عجیب ِجدید ’’غیر منقوط ترجمۂ قرآن‘‘

اردو زبان کا محاورہ ہے ’’بے نقط سنانا‘‘۔
مخاطب کی زجرو توبیخ اور گوشمالی کے لیے مغلظات کو دورانِ گفتگو استعمال کرنا اس کا مفہوم اور عملی اظہار ہے۔
مگر آج کی اس تقریب سے اس کی مماثلت محض لفظی ہے۔
آج کی تقریب میں ایسے ’’بے نقط‘‘ یا ’’غیر منقوط‘‘ کلام کا ذکر ہے جو بلاشبہ مخاطبین و سامعین اور عاملین اور فہم و تدبر کرنے والوں کے لیے سراسر رحمت، ہدایت، موعظت اور شفاء لمافی الصدور ہے۔ سلامتی کا راستہ اور دنیوی و اُخروی فلاح کی شاہ کلید ہے۔ بلاشبہ وہ قرآنِ عظیم ہے۔ آج کی مجلس میں اس کے ایک معجز نما پہلو کا تذکرہ ہے، جسے میں ’’عجیبِ جدید‘‘ سے موسوم کرتا ہوں۔ دنیا میں بالعموم عجائبات میں عمارتوں اور غیر معمولی، محیر العقول قدرتی نظاروں کو شمار کیا جاتا ہے اور انہیں عالمی ورثہ قرار دے کر اور زرِکثیر خرچ کرکے عالمی اداروں کی نگرانی میں محفوظ بنایا جاتا ہے۔ بہت کم، بلکہ عبث ہے کہ کسی علمی کارنامے کو ایسی پذیرائی ملی ہو۔
اگرچہ علمی کارنامے اور اہلِ علم اس پذیرائی کے کبھی طالب نہیں رہے، اور نہ افسوس و حسرت میں مبتلا۔ تاہم ایسے منفرد و یکتا کارناموں کی قدر افزائی عصرِ حاضر و مستقبل کے طالبانِ علم کے لیے بیان کرنا واجب الوجوب کا درجہ رکھتی ہے۔ بالعموم جس سے کوتاہ نظری اور بے اعتنائی کا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
علم اور اہلِ علم کے ساتھ اس قومی و ملّی رویّے کی نوحہ گری کرنے کے بجائے آیئے! عصرِ حاضر کے اس علمی عجوبۂ جدید سے متعارف ہوں، جس کا اہتمام ادارۂ معارفِ اسلامی نے کیا ہے، جو بجاطور پر اس علمی پذیرائی پر خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔
قرآنِ عظیم ایک لازوال اور زندۂ جاوید معجزہ ہے،بلکہ علمی و ادبی عجوبہ، جس کا نظیر و مثیل کوئی اور ہے، نہ ہوگا۔ اس کے تحفظ و بقا کا ذمہ کسی دنیوی ادارے نے نہیں بلکہ حیی و قیوم ذاتِ بالا و برتر نے خود اٹھایا ہے۔ انا نحن نزلنا الذکرو انا لہ لحافظون۔
قرآنِ عظیم کے علوم، فکر اور نظریات سے وابستہ ہونے والے افراد اور اقوام تو امر ہوئے ہی… اس کی آیات، الفاظ و حروف اور اوراق سے بھی خود کو مربوط اور علوم و معارف کے اس بحرِ زخّار کی غوّاصی کرنے کی سعادت بھی ان ہی کے نصیب میں آتی ہے، جنہیں اللہ اس کی توفیقِ خاص سے نوازے۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
عصرِ حاضر میں ایسے ہی ایک عجوبہ ساز اور نابغہ عالم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مصطفی ہیں۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبۂ اسلامی فکر و تہذیب کے فاضل استاد، محقق، سیرت نگار اور اسلامی علوم کے ماہر۔ نمود و نمائش اور اظہارِ تفاخر سے کوسوں دور۔ ایک حلیم و خلیق اور متواضع شخصیت۔ بحرِعلم کی غوّاصی میں ہمہ دم و ہمہ تن مصروف۔ جنہوں نے مکمل قرآنِ عظیم کا اردو میں غیر منقوط ترجمہ کیا ہے۔
ہندوستان کے معروف دانش ور اور جماعت اسلامی ہند کے رہنما مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی فاضلانہ رائے اور محقق سید وہاج الدین ہاشمی کے تحقیقی مقالے ’’اردو میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ‘‘ کے مطابق ڈاکٹر طاہر مصطفی کا یہ غیر منقوط ترجمۂ قرآن، اردو کا پہلا مکمل غیر منقوط ترجمۂ قرآن ہے جو قرآنیات کے لٹریچر میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
صفتِ اہمال، یعنی بغیر نقطوں کے تحریر کوئی آسان صنف ِادب نہیں، اس کے لیے زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت و صلاحیت کے ساتھ مترادف ذخیرۂ الفاظ تک رسائی مطلوب ہے۔ اس کام میں عرق ریزی ایک اضافی تقاضا ہے۔ اس منفرد ادبی صنف اور علمی جہت پر کم و بیش تیس افراد کو قدرت حاصل ہوئی ہے۔
اس صنف میں معروف ترین اور قدیم ترین تخلیق ابوالفضل فیضی کی ’’سواطع الالہام‘‘ ہے، اور عصرِ جدید کی ’’ہادیِ عالم‘‘ کی تخلیق کا فخر جناب ولی رازی کو حاصل ہے۔ مختصر تراجم قرآن، مختصر تفسیرات، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، نعت ِمبارک اور سیرتِ صحابہ جیسے موضوعات پر جزوی یا کلی تصانیف کا پتا چلتا ہے، مگر اِن سب سے ضخیم بلاشبہ وہ ترجمۂ قرآن ہے جو اردو زبان کا شاہکار اور آج کی مجلس میں موضوع ِبحث ہے۔
اردو زبان کے 36 حروفِ تہجی یا ابجدی پر مشتمل ذخیرۂ الفاظ و حروف کو اس کے نصف یعنی 18 غیر منقوط حروف پر محدود کرکے مکمل بے نقط ترجمۂ قرآن پایۂ تکمیل تک پہنچانا یقینا بڑا کمال اور عجوبۂ عصرِ جدید ہے۔
قرآنِ عظیم کے 30 پاروں اور114 سورتوں کے ایک ایک لفظ، معنیٰ و مفہوم کو مسلسل و مربوط انداز سے بیان کرنا، اس طرح کہ کلامِ الٰہی کے معانی و مطالب کو کسی تعقید و الجھائو کے بغیر بصراحت پیش کیا جائے، یقینا اکیسویں صدی کے اکیسویں سال کا محیرالعقول کارنامہ بلکہ لازوال عجوبہ ہے۔
دنیا کے دیگر سنگی و خشتی عجائبات کبھی نہ کبھی نابود و ناپید ہوجائیں گے، مگر لوحِ محفوظ پر رقم تاابد اپنی لفظی، معنوی، صوتی، ادبی اور تاثیری آب وتاب کے ساتھ برقرار رہنے والے پارس قرآن کے ساتھ مربوط ہونے والا ہر اعلیٰ و ادنیٰ کام اور خدمت بھی اَمر رہیں گے۔
ڈاکٹر طاہر مصطفی کا یہ بے مثال ترجمۂ قرآن اردو ادب میں سرِفہرست مقام بناگیا ہے۔ اس غیر منقوط تخلیق میں اردو کے اسلوبیاتی پہلو اور لفظی مُحسَنَات اور لسانی خصائص کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس میں 99 فیصد الفاظ اردو کے ہیں جبکہ دیگر زبانوں کے محض ایک فیصد الفاظ شامل ہیں۔ منقوط الفاظ کے غیر منقوط مترادفات کی تلاش میں مترجم موصوف کو بسااوقات کئی کئی ہفتوں کی عرق ریز مشقت ِغور و خوض اور تحقیق و جستجو کا سفر کرنا پڑا۔ بے شمار مقامات ایسے آئے ہوں گے جہاں مترجم کا قلم تھم گیا ہوگا اور نجانے کن مشکل مراحل سے گزر کر غیر منقوط مترادفات کا پہاڑ سر ہوا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مترجم کی مہارتِ لسانی و ادبی گرفت سے کہیں زیادہ اس عظیم کام کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں تائید ِایزدی مؤثر وکارفرما رہی ہوگی۔ اس کی تفصیل کوہ کن خود ہی بتائیں گے۔ اگرچہ اُن کے یہ الفاظ اس طرف قوی اشارہ ہیں کہ ’’میں نے یہ کام خود نہیں کیا، مجھ سے یہ کام لیا گیا ہے‘‘۔
اللہ کے راستے میں چلنے اور محنت کرنے والوں کے لیے ہی بشارت ہے ’’فسینسررہ للسری‘‘ یقیناً مترجم موصوف نے ان ہی غیبی نصرتوں اور سعادتوں کا سہارا لیا ہوگا، وگرنہ یہ عظیم کام کسی انسان کے اپنے بس میں ہرگز نہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں بصرہ عراق میں نحو اور لغت کے امام کے طور پر جانا جانے والا ابوالاسودالدئولی وہ شخص ہے جس نے قرآن کے الفاظ و حروف کی تشکیل کی۔ یعنی نقطے لگا کر انہیں عجمیوں، غیر عربیوں کے لیے قابلِ فہم بنایا۔
قرآن اپنے اسلوب کے اعتبار سے آسان فہم ہے۔ ولقد یسرنا القرآن للذکر۔ اس کا بیانی اسلوب، تکرارِ آیات، انتخابِ الفاظ، تراکیب و استعارات، سب حیرت انگیز حد تک بلیغ اور آسان ہیں۔ پھر ان آیات کی تشریح، تفہیم، توضیح، تبیین و تفصیل کا الٰہی نظم بھی اس کے خصائص و امتیازات کا نمایاں پہلو ہے۔ اسے ہمہ پہلو آسان بناکر بنی نوع انسان کی ہدایت کا مستقل انتظام کیا گیا۔
اہلِ عرب کے لیے غیر منقوط قرآن پڑھنا اور سمجھنا مشکل نہ تھا، اسی لیے تقریباً نصف صدی تک مصاحفِ قرآن بغیر لفظوں کے مروج و مستعمل رہے۔
ہم اہلِ عجم کے لیے ابوالاسود الدئولی نے ’’نقطوں‘‘ کا تکلف کیا۔اُسے کیا خبر تھی کہ چودہ صدیوں بعد عجمی اس قدر زیرک ہوں گے کہ نہ صرف مختلف زبانوں میں بے نقط تصنیفات پر قادر ہوں گے، بلکہ قرآنِ عظیم کا غیر منقوط اردو ترجمہ بھی کر ڈالیں گے۔ اگر وہ یہ جانتا تو شاید قرآن پر نقطے لگانے کا تکلف نہ کرتا۔
کس قدر عجوبۂ روزگار ہے کہ ایک عربی نے قرآن پر نقطے لگائے تو ایک عجمی طاہر مصطفی نے اپنی زبان میں سارے قرآن کے نقطے غائب کردیئے۔
بلا خوفِ تردید یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اردو زبان میں یہ پہلا اور شاید مستقبل قریب و بعید تک آخری مکمل غیر منقوط ترجمۂ قرآن ہوگا۔
مستدرک حاکم کی ایک روایت لامنفضی عجایبہ کے مطابق کتنے ہی شاہکارِ قرآنی منظرعام پر آجائیں اور کیا عجب کہ اس ترجمۂ قرآن کے دوران بحورِ قرآن کی غوّاصی کرنے والے ڈاکٹر طاہر مصطفی اس قرآن کے سہارے اور برکت سے فیض پاکر اس سعادت سے بھی مشرف ہوجائیں کہ غیر منقوط اردو تفسیر قرآن بھی لکھ ڈالیں۔
ستبدی لک الایام ما کنت جاہلا
ویاتیک بالاخبار لم تزود
(عنقریب زمانہ تمھیں ایسے حالات و واقعات سے ہم کنار کرے گا، جن سے تم ناواقف ہو، اور ایسی ایسی خبریں تمہارے سامنے لاحاضر کرے گا جن کی تم نے تیاری کی ہوگی نہ ہی ان کے بارے میں سوچا ہوگا)
بلاشبہ یہ اللہ کی ہی قدرت ہے کہ اپنے کس بندے سے کیا کام لے لے۔
اس تصنیفِ عجیب سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ڈاکٹر طاہر مصطفی سخت جان اور مشکل پسند عالم ہیں۔ علمی جنون میں مبتلا اور کچھ نیا و عجیب کرنے کے خبط میں مبتلا۔
میں ناچیز معروف اسلامی مفکر، محقق اور معلم ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ’’ڈاکٹر طاہر مصطفی ایک باصلاحیت اسکالر ہیں، میری خواہش ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے وقف کریں۔ اگر وہ حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہوں تو ان کا علم بے پناہ مثبت نتائج پیدا کرسکتا ہے‘‘۔
مگر میری نظر میں ڈاکٹر طاہر مصطفی گیارہویں صدی عیسوی کے معروف عربی فلسفی و شاعر ابوالعلا المعرّی (جو نابینا تھے اور علامہ اقبال کی نظموں میں ان کا فلسفۂ حیات مذکور ہے) کے جداگانہ نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگرچہ وہ اہلِ علم و فضل کے سلسلے میں زمانی اعتبار سے آخر میں آئے مگر وہ کچھ ایسی علمی فتوحات رقم کریں گے، جو پہلے آنے والے نہ کرسکے۔
و انی و ان کنت الاخیر زمانہ
لآت عالم تستطعہ الاوائل
میں ڈاکٹر طاہر مصطفی کو ابوالعلا المعرّی تو قرار نہیں دے رہا، البتہ ان کی ندرتِ کار کا پیرو ضرور سمجھتا ہوں، جس کا ثبوت انہوں نے اپنے اس منفرد اور عجیب ترجمۂ قرآن کی مشکل گھاٹی کو عبور اور بلند چوٹی کو سر کرکے دیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے فاضل سیکریٹری ڈاکٹر اکرام الحق اس دعوے کے موئید ہیں کہ ڈاکٹر طاہر مصطفی سے یہ کام لیا گیا ہے، جس کا محرّک اور قوتِ نافذہ اُن کا قرآن سے گہرا شغف اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید وابستگی ہے۔
نصف حروفِ ابجد کے محدود ذخیرۂ حروف، الفاظ کے ساتھ اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دینا اور وہ بھی معجزاتی طور پر محض دو سال کے قلیل عرصے میں، ناقابلِ یقین ہے۔ ایسے عجائبات کا صدور کسی ایک انسان کے بس میں تو کجا، مقتدر اداروں کی دسترس میں بھی نہیں۔
معروف عربی افسانہ نگار مصطفی یوسف السباعی کے مطابق ایسے محیّر العقول کارناموں کے پس منظر میں اپنے مقصد و منزل سے گہری محبت کارفرما ہوتی ہے، جو حیران کن اور ناقابلِ یقین عجائبات ومتناقضات کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔
ان الحب یفعل العجائب و المتنا قضات۔
یہ عجوبۂ زماں جس کا نام ’’درسِ کلام اللہ‘‘ ہے، آٹھ سال کی طویل طباعتی جدوجہد اور تقریباً تیس لاکھ روپے کے نجی اخراجات و وسائل کے ساتھ خوب صورت اور شاندار مرقع کی شکل میں چند ماہ قبل منظر عام پر آیا اور دنیا بھر کے علمی حلقوں میں تہلکہ خیز پذیرائی سمیٹ چکا ہے۔
مگر اس کا اصل اجر اور صلہ و ستائش تو وہی ہوگا جو بارگاہِ الٰہی میں محفوظ ہے۔وعند اللہ فی ذاک الجزا۔
باریک اور نفیس امپورٹڈ کاغذ پر اس کی طباعت و اشاعت از خود خاصے کی چیز اور توجہ کے قابل ہے، جو مترجم ڈاکٹر طاہر مصطفی، زینت کار حافظ محمد عدنان بشیر، اور ناشر ادارے آرٹ اینڈ گرافکس لاہور، کی فنی مہارت سے زیادہ قرآنِ عظیم سے محبت کی غماز ہے۔ خوب صورت اور مضبوط جِلد اور بڑے سائز کے 421 صفحات پر مشتمل ومحیط یہ عجوبۂ جدید۔ غیر منقوط قرآنی ترجمے کے ساتھ مولانا محمد جوناگڑھی کے معروف منقوط ترجمے اور عربی متن کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
مترجم موصوف کا چار صفحات پر مشتمل حالِ دل اور داستانِ سفر کتاب کے آخر میں شامل ہے، جو دل کو چھولیتا اور گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
تکلف و تکلیف کا مظہر اور مترجم کی حذاقت و مہارتِ علمی اور لفظ و بیان پر قدرت کا یہ شاہکار اہلِ علم کی بھرپور پذیرائی اور اربابِ اختیار و اقتدار کی قدر شناسی کا مستحق ہے۔ یہ ترجمۂ قرآن حاملینِ قرآن کے لیے باعثِ فخر ہے، جو کسی بھی انداز سے خدمتِ قرآن سر انجام دیں۔
شکریہ ڈاکٹر طاہر مصطفی۔ سلام آپ کی سعادتوں کو، اور خراجِ تحسین آپ کی عظیم کاوش، منفرد اعزاز اور لازوال کارنامے کو۔ قرآن نے اور اس کے غیر منقوط ترجمے نے آپ کو بھی امر کردیا۔ اب غیر منقوط ’’مترادفات الفاظ القرآن‘‘ اور ’’غیر منقوط تفسیر القرآن‘‘ کا معرکہ بھی سر کرلیجیے۔