بلوچستان کی نئی سیاسی بساط

بلوچستان کی سیاست میں نئی بساط کے خدوخال ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام میں چند سابق و موجودہ پارلیمنٹرین داخل ہوں گے۔ چند پیپلز پارٹی کے ساتھ مراسم قائم کرنے کے مراحل میں ہیں۔ پیش ازیں سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور سابق وفاقی وزیر و سابق گورنر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، سابق صوبائی وزراء نواب محمد خان شاہوانی اور آغا عرفان کریم پیپلز پارٹی سے نباہ کرچکے ہیں۔ نواب زہری 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ جنرل (ر) عبدالقادر قومی اسمبلی کی نشست پر جیتے تھے۔ نواب زہری اور بعدازاں عبدالقادر پارٹی کے صوبائی صدر بنے۔ جنرل(ر) عبدالقادر کے پاس وفاقی وزارت تھی۔ نواب زہری اس وابستگی کے طفیل صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ نواب محمد خان شاہوانی2013ء کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور اس اسمبلی میں وزیر تھے۔ آغا عرفان کریم2008ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیت کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے، وہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں شامل تھے۔ امروز صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی( باپ) مخلوط حکومت بنا بیٹھی ہے۔ اس جماعت کا مستقبل اور بقاء البتہ سوالیہ نشان ہے۔
ملک میں رائج اس عوامی، جمہوری نظام میں اصول، اخلاقیات اور وفاداریاں مفقود ہیں۔ سارا کھیل شخصی، گروہی و جماعتی برتری و مفادات کے گرد ہے۔ 12اکتوبر1999ء کو اقتدار پر قبضے کے بعد احتساب، شفافیت اور پائیدار جمہوری نظام کا نعرہ لگایا گیا۔ جنرل پرویزمشرف سیاہ و سفید کے مالک بنے، انہوں نے ملک کے صدر اور افواجِ پاکستان کے سربراہ کے بیک وقت عہدے رکھے، جس کے لیے قانون بھی پاس کیا گیا۔ اقتدار کو دوام دینے اور آئینی تحفظ کی خاطر مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے جماعت قائم کی، وہی لوگ اس جماعت سے وابستہ ہوئے جو کل تک مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے اندر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا دم بھرتے تھے۔ بلوچستان کے اندر اس سوچ و ترجیحات کے لوگ لپک لپک کر آمریت کی چھتری کے نیچے جمع ہوتے گئے۔ 30 اپریل2002ء کو ریفرنڈم کے رچائے جانے والے ڈھونگ کے ذریعے پرویزمشرف پانچ سال کے لیے باوردی صدر بنے، ان کی پشت پر یہی لوگ تھے۔ پیپلز پارٹی شیرپائو، تحریک انصاف وغیرہ نے بھی ساتھ دیا۔ اکتوبر2002ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ قائداعظم کو برتری حاصل ہوئی۔ چناں چہ جمعیت علمائے اسلام کی شمولیت سے مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ پارٹی کے صوبائی صدر جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بن گئے۔ سندھ اور پنجاب بھی آمر کی جماعت کی قلمرو میں تھے۔ یہ مضبوط سہارا تھا جس کے دم خم سے پرویزمشرف سر اونچا کرکے حکومت کرتے رہے۔ ان قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اُن پر اعتماد کا اظہار ہوا۔ پرویزمشرف نے کنگ پارٹی کی صدارت اور آرمی چیف کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کو ملک کا مفاد بتایا۔ پھر رفتہ رفتہ اقتدار کی باگیں ڈھیلی ہوتی گئیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی افواج پاکستان کے سربراہ بنے۔ ہوا یوں کہ پنجاب اسمبلی نے جنرل پرویزمشرف کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد پاس کرائی۔
پھر حالات نے رخ موڑا۔ پنجاب اسمبلی کے 369 ارکان میں سے321 نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے۔ اس اسمبلی میں، پھر خیبر پختون خوا اور سندھ اسمبلی سے بھاری اکثریت بلکہ بغیر کسی مخالفت کے مواخذے کی قراردادیں منظور ہوگئیں۔ لمبا عرصہ ساتھ دینے والوں نے منہ موڑ لیا۔ اس طرح پرویز مشرف راندۂ درگاہ ہوئے۔ صدارتی انتخاب میں آصف علی زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ (ق) کے صدارتی امیدوار مشاہد حسین سید کو محض 44ووٹ ملے۔ یعنی انہیں قاف لیگ کے ارکان نے بھی ووٹ نہ دیا۔ آصف زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔چناں چہ قاف لیگ کا بلوچستان کے اندر بھی شیرازہ بکھر گیا۔ البتہ یہاں عام انتخابات2008ء کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں قاف لیگ اور اس کے ہم خیال ارکان کی تعداد 19 تھی۔2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں صوبے کے اندر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ چناں چہ قاف لیگ والے نواب اسلم رئیسانی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے کئی اراکین اسمبلی حلقہ بگوشِ پیپلز پارٹی ہوگئے۔ اس اسمبلی سے وقتاً فوقتاً آصف علی زرداری کی حمایت میں قراردادیں پاس کرائی گئیں اور وقت ِآخر دور ہٹتے گئے، حتیٰ کہ گورنر راج کے نفاذ اور اس کے اختتام کے بعد کوئی منظرعام پر نہ تھا۔ نواب اسلم رئیسانی کی راہیں بھی عملاً پیپلز پارٹی سے جدا ہوگئی تھیں۔ ان کے بھائی لشکری رئیسانی پہلے ہی پارٹی اور سینیٹ کی ممبر شپ چھوڑ چکے تھے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد منظرنامہ یکسر تبدیل ہوا۔ نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنی۔ آزاد کامیاب ہونے والے ارکان یعنی مخصوص مائنڈسیٹ یا طرز، سوچ و مزاج کے لوگ نون لیگ کا حصہ بنے۔ یہ اشتراک وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے لیے مسائل کھڑے کرتا، اسمبلی اجلاسوں کا مقاطعہ کرتا، احتجاجاً وزیراعلیٰ، ہائوس نہ جانے کا اعلان کرتے۔ بالآخر اس مائنڈسیٹ کے لوگوں نے گرگٹ کی مانند رنگ بدلا اور میاں نوازشریف پر وار کرنے والوں کے ہم نوا بن گئے۔ قومی اسمبلی میں ظفر اللہ جمالی، جام کمال، خالد مگسی اور دوستین ڈومکی وغیرہ نے ضمیر فروخت کیا، اور صوبے کے اندر مسلم لیگ (ن) سے وابستہ اراکینِ اسمبلی اور قاف لیگ کے نام سے موجودہ ارکان نے بھی میاں نوازشریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ نواب زہری کی حکومت کوچلتا کردیا گیا، اور پھر سیاہ پردوں کے پیچھے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ’’کنگ‘‘ جماعت کی تشکیل ہوگئی۔سب باغی اس میں جمع کردیے گئے اور بلوچستان میں حکومت دلادی۔

بلوچستان کی نئی سیاسی بساط/جلال نورزئی
دیکھتے ہیں کہ آئندہ کون سا رنگ جمے گا۔ یاد رہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران2013ء کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ شاید انہیں وزیراعلیٰ بننے کی خواہش دامن گیر ہوئی تھی۔ سو نواب اسلم رئیسانی، میر ظفر اللہ زہری جو سردار اسرار زہری کے چھوٹے بھائی اور نواب ثناء اللہ زہری کے سوتیلے بھائی ہیں، جے یو آئی میں جارہے ہیں۔ امان اللہ نوتیزئی جو پچھلی حکوت میں قاف لیگ سے کامیاب ہوئے تھے اور وزارت رکھتے تھے، اور نوشکی سے غلام دستگیر بھی شامل ہوں گے۔ غلام دستگیر کی وابستگی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تھی۔ گویا جمعیت علمائے اسلام اپنے طور پر صوبے میں اپنا وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ مذکورہ تجزیے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ تعلق محض اقتدار کی غلام گردشوں سے جڑا ہوگا جس کا مقصد پورا نہ ہو تو راہیں جدا ہوں گی۔