حکومت نے پانچ سالہ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی ہے، اس پالیسی کے خدوخال سامنے لائے گئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کو زبردست اقدام قرار دیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے عوامی ورژن میں بنیادی سلامتی امور کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فی الحال قومی سلامتی پالیسی کے ایک حصے کا اجرا کیا گیا ہے، اس کا دوسرا حصہ خفیہ رہے گا جس میں خارجی و داخلی امور، معیشت، تجارت، تعلیم سمیت تمام معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی ذمے داری ہوگی کہ اس حوالے سے پیش رفت کا مسلسل جائزہ لیتی رہے۔
قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے غور و خوض کا آغاز مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے اس کا ابتدائی مسودہ تیار کیا تھا۔ بنیادی خیال یہ پیشِ نظر رکھا گیا کہ دنیا میں سیکورٹی کا تصور تبدیل ہورہا ہے، عوام کو اب اصل سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ پہلے سیکورٹی فوج اور سرحدوں تک محدود تھی، اب اس کا تعلق عوام سے جڑ گیا ہے۔ یہ ایک نیا تصور ہے اور پارلیمنٹ میں اسے زیربحث لانا ضروری ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے اور یہ کوئی راز نہیں رہا کہ پاکستانی ریاست سماجی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کرپائی جو ترجیحی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے تھا۔ قرض لے لے کر اخراجات پورے کرنے کی روش اپنا لی گئی۔ قومی سلامتی پالیسی میں ان تمام امور کا احاطہ کرکے درست سمت میں قدم اٹھایا گیا ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے، جب یہ بات طے ہے تو پھر پالیسی میں یہ بات ترجیحاً شامل کی جانی چاہیے، اور عملی اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔ محض کاغذوں میں پالیسی بنادینے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی تیز رفتار اور نتیجہ خیز اقدامات کرنا ہوں گے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ ہے، مقبوضہ کشمیر سے متعلق دنیا کے متعصب ترین حکمران بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے پانچ اگست کے اقدام کے خلاف ردعمل بھی پالیسی میں نظر آنا چاہیے تھا۔ قومی سلامتی پالیسی کے لیے معیشت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ جب معیشت مضبوط ہوگی تبھی دفاع مضبوط ہوگا، لیکن ملک میں آئین ہے، اور اس کے اندر رہتے ہوئے نظام حکومت بھی دیا گیا ہے، تو پھر آئین پر عمل ہی کے ذریعے قومی سلامتی پالیسی تشکیل دیے جانے کی ضرورت تھی۔
یہ وہی پالیسی ہے جس کا آغاز سابق حکومت کے دور میں ہوا تھا، یہ پالیسی سات سال کی محنت کے بعد متفقہ طور پر مرتب کی گئی ہے۔ پاکستان نے 74 سال بعد قومی سلامتی پالیسی بنائی ہے جس میں دیکھا جائے تو پاکستان روایتی سلامتی کو غیر روایتی سلامتی سے تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس میں خوراک، آبادی، روزگار سمیت دیگر غیر روایتی سیکورٹی امور پر بھی بات ہورہی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں قومی سطح پر ایک سمت کا تعین کردیا گیا ہے، قومی سلامتی پالیسی میں پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ جنگ میں پہل نہیں ہوگی، تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ اب قومی مفادات پر سمجھوتا کرکے کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
اس پالیسی کی تیاری میں چھ سو سے زائد نوجوان طلبہ سے بھی رائے لی گئی جو کہ اس پالیسی کو مستقبل کے مطابق ڈھالنے میں معاون ہوگی۔ یہ وہی پالیسی ہے جو گزشتہ سال مارچ میں سیکورٹی ڈائیلاگ کانفرنس کے نام سے زیربحث لائی گئی تھی، جس کے لیے بنیادی سوچ یہی تھی کہ پہلے اپنا گھر صاف کیا جائے۔ لہٰذا اس کانفرنس میں جو فیصلے ہوئے، جن نکات پر اتفاق ہوا، انہی نکات کو اب مزید نوک پلک سنوار کر قومی سلامتی پالیسی قرار دے کر نافذ کیا جائے گا، یا اسے ہی اختیار کیا جائے گا۔
حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا عوامی ورژن جاری کردیا ہے۔ پالیسی میں بھارت سے متعلق پاکستانی مؤقف میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا عوامی ورژن سرورق سمیت 62 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں لفظ انڈیا یا بھارت 12 مرتبہ استعمال ہوا ہے، جس میں سے 11 مرتبہ منفی، جبکہ صرف ایک مرتبہ مثبت انداز میں اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کی منظوری گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں پہلے نیشنل سیکورٹی کمیٹی اور پھر کابینہ نے دی تھی، جس کے بعد قومی سلامتی پالیسی کا کچھ حصہ عوام کے لیے بھی جاری کیا گیا ہے۔ کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے کہ ماضی میں حکومتیں ایسی پالیسی کیوں نہیں دے سکیں؟ ان سب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نائن الیون کے بعد جب دنیا بدلی تو پاکستان نے بھی خود کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نائن الیون کے بعد ہی ہمیں مسلم دنیا میں نئی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، یہ تبدیلیاں وہی ہیں جو امریکہ چاہ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی پرویزمشرف دور سے اب تک نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں سمیت ہر حکومت نے کچھ نہ کچھ تبدیل کیا ہے، لہٰذا اب عمران حکومت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس پالیسی میں آخر ہے کیا؟ اور یہ بات کیوں کی جارہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پسِ پشت چلا گیا؟ اگر بھارت کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق پانچ اگست کے اقدام کو دیکھا جائے اور اس پر پاکستان کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو فضا میں خاموشی اشاروں کی زبان میں بہت کچھ سمجھا سکتی ہے۔ اگر یہ پالیسی عقاب کی مانند اسلامی نظریاتی نگاہوں کے پہروں کے ساتھ دیکھنی ہے تو پھر اس کے اپنے الگ دلائل ہوں گے، مگر یہ پالیسی عقاب نہیں بلکہ فاختہ کا دل رکھنے والے وزیراعظم نے پیش کی ہے، لہٰذا اسے عقابی پالیسی کا نام دینا مشکل لگتا ہے۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی کے رسمی اعلان میں ادھوری سی ابتدائی وضاحت میں بظاہر پالیسی خاصی اختراعی لگتی ہے، یہ حکومت کی جانب سے ملک کے ایک حساس اور ترجیحی شعبے کی پالیسی کا اعلان ہے۔ پالیسی کا بظاہر امتیاز و خاصہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’’سیکورٹی‘‘ کے روایتی تصور سے ہٹ کر ملکی سلامتی کو عوامی ضروریات اور قومی اقتصادیات کی علمی بنیاد کے ساتھ جوڑکر نیشنل سیکورٹی کو ایک مربوط شکل میں لایا جائے گا، جو پاکستان ہی نہیں ترقی پذیر دنیا میں سلامتی کی قومی پالیسی کا یکسر نیا ماڈل ہوگا۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی نیشنل سیکورٹی کو ہیومن ڈویلپمنٹ سے تو نہیں جوڑتے، تاہم اس کا امن و سلامتی کے متعلقہ علوم سے گہرا تعلق قائم کیا جاتا ہے، تبھی یہ طاقتور ترقی یافتہ ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات اور امن و دفاع کی پالیسی کے لیے بڑا انحصار یونیورسٹیوں پر کرتے ہیں۔ یہ پالیسی قومی سلامتی کے تازہ ترین تصور ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ پر تیار کی گئی ہے۔ اس بنیاد پر یورپ کی فلاحی ریاستیں تو نیشنل سیکورٹی کی حامل ہیں لیکن امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ عسکری بجٹ کا حامل ملک ہے، اور بھارت اُس کی پیروی کرتا ہے۔ عوام کی اقتصادی، سماجی حالت بھی دنیا کے سامنے ہے۔
ہیومن سیکورٹی کا تصور کوئی اتنا نیابھی نہیں ہے، اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے یہ تصور ڈاکٹر محبوب الحق سے لیا تھا۔قومی سلامتی بذریعہ عوامی خوشحالی و استحکام کی اپروچ کا تصور اسی کا عکاس ہے، اسی لیے تجسس پیدا ہوا کہ ہم ماضی میں کچھ مختلف سوچتے رہے ہیں اور یہ پالیسی ہمیں سوچ تبدیل کرنے کا درس دے رہی ہے۔ اس پالیسی میں تجارت ترجیح اوّل کے ساتھ بنیادی اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے شامل ہوجائے گی؟ کیا یہی پالیسی اس خطے کے ممالک کے لیے بھی ہوگی؟ اس پالیسی میں سب کچھ بتا دیا گیا ہے، تاہم یہ بات نہیں بتائی گئی کہ کیا پارلیمنٹ سے اس کی حتمی منظوری لی جائے گی، اور کیا پارلیمنٹ کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ایک نظریاتی مسلم ریاست کی پالیسی کے تناظر میں اس کا جائزہ لے سکے؟ یہ سوال یقیناً اہمیت کا حامل ہے اور ہونا بھی چاہیے، تاکہ عوام کے منتخب ایوان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روح کے عین مطابق اس کا جائزہ لیا جائے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانا کسی بھی حکومت کا اہم ترین فریضہ ہے، تاہم کسی ملک کا محض فوجی اعتبار سے مستحکم ہونا اس مقصد کے لیے ہرگز کافی نہیں۔ روس اور امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک یا معاشرہ اپنی قومی سلامتی کا ہدف اسی صورت میں حاصل کرسکتا ہے جب اس میں رہنے بسنے والے لوگ مطمئن زندگی بسر کررہے ہوں، حق تلفی کا شکار نہ ہوں، اور انہیں کسی بھی سطح پرظلم و استحصال کا سامنا نہ ہو۔ ریاست ہی بنیادی انسانی حقوق کی ضامن اور محافظ ہوتی ہے، وہی ذمے دار ہے کہ فوری اور ارزاں انصاف میسر رہے، قومی سطح پر مکمل اتحاد و اتفاق ہو۔ دفاع کے ساتھ ملک کا معیشت میں بھی خودکفیل ہونا لازم ہے۔ ان سب اہداف کے لیے ایک متفقہ قومی حکمتِ عملی وضع کیے جانے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، حکومت نے اس سمت میں پیش رفت کی ہے اور پانچ سالہ ایک قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی ہے۔ سول ملٹری تعلقات کی آئین سے ماورا معکوس صورت کے پس منظر میں قومی سلامتی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے ایک مجموعی حکومت کی ایجنسی متعارف کروائی گئی ہے جو غالباً منتخب حکومت سے بالا اور وسیع تر ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کا ایک حصہ مشتہر کیا گیا ہے جو ملک کی داخلی و خارجی سیکورٹی اور اہم ریاستی معاملات سے متعلق ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پالیسی جاری کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض مانگنے کے نتیجے میں کسی نہ کسی پہلو سے ملکی سلامتی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، ہم مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور قرض لینے کے لیے اُس کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں، اور جب شرائط مانتے ہیں تو عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، جبکہ سب سے بڑی سیکورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام مطمئن ہوں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے یہ تجزیہ واضح طور پر مبنی برحقیقت ہے کہ مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط عوام کے لیے مشکل کا سبب بنتی ہیں جس سے عوام متنفر ہوجاتے ہیں۔
قومی سلامتی پالیسی جس قدر ہمہ پہلو اور وسیع البنیاد ہے، اس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسے صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنایا جاسکا تو قومی یگانگت کی منزل سرکی جا سکے گی۔ پالیسی کا محور عام شہری کا تحفظ اور معاشی سیکورٹی ہے۔ اس کے بنیادی نکات میں قومی مفاہمت کے قیام، ملک کے معاشی مستقبل کے تحفظ، دفاع اور سرحدی سالمیت، داخلی سیکورٹی اور بدلتی دنیا میں ملک کی خارجہ پالیسی اور شہریوں کے تحفظ، غریب اور امیر کے درمیان بڑھتے فرق سے معاشی عدم استحکام کے باعث درپیش خطرات، موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی قلت جیسے مسائل کے ممکنہ حل کے متعلق سفارشات شامل ہیں۔
حکومت کی مرتب کردہ قومی ہم آہنگی کی ضرورت واضح کرنے والی اس دستاویز کے برخلاف گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی منافرت بڑھی ہے، احتساب کے عمل کو شفاف اور غیر جانب دارانہ رکھنے میں مکمل ناکامی ہوئی ہے، اور اسے عملاً صرف سیاسی مخالفین تک محدود کردیا گیا ہے جس سے یہ عمل غیر معتبر ہوچکا ہے، جب کہ اس کے سامنے پارلیمنٹ تک عملاً بے وزن ہے کہ طلب کیے جانے کے باوجود نیب کے چیئرمین پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہورہے، اور پارلیمنٹ کا حال یہ ہے کہ قانون سازی صدارتی فرامین کے ذریعے ہوتی رہی، لہٰذا حکومت اگر پالیسی کے اہداف واقعتاً حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی یہ روش بدلنی ہوگی، اپوزیشن کے ساتھ کم ازکم فنکشنل روابط قائم کرنا اور احتساب کے عمل کو شفاف اور بلاامتیاز بنانا ہوگا، اس کے بغیر قومی سلامتی پالیسی کے مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں۔ کشمیر ہماری خارجہ اور قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی جزو ہے، مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ مسئلہ پھر سے دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی منظور شدہ قراردادوں کی صورت میں موجود ہے لیکن تاحال حل طلب چلا آرہا ہے۔ مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ ہماری حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ بھارت سے 100سالہ امن کے لیے کشمیر کو پس پشت ڈال دیا جائے، قومی سلامتی پالیسی کے تحت سیکورٹی عام شہری کا جانی و معاشی تحفظ ہے، ہماری جامع قومی سلامتی پالیسی کا دارومدار معاشی پالیسی پر ہے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے لیکن ہماری اپنی شرائط ہیں، پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت دیا جائے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، لیکن بھارت کی طرف سے حقِ خودارادیت سے مسلسل انکار نے حالات کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔
74برس میں پہلی قومی سلامتی پالیسی (NSP) مرتب کرلی گئی ہے اور وہ بھی پارلیمنٹ سے بالا بالا۔ سوال اُٹھتا ہے کہ 74 برس تک قومی سلامتی کا جو نظریہ ریاستی سلامتی دے سکا نہ انسانی سلامتی… وہ گویا موجود ہی نہ تھا؟ بھلا قومی سلامتی کے مارشل تصور کے تنقیدی جائزے سے نتائج اخذ کیے بنا قومی سلامتی کا کوئی نیا تصور کیسے اُبھر کر سامنے آسکتا ہے؟ اس پر مٹی ڈالنے کی معصومانہ چالاکی کو نظرانداز کیے بغیر سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’’پہلی‘‘ قومی سلامتی پالیسی میں ایسا نیا کیا ہے جس پر اتنی داد وصول کی جارہی ہے؟ معاشی سلامتی کے بغیر قومی سلامتی ممکن نہیں، غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبی مفلوک الحال معیشت قومی سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ کایا پلٹنے کے لیے ملک میں جمہوریت کو یقینی بنانا ہوگا، پالیمان کے ذریعے فیصلے کرنا ہوں گے، اور پورے نظام کو آئین کے کھونٹوں سے باندھنا ہوگا۔
قومی سلامتی کی ’’نئی پالیسی‘‘ کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ایک نحیف، دستِ نگر اور کم پیداواری معیشت قرضوں کا بڑھتا ہوا ناقابلِ برداشت بھاری بھرکم بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ نہیں اُٹھاسکتی۔ قومی سلامتی پالیسی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی طرح سے معیشت کا حجم بڑھایا جائے۔ پاکستان کی سیاسی معیشت اور حکمران طبقات کا ایسا خوفناک شکنجہ ہے کہ محنت کش طبقات اور تمام پیشہ ور سماجی پرتوں کے لیے زندگی کی تمام تر نعمتیں معدوم ہوکر رہ گئی ہیں، اور کروڑوں خواندہ و نیم خواندہ نوجوان دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ انسانی سلامتی کے پیمانوں اور اشاریوں سے متعلق جب بھی بات ہوگی تو ناداری کا خاتمہ، بھوک کا مٹنا، توانا صحت اور فلاح و بہبود، اعلیٰ تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور صفائی، سستی اور صاف توانائی، مناسب کام و معاشی نمو، صنعت، تخلیق اور بنیادی ڈھانچہ، عدم مساوات کا خاتمہ، پائیدار شہر اور انسانی برادری، محتاط کھپت اور پیداوار، ماحولیاتی تحفظ، زیر زمین پانی، زندگی کا بچائو، زمین پر زندگی کی پائیداری، امن، انصاف اور مؤثر ادارے، مستحکم بنانا ہوں گے۔ اور ان مقاصد کے حصول میں عوامی شرکت لازمی ہے، اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت نے قومی سلامتی پالیسی میں معیشت کو بنیادی نکتہ بنانے کا اعلان تو کردیا مگر یہ نہیں بتا سکی کہ ذرائع آمدنی کہاں سے اور کیسے بڑھائے جائیں گے اور قومی دولت کون کون سے کھاتوں اور شعبوں پہ خرچ کی جائے گی؟