آج کل امتِ مسلمہ کو اچھی خبر تو کم لیکن بری خبر اور المناک حادثہ اور المیہ ہر روز سننے کو ملتا ہے۔ تازہ ترین المناک خبر یہ ہے کہ ایک روز قبل یورپ کے دل لندن میں مسلم صحافت کا بڑا نام اور انگریزی جریدے “Impact International” کے ایڈیٹر انچیف حاشر فاروقی 92 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، جن کی پورپ میں مسلمانوں کی خدمات اور صحافت کے ذریعے ان کی کاوشوں کو عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے، ان کی دینی اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کے مسائل، حقوق، اور دینی بیداری کے لیے ان کی صحافتی خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا کرے، آمین۔ حاشر فاروقی کی وفات سے امتِ مسلمہ ایک بڑے صحافی، انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک مجاہد، دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا درد رکھنے والے اور ان کی آواز بن کر ان کی لڑائی لڑنے والے ایک فائٹر، اور دنیا میں مسلمانوں کے زوال اور اس سے نکالنے کے راستوں پر غورو فکر کرنے والے ایک مفکر سے محروم ہوگئی ہے۔
حاشر فاروقی زمانہ طالب علمی سے مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فہمِ اسلام سے متاثر تھے اور پھر زندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی مکتبہ فکر سے وابستہ رہے اور عالم اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان پر ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اپنے جریدے میں اپنے طاقتور قلم سے آواز بلند کرتے رہے۔ حاشر فاروقی 1960ء میں لندن آئے اور قیام کے کچھ عرصے بعد لندن اور برطانیہ کے دوسرے شہروں میں اسلامی فکر رکھنے والے شہریوں سے رابطہ کیا اور باہمی مشورے سے یو کے اسلامک مشن کی بنیاد رکھی۔ وہ اسلامک فاؤنڈیشن یو کے لیسٹر اور مسلم ایڈ یو کے کے بھی سرگرم رکن تھے۔ انہوں نے 1970ء میں بہت ہی کم وسائل سے صرف اپنے پختہ عزم اور اللہ پر کامل بھروسے اور یقین کے ساتھ تن تنہا لندن سے انگریزی کا جریدہ امپیکٹ انٹرنیشنل شائع کرنا شروع کیا۔ وہ ایک مدت تک اس جریدے میں کام کرنے والے واحد شخص تھے جس کو ون مین آرمی کہا جا سکتا ہے۔ یہ جریدہ تھوڑے عرصے میں یورپ میں مسلمانوں کی توانا آواز بن گیا۔ ایک عرصے تک دو کمروں کے ایک دفتر میں اس جریدے کے وہی دفتری، وہی رپورٹر، وہی سب ایڈیٹر، وہی ایڈیٹر، وہی ٹائپسٹ، وہی ناشر، وہی پبلشر، وہی مارکیٹ منیجر اور وہی اکاؤنٹنٹ رہے۔ لیکن بعد میں ان کو سلیم صدیقی جیسا مخلص ساتھی، بہترین منیجر اور اکاؤنٹنٹ مل گیا، جنہوں نے ان کو دفتری کاموں سے فارغ کردیا اور ان کو صرف سوچنے اور لکھنے تک محدود کردیا۔ اس سے جریدے اور اس میں شائع ہونے والے لوازمہ کا معیار بلند ہوا، اس کی اشاعت اور رسائی جگہ جگہ اور ملکوں ملکوں ہونے لگی۔ انڈیا، پاکستان، ترکی، عرب اور افریقی ممالک کے اخبارات اور جرائد میں امپیکٹ کے اداریے اور آرٹیکل چھپنے لگے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچے میں شائع ہونے والے آرٹیکل،اداریے اور کالم حقائق پر مبنی،متوازن، غیر جانبدار اور کسی جابر اور ظالم کے ظلم کے آگے نہ جھکنے کا تاثر رکھتے تھے، اور یہی حاشر فاروقی کی صحافت کے اصول تھے جن پر وہ پوری صحافتی زندگی قائم رہے۔یہی اصول انہوں نے اُن جوانوں کو سکھائے جو صحافت کی تربیت کےلیے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کے تربیت یافتہ صحافی اس وقت لندن کے اخبارات میں کام کررہے ہیں۔ ان کی صحافتی اور انسانی حقوق کے لیے کاوشوں پر ان کو 2013ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ہمارے دوست انجینئر خالد بیگ بھی جو آج کل لاس اینجلس کی اورنج کاؤنٹی میں رہتے ہیں،1994ء سے 2003ء تک ان کے جریدے امپیکٹ انٹر نیشنل کے مستقل کالم نگار رہے۔وہ First things first کے عنوان سے کالم لکھتے تھے، جس میں ان کے کالموں میں سے 80 کا انتخاب ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے جو Amazon سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
حاشر فاروقی 4 جنوری 1930ء کو کان پور انڈیا میں پیدا ہوئے۔ وہ زمانہ طالب علمی سے انسانی حقوق کا گہرا شعور رکھتے تھے اور کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اُس زمانے میں مسلمان طلبہ کی ایک جماعت بھی منظم کی جو مسلمان طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتی تھی۔ وہ اُس زمانے میں تحریک پاکستان کے بھی سرگرم کارکن تھے اور مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ ان میں لکھنے لکھانے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ جب وہ لندن آئے تو ان کا یہی شعور اور شوق ان کو برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو منظم کرنے اور ان کی آواز بننے کا باعث بنا، انہوں نے سب سے پہلے یو کے اسلامک مشن اور پھر 1970ء میں امپیکٹ انٹرنیشنل جاری کیا۔ اس سے قبل وہ Scribe کے قلمی نام سے برطانیہ اور یورپ میں مسلمان طلبہ تنظیموں کی فیڈریشن FOSIS کے ماہانہ جریدے Muslim کے لیے کالم لکھتے تھے۔ حاشر فاروقی 1980ء میں اُس وقت عالمی خبروں میں آئے جب ایرانی انقلاب کے دوسرے سال کردستان کی علیحدگی کے حامیوں نے لندن میں ایرانی سفارت خانے کو 30 اپریل سے 5 مئی تک یرغمال بنائے رکھا۔ ان 26 یرغمالیوں میں حاشر فاروقی بھی تھے جو اُس وقت کسی کام سے سفارت خانے میں موجود تھے۔ انہوں نے سفارت خانے کو یرغمالیوں سے آزاد کرانے میں بھی اپنے اثرات کو استعمال کیا۔ وہ برطانیہ کے اُن چند مسلم رہنماؤں میں بھی شامل تھے جنہوں نے پرنس آف ویلز ولیم چارلس کو اسلامک مشن یو کے لیسٹر کا دورہ کرنے پر آمادہ کیا، اور یہ دورہ ممکن ہوا۔ اس دورے کی وجہ سے برطانیہ کی مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس اہم شاہی مہمان کو اسلام اور مسلمانوں سے تعارف اور ان کے برطانیہ میں مسائل جاننے کا موقع ملا۔ معزز مہمان کو فاؤنڈیشن اور کمیونٹی کی طرف سے تحائف بھی دیئے گئے۔ برطانیہ کی تاریخ میں یہ ایک اہم موڑ اور موقع تھا جب شاہی خاندان کے ولی عہد کو براہِ راست مسلم کمیونٹی کے کسی ادارے کو دیکھنے اور دینِ اسلام کو سمجھنے اور مسلمانوں کے مسائل کو بالمشافہ سننے کے لیے مدعو کیا گیا۔
حاشر فاروقی کی بے لوثی اور اپنی پوری زندگی دعوتِ اسلامی کے لیے وقف کرنے کی مثالیں تحریکِ اسلامی کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ 1960ء کے اوائل میں کراچی کی ایک اچھی ملازمت چھوڑ کر لندن آئے۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر اعلیٰ تنخواہ پر بڑی ملازمت حاصل کرسکتے تھے، یا کوئی کاروبار کرکے کروڑ پتی بن سکتے تھے جیسے کہ ایشیائی ملکوں سے برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں آنے والے کاروبار سے کروڑپتی اور ارب پتی بنے، لیکن حاشر فاروقی نے اپنے آپ کو دین کی دعوت کو عام کرنے کے لیے وقف کردیا۔ وہ اپنے جریدے سے صرف اتنی رقم لیتے تھے جس سے ان کا گزارا ہوسکے۔ وہ اگر چاہتے تو کسی بھی جگہ بڑا گھر لے سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے لندن میں چھوٹے چھوٹے دو کمروں کے فلیٹ میں رہنا قبول کیا۔ انہوں نے کبھی اچھا گھر اور اچھی سواری لینے کی خواہش نہیں کی۔ ان کی زندگی صرف ایک مقصد پر مرکوز رہی کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو، ان میں اسلامی شعور بیدار ہو، ان کے حالات بہتر ہوں، وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالا ہوکر متحد ہوں اور اسلام کے زریں اصولوں کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ مسلمان دنیا میں جہاں جہاں ظلم و سفاکی کا شکار ہوں اس کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ انہوں نے یہ کام اپنے جریدے کے ذریعے کیا۔
حاشر فاروقی کے نام سے ہم 1970ء کے عشرے سے واقف تھے اور اس کی وجہ ان کا جریدہ تھا جو جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمٰن لندن سے شائع ہونے والے دوسرے اخبارات اور جرائد کے ساتھ پی آئی اے کے توسط سے منگواتے تھے۔ وہ ان اخبارات اور جرائد کی اہم خبروں پر نشان لگا کر فارن ڈیسک کے حوالے کرتے تھے کہ ان کی خبریں بنائی جائیں۔ یہ خبریں جنگ کے اندرونی صفحات پر شائع ہوتی تھیں۔ اس ڈیسک کے انچارج سے ہم اپنی پسند کے اخبار اور جرائد پڑھنے کے لیے لیا کرتے تھے جن میں امپیکٹ بھی شامل تھا۔ پھر ان کا ذکر پروفیسر خورشید اور سید منور حسن سے بہت سنا جو اسلامک فاؤنڈیشن یو کے لیسٹر کے بانی سربراہ تھے اور سال کا کچھ عرصہ وہیں قیام بھی کرتے تھے۔ حاشر فاروقی سے براہِ راست ملنے کا شرف اگست 2019ء میں اُس وقت حاصل ہوا جب ہم پہلی بار برطانیہ گئے۔ لندن میں چند روزہ قیام تو کراچی سے ہمارے دوست حبیب جان کے گھر رہا، لیکن اہم دوستوں سے ملاقات کرانے کے لیے ہمارے کلاس فیلو اور جنگ لندن کے سابق ایڈیٹر ظہور نیازی مسلسل ہمارے ساتھ رہے۔ ہم نے ظہور بھائی سے حاشر فاروقی اور یو کے اسلامک مشن کے سابق صدر تنظیم واسطی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں کمال مہربانی سے ایک دن ان دونوں سے ہماری ملاقات کرادی۔ یہ ملاقاتیں ہمارے برطانیہ کے دورے کا حاصل تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ہمیں کس قدر خوشی حاصل ہوئی ہوگی۔ اُس وقت ان کی عمر 89 سال تھی۔ بہت کمزور اور ضعیف لگ رہے تھے، لیکن ان سے بات چیت سے اندازہ ہوا کہ ان کا دماغ پوری طرح بیدار اور امتِ مسلمہ کے مسائل سے پریشان اور متفکر ہے۔ ان کا عزم اور حوصلہ جوان تھا اور ان کی نشست کا کمرہ اور اس میں جگہ جگہ کتابیں اور میز پر بکھرے مسودے بتارہے تھے کہ وہ اس عمر میں بھی کتابیں پڑھتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ میز پر کاغذات بکھرے پڑے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ ”اس بے ترتیبی میں بھی ترتیب ہے۔ میرے کام کرنے کا یہی طریقہ ہے۔“
حاشر فاروقی ایک مقصد کے لیے جیے اور اسی مقصد کے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کیا، اور وہ عظیم مقصد دین کی سربلندی، انسانیت کی خدمت، اور ظلم و جبر کے خلاف جہدِ مسلسل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھا۔