معلّم،محقّق اور قلم کار ڈاکٹرانور محمود خالد

۲۲نومبر ۲۰۲۱ء بروز پیر، ابھی سورج غروب ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ مجھے واٹس ایپ پر اپنے دوست (اور متعدد کتابوں کی تالیف و تدوین میں راقم کے ساتھ شریک) پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا یہ پیغام موصول ہوا: ”سیرت نگاری کا درخشاں باب بند ہوگیا۔ ڈاکٹر انور محمود خالد صاحب وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلَّہِ وَاِنَّا اِلَیْہ ِ رَاجِعُوْنَ۔ اردو نثر میں ”سیرتِ رسولﷺ“ اُن کا شاہکار اور شفاعت کی دستاویز تھا، ان شاء اللہ۔“
انور محمود کتنے خوش بخت ہیں کہ بلاشبہ وہ سکندر کی طرح خالی ہاتھ نہیں، بلکہ اپنی ”شفاعت کی دستاویز“ لے کر رخصت ہوئے۔ خدا کرے اگلی دنیا میں یہ دستاویز اُن کے لیے مختلف مراحل سے بلاروک ٹوک گزرنے کا ”ویزا“ ثابت ہو۔ اور باری تعالیٰ کے دربار سے اُمیدِ واثق ہے کہ ایسا ہی ہوگا، اِن شاءاللہ۔
اکتوبر۱۹۷۳ء میں مقامی حلقۂ اربابِ ذوق نے اقبال فیروز صاحب کے محفل ہوٹل لائل پور (اب:فیصل آباد) میں ”خورشید رضوی کے ساتھ ایک شام“ منانے کا فیصلہ کیا، مگر یہ تقریب التوا کا شکار ہوکر ۱۴ فروری ۱۹۷۴ء کو منعقد ہوسکی۔ انور محمود خالد بطور سیکریٹری حلقۂ اربابِ ذوق، اس تقریب کے محرّک اور مہتمم تھے۔ راقم، خورشید رضوی اور جناب انور سدید سرگودھا سے چلے۔ بعد عصر تقریب شروع ہوئی۔ خورشید رضوی صاحب کی شخصیت اور شاعری پر مضامین پڑھے گئے اور آخر میں مشاعرہ۔ خالد صاحب سے غائبانہ تعارف تو ۱۹۶۸ءسے تھا، جب وہ نعیم صدیقی صاحب کے سیارہ میں معاون مدیر کے طور پر کام کررہے تھے۔ (ان کے بعد راقم معاون مدیر مقرر ہوا۔) لیکن بالمشافہ غالباً یہ پہلی ملاقات تھی۔ اسی موقعے پر اُنھوں نے راقم کو دستخطوں کے ساتھ اپنی شاعری کی پہلی کتاب”عہد نامہ“ پیش کی۔ میں نے اس پر ایک مختصر سا تبصرہ بھی لکھا تھا۔
اس کے بعد بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی بار وہ سرگودھا آئے، اور ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں، انور سدید، خورشید رضوی، پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور سجّاد نقوی کے ساتھ اُن سے صحبت رہی۔ بالعموم پروفیسر ریاض مجید بھی اُن کے ساتھ ہوتے۔ ڈاکٹر سیّد معین الرحمان مرحوم، غالباً ۱۹۷۴ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لائل پور کے صدر شعبۂ اُردو ہوکر لائل پور پہنچے۔ خالد صاحب اسسٹنٹ پروفیسر اور صدرِ شعبہ تھے۔ معین صاحب نے اُنھیں توجّہ دلائی کہ پی ایچ ڈی کرلیجیے۔ معین صاحب کی بڑی خوبی تھی کہ وہ متعلقین کو اپنی استعداد بڑھانے کی طرف متوجہ کرتے، بلکہ مسلسل اُکساتے رہتے تھے۔ ان کی توجّہ سے نہ صرف انور محمود خالد بلکہ ریاض مجید، احسن زیدی، ریاض احمد ریاض، رشید احمد گوریجہ اور افضال احمد انور نےبھی آگے پیچھے پنجاب یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرلیا۔ انور محمود نے اُردو نثر میں سیرتِ رسول کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔
میرے استاد ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم غالباً اُس زمانے میں اقبال اکادمی کے ناظم تھے۔ اُنھوں نے خالد صاحب سے مقالہ لے کر ۱۹۸۹ء میں شائع کردیا۔ خالد صاحب کا خیال تھا کہ وہ اِسے اَپ ڈیٹ کریں گے۔ سیرتِ رسولﷺ ایک سدا بہار موضوع ہے۔ اس پر ہر سال کتابوں کا اضافہ ہوتا تھا، اب بھی ہوتا ہے۔ خالد صاحب آخری زمانے تک نئی کتابیں جمع کرتے رہے۔ دوست کہتے رہے کہ جو کچھ لوازمہ میسر آگیا ہے، اسی کی مدد سے کتاب کا دوسرا حصّہ لکھ ڈالیے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب راقم کتابیاتِ اقبال کے لیے حوالے جمع کررہا تھا تو لائل پور گیا۔ خالد صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر پہنچا، اقبالیاتی کتابوں کے حوالے نوٹ کیے (اُن دنوں وہ کرائے کے مکان میں مقیم تھے)۔ راقم نے اس ملاقات میں بھی مشورہ دیا کہ دوسرا حصّہ لکھنا شروع کیجیے، لیکن پھر وہ مکان کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔ یوں دوسرا حصّہ نہ لکھا جا سکا۔
انور محمود خالد اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی اور شعری ذوق رکھتے تھے، اور منجھے ہوئے قلم کار تھے، مگر افسوس ہے کہ اُنھوں نے تصنیف و تالیف کی طرف خاطر خواہ توجّہ نہیں دی، پھر بھی وقتاً فوقتاً جو کچھ لکھّا، وہ رسائل میں بکھرا ہوا ہے، مثلاً ”الحمرا“ میں اُن کی حسبِ ذیل تحریریں شائع ہوئیں:
۱- علّامہ اقبال بحیثیت نعت گو(اپریل ۲۰۰۷ء)
۲-تصوّراتِ عشق و خرد، اقبال کی نظر میں(جون ۲۰۰۹ء)
۳-اقبال، مشاہیرِ کشمیر اور جگن ناتھ آزاد (ستمبر ۲۰۰۹ء)
۴-فکرِ اقبال اور عصرِ حاضر (جولائی ۲۰۱۰ء)
۵-پاکستانی ادب کا مسئلہ(جنوری ۲۰۱۲ء)
۶-بشیر و نذیر کی سیرت کا ایک معطرجھونکا( تبصرہ)(جنوری ۲۰۱۲ء)
۷-مراسلت ڈاکٹر جاوید اقبال، ایم سلیم(جون ۲۰۱۲ء)
۸-انشائیہ اردو ادب میں(اکتوبر ۲۰۱۲ء)
۹-اپنا گریباں چاک(دو مکتوبات)(فروری ۲۰۱۳ء)
۱۰-اپنا گریباں چاک(مکتوبات اور تبصرے)(مارچ ۲۰۱۳ء)
۱۱-اپنا گریباں چاک(تبصرے اور ایک تازہ مراسلہ) (جون ۲۰۱۳ء)
۱۲-ریل کا سفر(جولائی ۲۰۱۳ء)
۱۳-تعلیم نسواں(اکتوبر ۲۰۱۳ء)
۱۴-شہیدِ مروّـت،ڈاکٹرصدیق جاوید(جنوری ۲۰۱۴ء)
۱۵-صنفِ نازک کون؟ (ریڈیو کالم) (مارچ ۲۰۱۴ء)
۱۶-پر وفیسر سجاد شیخ مرحوم کی یاد میں(اپریل ۲۰۱۴ء)
۱۷-شبلی نعمانی بحیثیت ِمؤرّخ(دسمبر ۲۰۱۴ء)
۱۸-الحمرا اپریل ۲۰۱۵ء۔۔۔ ایک تجزیاتی مطالعہ(مئی ۲۰۱۵ء)
۱۹-الحمرا مئی ۲۰۱۵ء۔۔۔ ایک تجزیاتی مطالعہ(جون ۲۰۱۵ء)
۲۰-الحمرا جون۲۰۱۵ء۔۔۔ ایک تجزیاتی مطالعہ(جولائی ۲۰۱۵ء)
۲۱-بانیِ پاکستان کے نام، مفکّرِ پاکستان کے خطوط(اکتوبر ۲۰۱۵ء)
۲۲-ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی پہلی برسی پر(نومبر ۲۰۱۶ء)
۲۳-غلطی ہائے مضامین مت پوچھ!(مئی ۲۰۱۷ء)
۲۴-جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی دوسری برسی پر(نومبر ۲۰۱۷ء)
۲۵-عبدالوہاب خان سلیم مرحوم کی یاد میں(جنوری ۲۰۱۸ء)
۲۶-علّامہ اقبال اور آفتا ب اقبال پر ایک طائرانہ نظر(مئی ۲۰۱۹ء)
۲۷-”۔۔۔۔یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟“(اگست ۲۰۱۹ء)
۲۸-بیدار ہے کشمیر(ترانہ)(ستمبر ۲۰۱۹ء)
۲۹-ماہنامہ الحمرا کا گوشۂ کشمیر (اکتوبر ۲۰۱۹ء)
۳۰-”غنچہ لگا پھر کھلنے۔۔“(جگن ناتھ آزادکی کتاب اقبال اور کشمیر کے حوالے سے چند معروضات) ( نومبر ۲۰۱۹ء)
۳۱-ایس اے واحد، وادیِ لولاب کے انور شاہ کشمیری اور کشمیر کے زندہ دل برہمن زادے کون؟ (چند تصریحات-ڈاکٹراسلم انصاری کے مضمون کے جواب میں )(فروری ۲۰۲۰ء)
۳۲-دو اہم ادبی شخصیات کی رحلت(جولائی ۲۰۲۰ء)
ایک زمانے میں خالد صاحب نے رسالہ فنون میں علّامہ اقبال کی نظموں ”شکوہ“ اور ”جوابِ شکوہ“ پر دو مفصّل مضمون شائع کیے تھے۔ ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی زیادہ توجہ اقبالیات پر رہی۔ یقیناً وہ ایک جیّد اقبال شناس بھی تھے۔ اگر اُن کے جملہ مضامین تلاش اور جمع کیے جائیں تو ایک نہایت معقول تحقیقی اور تنقیدی مجموعہ تیار ہوجائے گا۔
ان کے بعض مضامین میں بعض دوستوں کے ساتھ تعلقات اور ملاقاتوں کی تفصیل ملتی ہے۔ جیسے الحمرا ۲۰۱۵ء کے شمارے میں عبدالوہاب خاں سلیم سے ملاقاتوں کی روداد، اور اِسی شمارے میں اعزار احمد آزر سے ملاقاتوں کی روداد، یا ملتان یا اس کے نواحی علاقوں میں مشاعروں اور سیمیناروں میں شرکت کی تفصیل، یا نیویارک میں صدّیق جاوید سے ملاقاتوں کا ذکر۔ ایک بار انور محمود خالد اور صدیق جاوید دونوں امریکہ میں تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میں ہر ہفتے انھیں ملنے نیویارک جایا کرتا تھا اور دن بھر ہم نیویارک کے گلی کوچوں کی خاک چھانا کرتے تھے۔ بازاروں، چوکوں، ہوٹلوں، رستورانوں اور نئی اور پرانی کتابوں کی دُکانوں میں ہم گھومتے پھرتے اور دنیا کے اس مشہور ترین شہر کی سیر سے لطف اندوز ہوتے۔“ اس طرح کے تذکرے ان کی خودنوشت (اگر وہ لکھ سکتے) کے ٹکڑے معلوم ہوتے ہیں۔
جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے نام مشاہیرِ عالم کے خطوں کا ایک اُردو اور ایک انگریزی مجموعہ شائع کیا تھا۔ اُردو مجموعہ ”خطوط بنام جاوید اقبال“ کے عنوان سے ۲۰۱۱ء میں طبع ہوا۔ جاوید صاحب ۲۰۱۵ء میں فوت ہوگئے۔ مذکورہ بالا اُردو مجموعے کی اشاعت کے بعد اُنھیں جو خطوط موصول ہوئے، وہ اُنھیں ایک فائل میں محفوظ کرتے گئے۔ خالد صاحب نے الحمرا میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں اِن خطوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ”ڈاکٹر جاوید اقبال کے وُرثا سے گزارش ہے کہ اِن چھے برسوں کے موصولہ خطوط کی فائل ڈھونڈیں اور اُنھیں مرتّب کرکے سپردِ اشاعت کریں۔“۔۔۔۔ خالد صاحب خط نویسی میں بڑے مستعد تھے۔ بسا اوقات دوستوں کو ازخود خط لکھتے، اور اگر کوئی خط موصول ہوتا تو فوراً جواب دیتے۔ بیسیوں اکابرِ ادب سے ان کی خط کتابت رہی۔ اُن کے کاغذات میں بھی اکابرِ ادب کے خطوط محفوظ ہوں گے۔ اُن کے ورثا (خصوصاً ان کے بیٹوں اور ان کی بیٹی طاہرہ سکندر) سے گزارش ہے کہ وہ خطوط تلاش کرکے اُنھیں مرتب کرکے شائع کرا دیں۔
راقم کو اپنے ذخیرۂ مکاتیب سے خالد صاحب کے دو دو تین تین صفحے کے بیس خطوط دستیاب ہوئے ہیں (شاید کچھ اور بھی کاغذات سے نکل آئیں)۔ ۱۹۸۲ء کے بعد، دو طرفہ مصروفیات کے سبب ہماری خط کتابت کم رہی بلکہ معطّل، کیونکہ ۴ جولائی ۱۹۸۴ء کے بعد، ۶ فروری ۲۰۰۴ء کا خط ہے جو اُن کی شخصیت کے بعض رجحانات کے ساتھ ان کے دل چسپ اسلوب مکتوب نویسی کا عمدہ نمونہ ہے، اور اس لائق ہے کہ احباب کی نظروں سے گزرے۔ لکھتے ہیں:
”برادرم ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی صاحب
تسلیم۔ آپ کا خط ملا، غالب کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آ گیا:
زبان پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے، لیے
ایک مدّت سے آپ سے نامہ و پیام کا سلسلہ منقطع ہے۔ آپ کا خط اچانک ملا تو بیس پچیس سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ تب کبھی کبھار آپ کا خط آجاتا تھا اور کبھی کبھار کسی کتاب کا تحفہ بھی۔ اب مدّت سے یہ درِ فیض یابی بند ہے۔ آپ کا سفرنامۂ اسپین اور فرانس، پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔ پہلے رسالہ نقوش میں، اور پھر کتابی شکل میں پڑھا تو بے حد لطف اندوز ہوا۔ آپ کی تحقیقی کاوش اپنی جگہ، ترتیبی و تدوینی کارنامے اپنی جگہ، لیکن آپ کی تخلیقی تحریر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ایک تو اندلس سے ہماری محبت، پھر اپنے دوست کی زبانی اس کا تذکرۂ جمیل، سونے پر سہاگہ۔ اب آپ کا خط آیا تو آپ کی کامرانیاں اور اپنی ناکامیاں نظروں کے سامنے پھر گئیں۔
بھئی،ہم کیا اور ہماری صلاحیتیں کیا؟ یار دوستوں کو (حالیؔ کی طرح) ہم سے بھی خوش گمانیاں ہیں۔ قدرت نے ہمیں ایک قاری بنایا تھا۔ ہم نادان شاعر، نقّاد اور محقّق بن بیٹھے۔۔۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب اعزاز ہم پر تہمت ہیں۔ شاعر تو بس غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ ہیں۔ نقّاد حالیؔ، شبلی، محمد حسن عسکری اور خورشید الاسلام ہیں، اور محقّق حافظ محمود شیرانی اور رشید حسن خاں ہیں۔ (منصفانہ دوست نوازی کریں تو مشفق خواجہ اور محمد اکرام چغتائی)۔۔۔ اور غالبؔ کی طرف داری کریں (سخن فہمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) تو ڈاکٹر معین الرحمٰن اور آپ ہیں یا پھر اپنے کرم فرما خواجہ محمد زکریا اور ڈاکٹر صدّیق جاوید۔ باقی بے شمار لوگ خود کو جو سمجھنا چاہیں، سمجھیں۔۔۔ اُن کی مرضی۔
بہرحال خود اپنے بارے میں کوئی غلط فہمی یا خوش فہمی نہیں۔ اگر کوئی تھی بھی تو وقت نے سب کس بل نکال دیے ہیں۔ شیخ سعدی کو تو عمرِ عزیز کے چہل سال ضائع ہونے کا افسوس تھا، اپنی تو ساری عمر رائیگاں گئی۔ نہ کوئی صلاحیّت تھی اور نہ ہی کچھ کر پائے۔ صلاحیت ہوتی تو ظاہر بھی ہوجاتی۔ کم کیا اور زیادہ کیا؟اب جب کہ سفینۂ حیات کنارے پر آ لگا ہے:
خدا سے کیا ستمِ جورِ ناخدا کہیے
آپ کے خط سے البتہ آپ کی جملہ سرگرمیوں سے آگاہی ہوئی۔ اپنی ”قابلِ رشک“ صحت کے باوجود آپ نے اب تک جو کام کیا ہے اور جو کرتے چلے جارہے ہیں، وہ آپ کے دوستوں اور خیر خواہوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ سفرِ جاپان کی ماہ نامہ بتول میں اشاعت کی خبر پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی ہوا۔ کیا اس سفرنامے میں مستنصر حسین تارڑ کی طرح مَہ جبینوں کا زیادہ تذکرہ ہے؟ جو اس کی اشاعت کے لیے آپ نے زنانہ پرچے کا انتخاب کیا ہے؟ لیکن بتول تو بڑا مقدّس رسالہ ہے۔ بہو بیٹیوں کے پڑھنے کی چیز ہے۔ اس میں آپ نے اپنے سفرنامے کی جو اقساط شائع کرائی ہوں گی، اُن کو برقع یا کم ازکم نقاب ضرور اوڑھایا ہوگا۔ سفرنامہ: ”پوشیدہ تری خاک میں۔۔“ اگرچہ ”لذیذ“ مقامات مفقود تھے لیکن پھر بھی وہ بے حد دل چسپ تھا۔ (قرطبہ اور مسجدِ قرطبہ کا پڑھ کر روح وجد میں آگئی تھی۔) مگر اب آپ نے جاپان میں کیا دیکھا جو ۱۴ قسطوں سے پھیل کر وہ سفرنامہ اٹھارہ قسطوں تک جا پہنچا ہے۔ کتابی شکل میں تو نہ جانے کب دیکھنے کو ملے، کیا مطبوعہ اقساط کی نقل نہیں مل سکتی؟ پڑھ کر واپس کی جاسکتی ہے۔ اب میں ”بتول“ کے پرچے کس بی بی کے پاس ڈھونڈنے جاؤں گا؟
ہاں گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد نے مجھے وزیٹنگ پروفیسر کی پیش کش تو کی ہے لیکن فی الحال تنخواہ کی بات نہیں کی۔ اگر گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور کے برابر معاوضہ (پندرہ ہزار روپے ماہانہ) دینے پر اربابِ اختیار آمادہ ہوگئے تو شایدجوائن کرلوں، وگرنہ گھر پر بیٹھ کر تھوڑا بہت کام تو کر ہی رہا ہوں۔ ویسے اُنھوں نے مجھے اپنے بورڈ آف اسٹڈیز کا رکن تو بنا رکھا ہے لیکن اتنے نیک ہیں کہ ٹی اے تک دینے کے روادار نہیں۔ کیا اعزازیہ ”بے مزد“ ہوتا ہے؟ (ڈاکٹر تحسین فراقی سے پوچھ کر بتائیے گا)۔
خدا کرے آپ بخیریت ہوں۔
پس تحریر: صدّیق جاوید کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس رشید حسن خاں کے مرتّبہ،”دیوانِ جعفر زٹلّی“ کی چند کاپیاں آئی ہوئی ہیں۔کیا اُن میں سے ایک نسخہ (قیمتاً) مجھے مل سکتا ہے؟
فقط والسلام
آپ کا مخلص
انور محمود خالد“
کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مہینے، دو مہینے میں ایک بار دوستوں سے ملاقات یا اپنے ذوق کی کسی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور آتے اور اپنی لائق بیٹی ڈاکٹر سکندرہ کے ہاں مقیم ہوتے (وہ کسی کالج میں صدرِ شعبۂ اردو اور پرنسپل ہیں۔ انھوں نے بھی اورینٹل کالج سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔) دورانِ قیام وہ دوستوں سے ملنے ان کے گھر جاتے، اور جہاں نہ جاسکتے، انھیں فون کرکے معذرت کے ساتھ حاضری کا وعدہ کرتے۔ شاہد علی خان اور ڈاکٹر انورسدید کے ہاں تو ضرور ہی جاتے۔ آخری زمانے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے ہاں بھی۔ کبھی کبھار راقم کے ہاں بھی آجاتے۔ ڈاکٹر سعید اختر دُرّانی پاکستان آئے ہوئے تھے۔ جناب شاہد علی خان نے فروری ۲۰۱۲ء میں ان کے اعزاز میں جم خانہ کلب لاہور میں تقریبِ ملاقات کا اہتمام کیا۔ انور محمود خالد بھی مدعو تھے۔ فیصل آباد سے لاہور پہنچے۔ ڈاکٹر انورسدید کی صدارت میں منعقدہ اس محفل میں انھوں نے بھی دُرّانی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس تقریب میں اظہر جاوید، مرزا حامد بیگ، عطیہ سیّد، پروین عاطف، شبہ طراز، جمیل یوسف اور علی بابا تاج بھی موجود تھے۔ مارچ ۲۰۱۹ء میں بھی انھوں نے بطورِ خاص لاہور کا سفر کیا۔ ”الحمرا“ کے مدیر جناب شاہد علی خاں نے ”مولانا حامد علی خاں ایوارڈ“ جاری کیا۔ منصفین نے جناب اسلم کمال کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ شاہد صاحب نے ایوارڈ دینے کی تقریب کا اہتمام ۱۹ مارچ ۲۰۱۹ء کو جِم خانہ کلب لاہور میں کیا۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں لاہور کے منتخب اور معروف اکابرِ ادب موجود تھے۔ ان سب نے الحمرا کے مدیر کی خدمات کو سراہا۔ افسوس ہے کہ اس تقریب کے چند ایک شرکا (سعید احمد خاں، قاضی جاوید اور انور محمود خالد) دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس تقریب کی رُوداد (از غازی علم الدین) الحمرا اپریل ۲۰۱۹ء میں شائع ہوئی۔ غازی صاحب لکھتے ہیں: ”جناب ڈاکٹر انور محمود خالد کی تقریر قدرے طویل تھی جس میں انھوں نے جاری پروگرام کی اہمیت اور پس منظر پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ”الحمرا“ کو جاری رکھنے میں شاہد علی خاں کی مساعی کو سراہا۔ جناب اسلم کمال کے فکروفن اور الحمرا سے ان کے اٹوٹ تعلق کا ذکر کیا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر انور محمود خالد الحمرا کے مستقل قاری اور لکھاری ہیں، نیز ”محفلِ احباب“ میں اکثر موجود ہوتے ہیں۔“ (محفلِ احباب میں اُن کے مراسلے بعض اوقات بہت طویل بھی ملتے ہیں، جیسے: اگست ۲۰۱۳ء میں اُن کا مراسلہ چار صفحات، جون ۲۰۱۲ء اور اکتوبر ۲۰۱۳ء میں پونے پونے چار صفحات، نومبر ۲۰۱۳ء میں پونے پانچ صفحات اور اگست ۲۰۱۳ء میں پانچ صفحات پر پھیلا ہوا ہے)۔ اسی طرح ایک بار مشفق خواجہ کراچی سے لاہور آئے۔ خالد صاحب اُنھیں ملنے کے لیے لاہور پہنچے۔ ایک شب ڈاکٹر صدیق جاوید نے مشفق خواجہ کے اعزاز میں اپنے گھر میں دعوتِ طعام کا اہتمام کیا اور بہت سے قریبی احباب کو بھی مدعو کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دعوت میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر تحسین فراقی اور جعفر بلوچ بھی موجود تھے (شاید کچھ اور احباب بھی، نام یاد نہیں رہے)۔ خالد صاحب کو کتابیں جمع کرنے کا ”ہوس“ کی حد تک شوق تھا۔ جب کبھی اُن کے ذوق کی نئی کتاب چھپتی، اُسے حاصل کرلیتے۔ دوستوں سے ہدیتاً، ورنہ خرید لیتے۔ میری کوئی کتاب شائع ہوتی، فوراً اُن کی طرف سے طلب آتی، مثلاً:۲۰ مئی ۱۹۷۶ء کو ایک خط میں لکھّا: ”میں نے گزارش کی تھی کہ آپ اپنی تصانیف سے ہمیں محروم نہ رکھیں۔ سرور اور فسانۂ عجائب اور کتابیاتِ اقبال ایسی چیزیں تو نہیں ہیں جو دوستوں کی نظروں سے بچا کر رکھی جائیں۔ اگر ممکن ہو تو تقریب پر آتے وقت ان کی ایک ایک کاپی لیتے آئیں۔ بے شک آپ ہمیں مفت خوری کی عادت نہ ڈالیں۔ ان شاءاللہ عندالملاقات ہدیہ پیش کروں گا۔“
ان کے آخری زمانے میں، راقم رفاہ یونی ورسٹی کے اردو بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاس میں شرکت کےلیے فیصل آباد گیا۔اجلاس کے بعد عیادت کےلیے ان کے گھر پہنچا۔ بستر پر نیم دراز تھے اور دائیں بائیں، سرہانے چاروں طرف سے کتابوں میں گھرے ہوئے۔ امریکہ تین بار گئے تو وہاں سے اپنے ذوق کی انتہائی گراں قیمت کتابیں خرید خرید کر جمع کرتے رہے۔ کچھ ساتھ لائے اور باقی ان کے بیٹے نے بحری جہاز سے بھجوائیں۔ خالد صاحب کو کتابیں صرف خریدنے کا شوق نہ تھا، پڑھتے بھی تھے۔ میجر (ر) غلام نبی اعوان کہتے ہیں: ”میں نے اپنی ۶۸ سالہ زندگی میں ڈاکٹر [خالد] صاحب جیسے صاحبِ مطالعہ اور یادداشت والے لوگ بہت کم دیکھے۔” (الحمرا، ستمبر ۲۰۱۵ء، ص۱۳۴)
باری تعالیٰ انور محمود خالد کی مغفرت کرے، آمین۔