلدادہ جناب ذکاء العزیز ہیں وہ ایک روشن حقیقت ہے۔ زیر نظر مضمون لکھوانے کا سہرا بھی انہی کی محبتوں کے سر بندھتا ہے۔ اللہ پاک ذکاء العزیز صاحب کی محبتوں اور اخلاص کو بہت سارے کیا، اَن گنت چاند لگائے۔ تاجی صاحب پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے جو یقیناً لکھا جانا چاہیے، اور مجھے یقین ہے کہ لکھا جائے گا۔ خود میں بھی کسی مناسب موقع پر خدا کے فضل و کرم سے اس ضمن میں کوشش و کاوش کروں گا۔ تاجی صاحب نے دنیائے علم و ادب میں بڑی تیزی سے اپنی تحریروں کے ذریعے ایک جگہ بنائی۔ بقول اُن کے، کم و بیش 80 کتابوں پر انہوں نے صاحبانِ کتب کی فرمائش پر مضامین تحریر کیے (ان میں سے کئی کتابیں راقم الحروف کی نظر سے گزری ہیں) اور ان کی کئی تحریریں تو اپنی افادیت و اہمیت اور دلکشی و رعنائی، اور سب سے بڑھ کر مزیداری کے سبب فلیپس کی زینت بنیں۔ وہ اپنی تحریروں یعنی تبصروں اور مضامین پر مشتمل کتاب ’’گلاب رخ‘‘ کے عنوان سے چھپوانا چاہتے تھے اور غالباً ان کی تحریروں کی کمپوزنگ بھی شروع ہوگئی تھی، مگر زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور وہ اچانک بخار میں مبتلا ہوکر فقط چار دنوں میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ تاجی صاحب ایک سیدھے سادے ملنسار اور حلیم و بردبار انسان تھے۔ ان کی سادگی اور اپنے حال میں مست رہنے کی ادا اہلِ دل کو متاثر کرتی تھی۔ وہ دامے، درمے، قدمے اور سخنے مخلوقِ خدا کی خدمت میں مصروفِ کار رہنے والے انسان تھے۔ وہ ایک ایسے انسان تھے جس نے حتی الوسع اپنے قرب و جوار و اطراف و جوانب میں رہنے والے اشخاص و افراد کو اپنے اچھے اخلاق، اچھے برتائو اور ہمدردانہ رویّے سے اپنی محبتوں کا اسیر کیا۔ اپنے پڑوسیوں اور اہلِ محلہ سے ان کا مشفقانہ اور الفتوں سے لبریز رویہ تادیر ان کی یادیں اور باتیں یاد دلاتا رہے گا۔ وہ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں سے بھی بہت محبت کرتے تھے، خصوصاً بلّیوں سے۔ وہ اپنے نامساعد حالات میں بھی بلّیوں سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی پوری کرتے اور ان کی خدمت میں کسی غفلت و کوتاہی کو آڑے نہ آنے دیتے۔ ان کے پس ماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کی پانچ اولادیں ہیں جن میں سب سے بڑا بیٹا محمد سعد صدیقی، اس کے بعد بیٹی مریم صدیقی، پھر جویریہ صدیقی اور روتابہ صدیقی و حماد صدیقی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی تینوں بیٹیوں اور بیٹے کی شادی کردی تھی۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا ابھی سنِ بلوغت کو نہیں پہنچا اور زیر تعلیم ہے۔ تاجی صاحب 24 اکتوبر 1996ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، جب کہ 17 جولائی 2021ء بروز ہفتہ ان کی وفات کی تاریخ ہے۔
’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘
(راقم الحروف چیئرمین ’’مولانا محمد اکبر وارثی اکادمی‘‘ ہیں)