کراچی کی جماعت اسلامی سولہ دن سے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ وہ ایک شہر کا نہیں،پاکستانِ صغیر کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔
شہرِ قائد کی بربادی ایک المناک داستان ہے جسے لکھنے میں ہر کسی نے حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالا۔ جس کسی کو اقتدار ملا، کلی یا جزوی، اس نے پوری کوشش کی کہ کراچی سے زندگی کے آثار مٹا دیے جائیں۔ جنہیں اس شہر نے اپنا مسیحا جانا، انہوں نے اس کی بربادی میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ اسے عقوبت خانے میں بدل ڈالا۔ اس شہر سے زندگی روٹھ گئی۔ آج اکثریت کے پاس پینے کا پانی ہے نہ صفائی کا کوئی اہتمام۔ یہ شہر نہیں، کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ہے۔ ملک بھر میں کورونا پھیلنے کی شرح سات فیصد ہے، کراچی میں اکتیس فیصد۔
اس داستان کے کرداروں میں صرف ایک استثنیٰ ہے۔ اس کا نام جماعت اسلامی ہے۔ دو بار شہر کے لوگوں نے جماعت پر اعتماد کیا اور دونوں بار اس نے کراچی کو ایسی قیادت دی جس کا اپنا دامن ہر داغ سے صاف رہا مگر اس نے شہریوں کے دامن کو امید سے بھر دیا۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ملک بھر میں دیانت اور حسن ِکارکردگی کا استعارہ بن گئے۔
آج جماعت اسلامی اقتدار میں نہیں لیکن کراچی کا مقدمہ جس طرح لڑ رہی ہے، وہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ ایم کیو ایم نے اس شہر کے ساتھ جو سلوک کیا، اُس سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ رہا کہ اس نے بھی کراچی کو کبھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ سندھ کا اقتدار برسوں سے پیپلز پارٹی کے پاس ہے لیکن اس شہر کے مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ نیا بلدیاتی قانون آیا تو کراچی کے ساتھ سوتیلے بیٹے کا سلوک روا رکھا گیا۔ اس پر جماعت اسلامی سراپا احتجاج بن گئی۔ اس کی بات کو نہیں سنا گیا اور پھر وہ سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوئی۔
کراچی کو کسی طرح پاکستان کے دوسرے شہروں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی اعتبار سے اس کی خاص حیثیت ہے۔ اس کے امن، معاشی استحکام اور سلامتی کے بغیر ملک کے استحکام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی مرکزی اور صوبائی حکومت کراچی کی اس اہمیت کا انکار نہیں کرسکتی۔ میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا کوئی ایک مطالبہ ایسا نہیں جسے غلط کہا جائے۔ میں یہ مطالبات یہاں نقل کررہا ہوں۔ آپ ان پر نظر ڈالیے اور خود انصاف کیجیے کہ اس میں کون سا مطالبہ ایسا ہے جو ناجائز ہے:
”1۔ پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اوسطاً 20 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ اس معیار پر کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 600ہونی چاہیے لیکن آج ان کی تعداد صرف 233ہے۔ جب زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہیں۔ لہٰذا یہ تعداد بڑھائی جائے۔
2۔ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔ جس طرح لندن، پیرس، استنبول، اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے، کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے۔
3۔ واٹر بورڈ کا قیام 1983ء میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں ہوا تھا۔ یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا اور پچھلے 14سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند کا اضافہ نہیں کیا۔ 100ملین گیلن پانی روزانہ کی فراہمی کا آخری منصوبہ اگست 2003ء میں نعمت اللہ خان کے دور میں بنا۔ کراچی میں پانی کا بدترین بحران ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے حوالے کیا جائے۔
4۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کے پاس ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت نے 14سال میں صرف 10 بسیں چلائیں جبکہ آج شہر کو پانچ ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ جب 2001ء سے 2005ء تک کراچی میں ایک بااختیار سٹی ناظم تھا تو صرف چارسال میں 364بڑی اور کشادہ ایئرکنڈیشنڈ بسیں 15سے زائد روٹس پر چلتی تھیں۔ 2005ء سے2010ء تک دوسری شہری حکومت نے مزید 70 بسیں چلائیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 14سال میں صرف 10بسیں چلائی ہیں۔
5 ۔ کراچی میں تین ہزار سے زیادہ سرکاری اسکول ہیں، یہ تمام سرکاری اسکول پہلے سٹی ناظم کے پاس تھے۔ پیپلز پارٹی نے یہ اسکول چھین لیے۔ میئر کراچی کے پاس صرف کے ایم سی کے اسکول رہ گئے تھے جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے، مگر اب نئے بلدیاتی قانون کے مطابق میئر کے ماتحت کوئی اسکول نہیں ہوگا۔ کے ایم سی کے سیکڑوں اسکولوں پر بھی صوبائی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ اگر یہ ہزاروں اسکول دیانت داری اور اچھے وژن کے مطابق چلائے جائیں تو شہریوں کی مہنگے پرائیویٹ اسکولوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔
6۔ نئے بلدیاتی قانون 2021ء کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیر کنٹرول عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، سوبھراج ہسپتال، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر ہسپتالوں اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کردیا ہے۔
7۔ ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد علاقوں میں رہائشی منصوبے شروع کیے گئے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت پر پلاٹ مل گئے۔ سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا۔ مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے۔ سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا کر اس پر قبضہ کرلیا ہے۔
8۔ کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ بدانتظامی کی آماجگاہ ہے۔ سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں، نہ عدالتوں میں شنوائی ہورہی ہے اور نہ سندھ حکومت میں۔ ان سوسائٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔“
یہ سندھ حکومت سے جماعت اسلامی کے مطالبات ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جسے ناجائز کہا جاسکے۔ کراچی میں آبادی کا بڑا حصہ ایک خاص لسانی شناخت رکھتا ہے۔ جب ان کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو لسانی عصبیت کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے، وہ ہم بچشمِ سر دیکھ چکے۔ جماعت اسلامی لسانی یا علاقائی عصبیت کی سیاست نہیں کرتی۔ اگر آج اس کے مطالبات پر کان نہیں دھرے جاتے تو اس کا مطلب لسانی عصبیت کی سیاست کو موقع دینا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان لسانی یا قومی عصبیت کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
پیپلزپارٹی ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کراچی کے مسائل کو محدود سیاسی مفادات کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کے تناظر میں دیکھے۔ کراچی کی قومی حیثیت کے پیشِ نظر یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ شہری حقوق کی اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔
(خورشید ندیم۔ روزنامہ دنیا، 15 جنوری 2022ء)