ششماہی تحصیل کراچی،شمارہ9

مجلہ
:
ششماہی تحصیل کراچی،شمارہ9
جولائی ۔دسمبر 2021ء
مدیر
:
ڈاکٹر معین الدین عقیل
نائب مدیران
:
ڈاکٹر جاوید احمد خورشید
ڈاکٹر خالد امین
صفحات
:
210 قیمت: 300 روپے
ناشر
:
ادارہ معارف اسلامی کراچی۔ ڈی35، بلاک 5، فیڈرل بی ایریا، کراچی 75950
فون
:
92-21-36349840
برقی پتا
:
tehseel.irak@gmail.com
ویب گاہ
:
www.tehseel.com

ادارۂ معارفِ اسلامی (اسلامک ریسرچ اکیڈمی) کراچی کا علمی اور تحقیقی مجلہ ’’تحصیل‘‘ ایک گراں قدر مجلہ ہے، اور یہ اس کا شمارہ 9 ہے جو سات اردو مقالات اور تین انگریزی مقالات پر مشتمل ہے۔ مدیران ’’سماجی علوم کے تحقیقی ادارے، ُرشکوہ عمارتیں، معمر عہدے داران: لیکن پُرعزم افرادِ کار کہاں؟‘‘ کے عنوان سے اداریے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کراچی کی علمی و تہذیبی زندگی میں انجمن ترقی اردو پاکستان، اقبال اکیڈمی، بہادر یار جنگ اکادمی، اردو لغت بورڈ، ادارہ یادگارِ غالب، قائداعظم اکیڈمی، جامعہ کراچی کا ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے سائنس، فنون اور ٹیکنالوجی کا ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جیسے ادبی اور تحقیقی اداروں کا اگرچہ قیام عمل میں آیا، لیکن کسی ادارے میں بھی نوجوانوں کو فنِ تحقیق سے وابستہ کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، اور اگر کہیں اس ضمن میں کچھ خوش نما دعوے سامنے بھی آئے تو انہیں جانچنے یا پرکھنے کا کوئی تسلی بخش انتظام (Scalable progress of framework) نہ رہا۔
اس افسوس ناک صورتِ حال کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ تحقیق کے نام پر جو ادارے وجود میں آئے تھے وہ نہ صرف افرادِ کار سے محروم ہیں بلکہ کئی کئی برسوں سے ان کی جانب سے کوئی علمی و تحقیقی منصوبہ بھی سامنے نہ آسکا۔ ان اداروں کا بالعموم یہ مسئلہ رہا ہے کہ تحقیق کے تعلق سے ان کے پاس تسلسل سے کوئی اقدامی منصوبہ نہ آیا۔ اگر کوئی منصوبہ رہا بھی تو دوچار کاموں کے بعد بس!
صورتِ حال یہ ہے کہ ان تحقیقی اداروں میں کہیں کوئی سرکاری افسر مراعات سے محظوظ ہورہا ہے، تو کہیں ان اداروں میں تحقیق کی ابجد سے ناواقف کوئی شخص خود کو وہاں متمکن رکھنے کے لیے بیان بازی کررہا ہے۔ ان میں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں خوش بختی سے فنِ تحقیق کو سمجھنے والا کوئی میسر آبھی گیا ہے تو وہ اپنی عمر کے اس دور میں ہے جس کے بعد اس سے کسی منصوبے کی تکمیل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ان معمر سربراہان کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر یا ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع کو استعمال کرنے سے نابلد ہیں۔ اب یہ تحقیقی ادارے اپنے قیام کا جواز قریباً کھو چکے ہیں۔ یہ ادارے اب پرانی کتابوں کی اشاعت، شش ماہی یا سہ ماہی یا ماہ نامے چھاپنے کے لیے مختص ہیں، جن میں تاثرات اور مکاتیب کو تحقیق کے نام پر شائع کیا جاتا ہے، یا یہ دوسرے یا تیسرے درجے کے شاعروں کے کاموں اور ان کی حیات پر مشتمل ایم فل اور پی ایچ ڈی کے غیر معیاری مقالات چھاپ رہے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ صورتِ حال نئی نہیں۔ اس صورتِ حال کے بعد اگر کوئی امید کی کرن موجود ہے تو وہ جامعات کے شعبہ جات ہیں جہاں فنِ تحقیق سے متعلق نوواردان کی عملی تربیت کا جیسا تیسا نظام موجود ہے۔ یہاں بھی نااہلوں کے تقرر، سینئر اساتذہ کی جتھے بازی اور سردمہری، فرسودہ نصابِ تحقیق، ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدم واقفیت، یونیورسٹی کی انجمنوں کے بے جا عمل دخل نے طالب علموں میں بے دلی اور بے ہنری کو فروغ دیا۔ سرکاری جامعات سے وابستہ توقعات اب پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ سرکاری جامعات زور شور سے شش ماہی تحقیقی مجلے شائع کررہی ہیں جن کے معیار کو تاحال جانچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان تحقیقی مجلات کا کام اب صرف اساتذہ کی ترقیوں کے لیے مطلوبہ مقالات کی تعداد پوری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں رہ گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں جامعہ کراچی میں موجود ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کا افتتاح کیا گیا۔ مرحوم و مغفور جمیل جالبی کے ذخیرۂ کتب کو ایک پُرشکوہ عمارت میں منتقل کیا گیا ہے جہاں طالب علم اور اسکالر ان کتابوں سے استفادہ کریں گے۔ یہ لائبریری ہی نہیں بلکہ تحقیق کو فروغ دینا بھی اس کے قیام کا ایک اہم مقصد ہے۔ تقریبِ افتتاح میں معمر افراد کی شرکت، ان کے خطبات، اور نوجوانوں کی عدم شرکت اس ریسرچ لائبریری سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔ خاکم بدہن، کہیں یہ ریسرچ لائبریری بھی لیاقت میموریل لائبریری یا شرف آباد بیدل لائبریری جیسی نری لائبریری ہوکر نہ رہ جائے۔ ایسے اداروں سے وابستہ افراد کو کسی بھی موضوع پر سوچنے سے پہلے اس جانب توجہ لازمی دینا چاہیے کہ ان اداروں میں نوجوانوں کے لیے کس طرح کشش پیدا کی جائے۔
اس سے قطع نظر ادارہ معارفِ اسلامی کراچی میں نوجوان میڈیکل ڈاکٹرز اور انجینئرز کو فنِ تحقیق کی عملی تربیت فراہم کرنے کا نہ صرف منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے بلکہ انہیں پہلے مرحلے میں سماجی حرکیات کی درست تفہیم کی سمت میں تحقیق کے منصوبے بھی باہمی رضامندی سے فراہم کیے گئے ہیں۔ تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد جب نوجوانوں کو تحقیق کی عملی تربیت دینے سے متعلق فکرمند ہیں تو وہ ادارے جن کا تعلق ادبیات یا سماجی علوم سے ہے انہیں اس بارے میں زیادہ سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے، اور ان کی جانب سے اقدامات بھی سامنے آنے چاہئیں۔
تحقیق سے متعلق نوجوانوں کی عدم دلچسپی جیسے دل گیر مسئلے کو حل کرنے، یا انہیں تحقیق کی جانب لانے کے لیے کچھ معروضات یہ ہیں:
٭ایسے تحقیقی منصوبے تشکیل دیئے جائیں جن میں ان عوامل اور محرکات کا پتا چلایا جائے جو نوجوانوں میں تحقیق سے متعلق عدم دلچسپی کا باعث ہیں۔
٭تحقیقی اداروں میں تسلسل سے ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے اور ان کے لیے نوجوانوں کی شرکت کے بارے میں غور و فکر کیا جائے، تحقیق میں ٹیکنالوجی کا استعمال روزافزوں ہے جو اب معمر افراد سے بعید نظر آتاہے۔
٭تحقیق کے تعلق سے ایسے منصوبے خصوصی طور پر ترتیب دیئے جائیں جن میںصرف اور صرف نوجوان شرکت کریں اور
٭نجی ادارے یعنی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے اشتراک سے نوجوانوں کی نہ صرف تربیت کی جائے بلکہ معمر افراد کو بھی اس میں شامل کیا جائے‘‘۔
مدیران معمر افراد کے بہت مخالف دکھائی دیتے ہیں۔ تحقیق کا تعلق جوانی اور بڑھاپے سے نہیں بلکہ علم اور ذوقِ تحقیق سے ہے۔ ٹیکنالوجی کا قصہ بھی پچھلے پچاس سال کا ہے۔ اس سے پہلے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے لے کر ٹائن بی تک سب نے اس ٹیکنالوجی کے بغیر ہی تحقیق انجام دی ہے، جہاں اس کے فوائد ہیں وہیں نقصانات بھی مدنظر رہنے چاہئیں۔
اس شمارے میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1) ’’عقلیت پسند سید جمال الدین افغانی: اسلامی سوشل ازم کی حمایت‘‘۔ یہ تحقیق جناب انور معظم سابق پروفیسر اسلامک اسٹڈیز عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن بھارت کا نتیجۂ فکر ہے۔ بہت معلومات افزا اور محنت سے لکھا مقالہ ہے۔
(2) ’’پروفیسر حنیف نقوی کے خطوط بہ نام شمس الدین بدیوانی‘‘۔ شمس بدایونی محقق و مصنف مقیم نیو آزاد پرم کالونی عزت نگر بریلی بھارت ہیں۔
(3)یوسف چوہان صاحب کی تحقیق ’’اصول ادبی تنقید: نفسیاتی مکتبۂ فکر اور سائنسی طریق کار‘‘۔ یوسف چوہان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔
(4)’’اردو رباعی: تنوعاتِ اسالیب و موضوعات‘‘۔ سید عامر عالم رضوی ریسرچ اسکالر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی
(5)’’صحرائے راجپوتانہ کا ایک گم نام فارسی شاعر: فیض عثمانی۔ حافظ محمود شیرانی کا ایک غیر مطبوعہ مقالہ‘‘۔ تحقیق جناب محمد زبیر، انچارج بیدل لائبریری شرف آباد کراچی
(6) ’’بلوچی افسانوں کے اردو تراجم: آغاز و ارتقا‘‘۔ جناب فضل کریم اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ عطا شاد ڈگری کالج تربت، بلوچستان
(7) ’’جرمنی میں قدیم اردو مطبوعات: 1857ء سے قبل‘‘۔ ڈاکٹر اکرام چغتائی، لاہور
حصہ انگریزی کے تین مقالات یہ ہیں:
1.”New Begining’ As a Pseudo- Concept in Shakespearean Art.
Shahib Yar Khan Associate Professor University Sarajevo.
2.The Administration of Colonel Minchin A New Era of Development and Prosperity for the Bhawalpur State.
Muhammad suhaib Khan PHD Shcolar Bhawalpur University.
.3 Modernity in Pakistan: Fantastic Roots and Where to Find Them.
Muhammad Zeeshan Akhtar Research Scholar Karachi.
مجلہ سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کیا گیا ہے۔