قومی سلامتی پالیسی میں حقیقی سلامتی کا فقدان

روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق قومی سلامتی پالیسی کے اہم نکات سامنے آگئے ہیں۔ ان میں معیشت، فوج اور انسانی تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی سلامتی پالیسی 100 صفحات پر مشتمل ہے جن میں سے 50 صفحات شائع کردیئے جائیں گے، البتہ مزید 50 صفحات کو عام نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی پر سالانہ بنیادوں پر نظرثانی کی جائے گی، اور ہر آنے والی حکومت کو پالیسی میں ردوبدل کا اختیار ہوگا۔ اس سلسلے میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی پالیسی کی وارث ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق پالیسی میں ملکی وسائل کو بڑھانے کی منصوبہ بندی پیش کی گئی ہے، جبکہ کشمیر کو پاکستان کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے، اور اس کے حل کو ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ پالیسی میں بڑھتی ہوئی آبادی کو ہیومن سیکورٹی کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ گڈ گورننس، سیاسی استحکام اور وفاق کی مضبوطی کو بھی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
قومی سلامتی پالیسی قوموں کی ترجیحات اور اُن کے تصورِ زندگی کی عکاس ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قومی سلامتی پالیسی سے ’’حقیقی سلامتی‘‘ کا عنصر غائب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، چنانچہ ہماری قومی سلامتی کا سب سے بڑا ضامن اسلام ہی ہے۔ لیکن قومی سلامتی پالیسی میں اسلام کا ذکر ہی موجود نہیں۔ وہ نہ پہلے نمبر پر ہے، نہ دوسرے نمبر پر، نہ تیسرے نمبر پر۔ پہلے نمبر پر معیشت ہے، دوسرے نمبر پر فوج، اور تیسرے نمبر پر انسانی تحفظ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قومی سلامتی پالیسی وضع کرنے والوں کے لیے اسلام معیشت، فوج اور انسانی تحفظ کے برابر بھی اہم نہیں ہے۔ یہ بات راز نہیں کہ ہر ملک اور ہر قوم کا ایک نظریہ ہوتا ہے، اور وہ نظریہ اس ملک کی سلامتی کا سب سے بڑا ضامن ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ مسلمانوں کا بہترین زمانہ عہدِ رسالتؐ اور عہدِ خلافت ہے۔ ان دونوں ادوار میں نہ مسلمانوں کے پاس سائنس تھی، نہ ٹیکنالوجی تھی، نہ معیشت تھی… ان دونوں ادوار میں مسلمانوں کی زندگی ایک سطح پر ’’خدا مرکز‘‘ تھی، دوسری سطح پر ’’رسولؐ مرکز‘‘ تھی، تیسری سطح پر ’’قرآن مرکز‘‘ تھی۔ عہدِ رسالتؐ میں مسلمانوں کی معیشت کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کے پاس کھانے کو اچھا کھانا، اور پہننے کو اچھا کپڑا نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سب سے معزز تھا مگر اس گھر میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے اللہ مجھے ایک دن بھوکا رکھ تاکہ میں صبر کروں اور دوسرے دن مجھے کچھ کھلا، تاکہ میں شکر کرسکوں۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ہم غزوۂ خیبر تک کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے غزوۂ خیبر 7 ہجری میں ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی پوری مکی زندگی اور ہجرت کے بعد کے کئی سال معاشی تنگ دستی میں گزرے، لیکن مسلمانوں کے یہی سال مسلمانوں کا ’عہدِ زریں‘ ہے۔ عہدِ خلافت میں خلفائے راشدین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے لیے فقر کی زندگی کو پسند کیا۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بہترین زمانوں میں معیشت اور مال و دولت کو اپنے لیے خدا نہیں بنایا۔ انہوں نے کبھی معیشت کی پوجا نہیں کی۔ انہوں نے کبھی معیشت، معیشت کی مالا نہیں جپی۔ وہ ان دونوں ادوار میں اللہ، اللہ، رسول، رسول اور قرآن، قرآن کرتے رہے۔ حضرت عمرؓ کی سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ مصر فتح ہوا تو اہلِ مصر نے اپنے شہر کی کنجی حضرت عمرؓ کے حوالے کرنے کی شرط رکھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے مدینہ سے مکہ کی طرف رنجِ سفر کھینچا۔ آپؓ مصر کے قریب پہنچے تو مصر کا گورنر آپؓ کے استقبال کے لیے آیا۔ اُس نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ کا لباس گرد آلود ہے۔ گورنر نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اہلِ مصر بڑے نفاست پسند ہیں، آپؓ اپنا لباس تبدیل کرلیں تو اچھا ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے، لباس کی وجہ سے نہیں۔ یہ مسئلہ حضرت عمرؓ کی زندگی میں دوبارہ کھڑا ہوا۔ اس بار حضرت عمرؓ کو لباس کی طرف متوجہ کرنے والی حضرت عائشہؓ تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور فرمایا: ’’ہم عسرت کے عہد سے نکل آئے ہیں، اب ہمارے پاس وسائل کی فراوانی ہے، اسلامی ریاست بھی بہت پھیل گئی ہے، دوسری ریاستوں کے والی اور سفرا آپؓ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں اور آپؓ پیوند لگے ہوئے لباس کے ساتھ اُن سے ملاقات کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ، حضرت عائشہؓ کو وہ جواب نہیں دے سکتے تھے جو انہوں نے مصر کے گورنر کو دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عائشہؓ کو وہ جواب دیا جو حضرت عائشہؓ کے لیے سب سے مؤثر تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ یہ جواب سن کر حضرت عائشہؓ کے پاس خاموش ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ تجزیہ کیا جائے تو معیشت کی پوجا اور اسے غیر معمولی اہمیت دینے کا عمل دنیا پرستی ہی کی ایک شکل ہے، اور دنیا پرست کی کسی اسلامی معاشرے اور اسلامی مملکت میں کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ دنیا دھوکے کی ٹٹی یا Smokescreen کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا دیکھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر ٹھیر گئے، صحابہؓ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے پوچھا: ’’کیا تم میں سے کوئی شخص بکری کے اِس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: ’’یہ بچہ مرا ہوا ہے، ہم تو اسے مفت میں بھی لینا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو، دنیا بکری کے اِس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے‘‘۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اِس مملکت کی قومی سلامتی کو بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر چیز سے منسلک کررہا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ بھی فرمایا کہ ’’اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کفار اور مشرکین کو اس کا کوئی حصہ فراہم نہ کیا جاتا‘‘۔ لیکن جس چیز کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مچھر کے پَر سے زیادہ حقیر قرار دیا اُسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی سلامتی کی بنیاد بنایا جارہا ہے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کے نظریے سے غداری کی ایک صورت، اور حکمران طبقے کی لاعلمی بلکہ جہالت کا ایک مظہر ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے حکمران ایسا کرتے ہوئے کافر اور مشرک اقوام کی تقلید کرتے نظر آرہے ہیں۔ جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی، اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن 21 ویں صدی کا مزاج ’’دولت مرکز‘‘ یا ’’ڈالرانہ‘‘ ہے۔ چنانچہ 21 ویں صدی میں انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جارہی ہے۔
قومی سلامتی کے سلسلے میں نظریہ صرف پاکستان کے لیے اہم نہیں، سوویت یونین ایک بے خدا اور لامذہب ریاست تھی مگر اُس کا نظریہ سوشلزم تھا، اور اس نظریئے کو سوویت یونین کی سلامتی کے سلسلے میں بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ امریکہ سیکولر ملک ہے مگر اُس کے لیے اُس کا بنیادی نظریہ اہم ہے۔ امریکہ آزادی، جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت کو نظریۂ حیات بنائے ہوئے ہے، چنانچہ وہ ساری دنیا میں آزادی اور جمہوریت کو برآمد کرنے میں لگا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے قوموں کی سلامتی کے سلسلے میں معیشت کی اہمیت سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد بڑھی۔ لوگوں نے کہا: سوویت یونین سپرپاور تھا، اُس کے پاس ایٹمی صلاحیت تھی، بین البراعظمی میزائل تھے، مگر اُس کی معیشت کمزور تھی، چنانچہ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ اس لیے اب ہر ملک معیشت کی مالا جپتا اور معیشت کے بت کو سجدہ کرتا نظر آرہا ہے۔ لیکن امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس کے باوجود مغرب کے دانش ور اس خیال کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ امریکہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیفن مارچے کی کتاب The Next Civil War: Dispatches from the American Future نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس کتاب میں اسٹیفن مارچے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ امریکہ تیزی کے ساتھ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مارچے کے بقول 2021ء میں کیپٹل ہل پر حملہ ایک باغیانہ عمل تھا اور اب بھی امریکی معاشرے میں باغیانہ رجحانات سر اٹھا رہے ہیں۔ مارچے کے مطابق امریکہ میں خانہ جنگی ہوئی تو فوج اور پولیس ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے صدر کو قتل کردیا جائے۔ (روزنامہ 92 نیوز، کراچی، 11 جنوری 2022ء)
اس سلسلے میں باربرا والٹر کی تصنیف How Civil war start بھی مغرب میں بڑے پیمانے پر زیر بحث آرہی ہے۔ باربرا والٹر نے اِس کتاب میں صاف لکھا ہے کہ امریکہ خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار ہے۔ باربرا والٹر کے مطابق امریکہ میں ایسے مسلح گروپ موجود ہیں جو پُرتشدد انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں اور گاہے گاہے لوگوں کو مارتے رہتے ہیں۔ باربرا والٹر کے مطابق اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آگئے تو امریکہ کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ (دی اکنامسٹ، 8 جنوری 2022ء)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی مضبوط ترین معیشت بھی اُس کی سلامتی کی ضمانت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کا معاملہ تو بالکل ہی مختلف ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا:
سبب کچھ اور ہے، تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اقبال کو ہم ’’مصورِ پاکستان‘‘ کہتے ہیں۔ اقبال کی شاعری دولت پرستی یا دنیا پرستی کے بجائے فقر و استغنا کے ترانوں سے بھری پڑی ہے۔ اسلامی تاریخ میں دل کو ’حکمت کا گھر‘ کہا گیا ہے اور شکم یا پیٹ کو دنیا یا معیشت کی علامت۔ اس حوالے سے اقبال کا معرکہ آرا شعر ہے:
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
کتنی عجیب بات ہے کہ مصورِ پاکستان نے جس چیز کو ’’سامانِ موت‘‘ کہا ہے پاکستان کے حکمران طبقات اسے پاکستان کی سلامتی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک فقر کے ترانوں کا معاملہ ہے تو اقبال نے فقر کو کسی اور چیز پر کیا، علم تک پر فوقیت دی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
علم کا موجود اور، فقر کا موجود اور
اشہد اَن لا الٰہ، اشہد اَن لا الٰہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگہ توڑ دے آئینہِ مہر و ماہ
اقبال فقر کے ترانے گاتے ہوئے کہتے ہیں:
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زورِ حیدرؓ، فقرِ بوذرؓ، صدقِ سلمانیؓ
……٭٭٭……
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ
……٭٭٭……
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
……٭٭٭……
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
……٭٭٭……
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے، وہ آئینہ سازی
افسوس پاکستان کی قومی سلامتی کو تشکیل دیتے ہوئے ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں نے اقبال کے ان افکار سے استفادے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حکمران والدین کی طرح ہوتے ہیں، اور والدین اپنے بچوں کو بہترین رزق پر پالتے ہیں، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے بچوں کو بدترین رزق پر پال رہا ہے۔
قومی سلامتی میں فوج کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، مگر پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب معاشرے اور ریاست میں نظریے کی قوت موجود نہیں ہوتی تو پھر فوج بھی ریاست کی بقا کی ضمانت مہیا نہیں کرپاتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال سقوطِ ڈھاکا ہے۔ اُس وقت ہماری فوج کا شمار دنیا کی بڑی افواج میں ہوتا تھا، مگر ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرمناک طریقے سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ملک ٹوٹ گیا۔ قومی سلامتی پالیسی کا یہ پہلو بھی افسوس ناک ہے کہ اس کی تیاری سے پہلے قوم کیا، ملک کی سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، نہ ہی اس پالیسی کی تشکیل میں دانش وروں سے کوئی مدد لی گئی۔