19 دسمبر2021ء کو خیبر پختون خوا کے 17 اضلاع میں پہلے مرحلے کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبے میں پچھلے آٹھ سال سے برسرِاقتدار پاکستان تحریک انصاف کو عبرت ناک شکست کے نتیجے میں پہنچنے والے دھچکے کو جہاں خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی پسپائی کے آغاز سے تعبیر کیا جارہا ہے، وہاں اس اچانک اور غیر متوقع دھماکے کی بازگشت وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کی دیگر مرکزی قیادت کو بھی پریشان کیے ہوئے ہے۔ یہ شاید خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کو گزشتہ پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پہنچنے والے سیاسی دھچکے کی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ نتائج سامنے آنے کے بعد اگر ایک طرف اس شکست کے اسباب معلوم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا، تو دوسری جانب جب وہ گزشتہ روز پشاور تشریف لائے تو ماضی کے برعکس انہیں گورنر اور وزیراعلیٰ کے علاوہ صوبائی وزراء، ارکانِ پارلیمنٹ اور پارٹی کے دیگر عہدے داران کے ساتھ بھی طویل نشست کرنا پڑی۔ ان ملاقاتوں کو بظاہر تو پارٹی کا اندرونی معاملہ قرار دے کر خفیہ رکھا جارہا ہے، لیکن باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان خیبر پختون خوا میں پارٹی کی حالیہ شکست پر کچھ زیادہ ہی پریشان اور جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آئے۔
عمران خان کے حالیہ دورۂ پشاور کے موقع پر گورنر اور وزیراعلیٰ سمیت دیگر صوبائی وزراء اور پارٹی عہدے داران سے ہونے والی ملاقاتوں میں حال ہی میں پارٹی کے صوبائی صدر مقرر کیے جانے والے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کی عدم موجودگی کو نہ صرف ہر سطح پر محسوس کیا گیا بلکہ بعض حلقے اُن کی غیر موجودگی کے تانے بانے اُن کی جانب سے گزشتہ دنوں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہونے والی تندو تیز گفتگو اور اس گفتگو کے نتیجے میں پارٹی میں پائی جانے والی بے چینی، اور مسلم لیگ (ن) سے مقتدر حلقوں کی ہونے والی مبینہ ملاقاتوں اور مستقبل قریب میں پارلیمنٹ کے اندر کسی ممکنہ تبدیلی کی افواہوں سے بھی ملا رہے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں اِس وقت موجود اکثر وفاقی وزراء اور ارکانِ قومی اسمبلی کو بلاشک وشبہ سیاسی خانہ بدوشوں کے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے اور اس تلخ حقیقت پر کبھی کسی کا کوئی بڑا اعتراض بھی سامنے نہیں آیا۔ ان شخصیات میں دوسروں سے قطع نظر ایک بڑا نام خود وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک کا ہے، جو ماضی میں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی فیصلے کرنے کے حوالے سے خاصے مشہور رہے ہیں۔ آزاد حیثیت میں ضلع کونسل کی نشست سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے پرویز خٹک پچھلی دو دہائیوں سے پیپلزپارٹی، اے این پی اور شیرپائوگروپ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی تک کا طویل سیاسی سفر طے کرچکے ہیں۔ متعدد مرتبہ صوبائی وزیر رہنے کے علاوہ وہ نہ صرف صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، بلکہ آج کل وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی دیگر تمام وزراء کی نسبت سیاسی طور پر سب سے زیادہ فعال اور سرگرم نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پر اُس کی اتحادی جماعتوں یا اپوزیشن کی جانب سے جب بھی کوئی کڑا وقت آتا ہے تو مشاورت اور صلح کے لیے وزیراعظم عمران خان کی نگاہِ انتخاب پرویز خٹک پر ہی پڑتی ہے، جس کی وجہ اُن کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ قریبی رابطوں کے علاوہ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور جوڑ توڑ کی شہرت ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ پرویز خٹک نے 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں خیبر پختون خوا میں پارٹی کی تاریخی کامیابی میں جو کردار ادا کیا تھا اس کی بنیاد پر وہ 2018ء میں بھی وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط امیدوار اور خواہش مند تھے، لیکن وفاق میں پارٹی نمبرز کی کمی کے پیش نظر انہیں اُن کی خواہش کے برعکس وفاق بھیج دیا گیا تھا، جس پر وہ خاصے ملول تھے، اور بعد ازاں اُن ہی کی سفارش پر محمود خان کو اُن کے مدمقابل وزارتِ اعلیٰ کے ہارٹ فیورٹ اور عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے عاطف خان کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔ اسی طرح اب جب پارٹی پر دوبارہ کڑا وقت آیا ہے تو صوبے میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے پارٹی قائد عمران خان کی نظر التفات پرویز خٹک پر پڑی ہے، لیکن گزشتہ دنوں پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں پرویز خٹک اور عمران خان کے درمیان تلخ کلامی کی جو اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں، اور پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کی سرپرستی سے محرومی کا جو تاثرابھر رہا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آنے والے دن پی ٹی آئی کے لیے مزید مشکلات اور شاید مزید سیاسی ابتری کا باعث ثابت ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی پسپائی پر بات کرتے ہوئے ہمیں جہاں صوبے میں ہونے والے بعض ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کو نہیں بھولنا چاہیے، وہاں 19 دسمبر2021ء کو 17 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پشاور سمیت وسطی اضلاع سے پی ٹی آئی کا جس بڑے پیمانے پر صفایا ہوا ہے وہ بجائے خود پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو اگر ایک طرف صوبے کی 45 تحصیلوں میں شکست کا سامنا کرنا
خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کی سیاسی پسپائی/عالمگیر آفریدی
پڑا ہے، تو دوسری جانب پشاور، مردان اور چارسدہ جہاں سے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے تقریباًکلین سویپ کیا تھا، وہاں بھی اسے شدید ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے، جس کی نمایاں مثال پشاور کی 6 تحصیلوں میں صرف ایک حسن خیل تحصیل پر اس کی کامیابی ہے، جبکہ بقیہ پانچ تحصیلوں میں سے ایک چمکنی تحصیل پر اے این پی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ باقی چار تحصیلوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدواران واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح پشاور شہر کی میئرکی نشست پر بھی پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ یہاں سے بھی جمعیت علمائے اسلام(ف) کے امیدوار زبیر علی جو کہ سابق ضلع ناظم اور سینیٹر حاجی غلام علی کے فرزند اور مولانا فضل الرحمان کے داماد ہیں، بھاری اکثریت سے فتح سے ہم کنار ہوئے ہیں۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اگر جماعتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یہ انتخابات ایک طرف پی ٹی آئی کے لیے سیاسی رسوائی کا باعث بنے ہیں تو دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جو اَب تک حقیقی معنوں میں پی ٹی آئی کی سخت ترین مخالف سمجھی جاتی رہی تھی، غیر متوقع طور پر نمایاں کامیابی سمیٹ کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ جبکہ اس مرحلے میں اے این پی نشستوں اور ووٹوں کے لحاظ سے تیسری، مسلم لیگ(ن) چوتھی اور جماعت اسلامی پانچویں پوزیشن پر آئی ہے۔ پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج سب سے زیادہ جہاں پیپلز پارٹی کے لیے دھچکے کا باعث بنے ہیں وہاں 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں بہترین نتائج کے ساتھ خیبر پختون خوا کی سیاست میں حیران کن انٹری دینے والی قومی وطن پارٹی کے لیے بھی انتہائی مایوس کن رہے ہیں۔ لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات جو کہ مارچ کے آخر ی ہفتے میں متوقع ہیں، حتیٰ کہ آئندہ عام نتخابات بھی حکمران پی ٹی آئی سمیت جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔